کاش ہم میں بہت سے بلور ہوتے


بے نظیر بھٹو شھید بی بی کی عظیم شہادت نے اس ملک میں اتنی بے یقینی کی صورتحال پیدا کردی کہ طاقت ور طبقات کے لئے ایک ہی راستہ رہ گیا تھا کہ وہ اقتدار ملک کے حقیقی نمائندوں کو منتقل کر دے۔ شہید بی بی کے خون کی بدولت ملک میں جمہوریت تو بحال ہو گئی لیکن وطن عزیز ہر طرف سے دہشت گردوں کے قبضے کنٹرول اور نرغے میں تھا۔ سوات میں تو طالبان اپنی باقاعدہ حکومت بنا چکے تھے اور ریاست کے اندر ریاست بن چکی تھی۔ وحشت، دہشت، اور بر بریت کا یہ عالم تھا کہ کوئی بھی شخص اگر طالبان کی جزوی مخالفت بھی کرتا تو ایسے بے دردی سے قتل کر دیا جاتا تھا دوہزار آٹھ کے الیکشن میں آج کے خیبر پختونخواہ اور اسوقت کے این ڈبلیو ایف پی میں عوامی نیشنل پارٹی کو اقتدار ملتا ہے۔

اب ایک عجیب سی صورتحال بنی ہوتی ہے سابق ڈیکٹیٹر کی غلط پالیسوں کی وجہ سے پختونخوا کے عوام کی ہمدریاں طالبان کساتھ تھی اور قوم کسی بھی صورت میں طالبان کے ساتھ جنگ نہی چاھتی دوسری طرف بین الاقوامی دباؤ کی وجہ سے طالبان کے ساتھ مذاکر ات کرنا پاکستان کو عالمی تنہائی کی طرف لے کر جاسکتا تھا لیکن عوامی حکومت جس کے پیچھے قوم کی حمایت ہو اس میں ہمیشہ سخت فیصلے کرنے کی جرت ہوتی ہے اور اسی عوامی طاقت کے زور پر عوامی نیشنل پارٹی نے تمام تر عالمی دباؤ مسترد کر دیا اور طالبان سے جنگ بندی کا اعلان کر کے مذاکر ات شروع کر دیے۔

مذاکر ات کو ایک پر امن معاہدے تک لے کر آگئے اور اس وقت کے صدر آصف علی زرداری ایک مشکل اور سخت فیصلہ کرتے ہوئے اس معاہدے پر دستخط کر دیتے ہیں۔ امن کیطرف یہ ایک انقلابی قدم تھا لیکن تحریک طالبان پاکستان نے اس کا غلط مطلب لیا اور تواتر سے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے رہے تو مجبورا خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت اصولی فیصلہ کرتی ہے کہ امن کی بحالی کے لیے اور آئین کی عملداری کو یقینی بنانے کے لیے طالبان کے ساتھ فیصلہ کن جنگ کی جائے۔

معاہدے کی خلاف ورزی کر کے طالبان نے اپنی عوامی مقبولیت ختم کر دی تھی اور لوگ طالبان کو اسلام اور امن کا دشمن سمجھنے لگے۔ یہ صوبائی حکومت کا سب سے بڑا کارنامہ تھا کہ قوم اور حکومت طالبان کے خلاف ایک پیچ پر تھے۔ سوات آپریشن شروع ہوتا ہے نو سال میں یہ پہلا آپریشن تھا جو کہ محدود وقت میں کامیاب ہوتا ہے سوات پر دوبارہ پاکستان کا جھنڈا لہرایا جاتا ہے۔

اس کے جواب میں طالبان پختونخوا میں پھر سے دھماکے شروع کر دیتے ہیں اور صوبائی دارالحکومت پشاور کو سب سے زیادہ ٹارگٹ کیا جاتا ہے۔ طالبان کے دہشت اور بربریت کا مقابلہ کرنے کے لیے فرزند پیشاور بشیر احمد بلور آگے بڑھتے ہیں وہ طالبان جن کا نام لیتے ہوئے لوگ ڈرتے تھے جن کو بہت بڑے بڑے لیڈر اپنا بھائی کہتے تھے اور میڈیا گروپ ان کے سامنے بے بس ہو جاتے تھے بشیر بلور ان کے سامنے چٹان کی طرح کھڑا ہوجاتا ہے۔

بشیر احمد بلور کے گھر پر راکٹوں سے حملے ہوتے ہیں ان پر سب سے زیادہ خودکش حملے ہوتے ہیں لیکن بلور کی رگوں میں پشاور کی غیرت دوڑ رہی تھی طالبان کی پوری دہشت بلور کے سامنے ڈھیر ہو گی بلور کی للکار آج بھی زند ہ ہے کہ تمہاری خودکش جیکٹیں ختم ہو جائیں گی لیکن ہمارے سینے ختم نہی ہوں گے۔ بشیر بلور اپنی بیوی کو وصیت کرتا ہے اگر تم سن لو کہ بلور میدان سے بھاگ گیا یا بلور نے بزدلی دکھائی تو میرا مرا ہوا منہ نہ دیکھنا۔

شہید بشیر احمد بلور نے اپنے کردار سے ثابت کیا کہ عوامی لیڈر غیرت مند جرت مند اور بہادر ہوتا ہے وہ جیتا بھی عزت کی زندگی ہے اور مرتا بھی عزت کی موت ہے بلور حضرت حسینؓ کے قافلے کا سپاہی تھا۔ جس کی اصول پرستی غیرت ہمت شجاعت اور دانشمندی نے نہ صرف دہشت گردی کا ڈٹ کا مقابلہ کیا بلکہ دہشت گرودں کو شکست بھی دی ہاں لیکن قوم کی حفاظت کرتے کرتے بلور خاندان کا کچھ نہ بچا۔

حسین تو نہی رہا تمہارا گھر نہی رہا
مگر تمہارے بعد کسی ظالم کا ڈر نہی رہا

آج بشیر احمد بلور نہی رہے ان کا جوان بیٹا ہارون بلور نہی رہا مگر وہ اہل پشاور کو امن دے کر گئے۔
کاش وطن عزیز میں بہت سے بلور ہوتے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments