اسلام آباد دھرنا: کریک ڈاؤن کا نشانہ عمران خان یا حافظ سعید


\"wisi-baba\"

کہانی جو دکھائی دے رہی ہو وہ تو دکھانی ہی ہوتی ہے۔ اس کہانی کے اندر بہت سے کہانیاں ہوتی ہیں۔ انہیں بھی ڈھونڈا کرو۔ یہ کہا تھا استاد نے جس کے ہم مداح ہیں۔ ایک ٹریننگ تھی کہ کسی نیوز سٹوری کو کس کس اینگل سے دیکھنا ہے۔ یہ ممکنہ اینگل کہاں کہاں سے کیسے تلاش کرنے ممکن ہیں۔ یہ تلاش یہ طریقے ہر جگہ استعمال ہو سکتے ہیں پر سیاست میں نہیں۔
سیاست ایک ایسا کھیل ہے جس کو کھیلنے والا حالات کے مطابق اپنی چال ہی نہیں بلکہ اپنا مقصد بھی بدل لیتا ہے۔

کپتان نے پاکستانی سیاست کے چھپڑ میں دھرنے کی وزنی چٹان اٹھا کر پھینک دی ہے۔ سیاست کے کھلاڑی بھی اور اسے فالو کرنے والے بھی اور تماشائی بھی بس اب دھرنا ہی سوچ رہے ہیں۔ کانوں میں گیت گونج رہا ہے۔ جب آوے گا کپتان سب کی شان بنے گا نواں (نیا) پاکستان۔

اس بار زیرو میٹر پاکستان بننے کی امید کچھ زیادہ لگ رہی ہے۔ سننے میں یہ آ رہا ہے کہ وہ ملنگ حضرات جنہیں دشمن فوج کی دند بھن (دانت توڑ) تربیت حاصل ہے کپتان کے ساتھ ہی آئیں گے۔ اسلام آباد کی باجی پولیس تو چھوڑیں پنجاب پولیس کے بس کا کام بھی نہیں ہے کہ ملنگ حضرات کے ساتھ پنجہ آزمائی کریں۔ ابھی یہ سب باتیں ہی ہیں۔ ملنگوں کے آنے کی کوئی پکی اطلاع نہیں ہے۔

رانا ثنا اللہ کا کہنا ہے کہ کسی مذہبی تنظیم کے بارے میں ایسی کوئی اطلاع نہیں ہے کہ وہ کپتان کے دھرنے میں شریک ہو رہی ہے۔ کپتان کے دھرنے سے پہلے اٹھائیس تاریخ کو اہل سنت الجماعت کا اسلام آباد میں ایک جلسہ ہے۔ اس جلسے میں دفاع پاکستان کونسل میں شامل جماعتیں شریک ہونگی۔ یہ چند گھنٹوں کا ایک مختصر پروگرام ہے۔ اس جلسے کا کوئی تعلق کپتان کے دھرنے سے ہرگز نہیں ہے۔

مولانا احمد لدھیانوی کو اگر واضح پوزیشن ہی لینی پڑی تو وہ جمہوری نظام کی سپورٹ کریں گے۔ یہ بات ماننے والی لگتی نہیں ہے لیکن آثار کم از کم یہی ہیں۔ حافظ سعید پاکستان کی سیاست میں سرگرم ہوں یہ وقت کا تقاضہ ہے۔ یہی طریقہ ہے جس کو استعمال کر کے حافظ صاحب عسکریت پسندی کے حوالے سے فوکس اور فکس ہونے سے بچ سکتے ہیں۔

حافظ صاحب نے جس طریقے سے اپنی تنظیم کو منظم کیا اور اسے ڈسپلن میں رکھا ہوا ہے تو یہ بات ان کی سمجھ بوجھ اور انتظامی صلاحیت کو ظاہر کرتی ہے۔ ایسی سمجھ بوجھ کے ساتھ کپتان کے ساتھ ملنا دھرنے والی غلطی کرنا ممکن نہیں لگتا۔ کپتان البتہ کچھ بھی کر سکتا ہے، ایک کرکٹ میچ یاد ہے جب پارٹنر شپ توڑنے کے لئے کپتان نے وکٹ کیپر سے بالنگ کروا دی تھی خیر۔

حافظ صاحب کے یا ان کے لوگوں کے دھرنے میں شریک ہونے کی خبریں یوں نکلیں کہ شیخ صاحب کی جلسیوں میں آج کل آدھی نفری حافظ صاحب کے مداحوں اور ملنگوں کی ہی ہوتی ہے۔ شیخ صاحب کی حکمت ڈاکڑی انجینئیرنگ وغیرہ پر ہم شک ظاہر کر سکتے ہیں، لیکن شیخ صاحب بہرحال ایک احتجاجی سائنسدان ضرور ہیں۔

اپنی طرف سے شیخ صاحب نے نواز حکومت کے شیر کو چاروں ٹانگوں سے پکڑ لیا ہے اور اب اس کی گردن میں شکنجہ ڈال رہے ہیں۔ شیخ صاحب بھی مارنے سے زیادہ گھسیٹنے پر یقین رکھتے ہیں۔ اس لئے شکنجہ ڈال کر وہ شیر سے پوچھ پوچھ کر اس کا تراہ نکالیں گے کہ کراں خصی۔

اب یہ نہیں ہو سکتا کہ مسلم لیگ نون والے شیخ صاحب کے واقف نہ ہوں جو مسلم لیگ نون کے ایک مدت تک حامی رہے ہیں۔ آپس کی بات ہے شیخ صاحب آگے جن شیخ صاحب سے چارج ہوتے ہیں وہ بھی نوازشریف کا بڑا پیارا اور چہیتا قریبی ساتھی ہے۔

سیاست کی گول گول باتیں کرنے کے بعد اب ذرا سیدھی بات۔ آہستہ آہستہ مسلم لیگ نون کے اہم عہدیدار کپتان کے دھرنے میں تربیت یافتہ مسلح لوگوں کے آنے کی باتیں کرنا شروع ہو گئے ہیں۔
لگ یہ رہا ہے کہ انہی باتوں کو جواز بنا کر کپتان کی بجائے حافظ صاحب اور ان کے ملنگوں پر ہاتھ ڈالنے کی تیاری ہو رہی ہے۔ یہ کیسے ہو گا کوئی پتہ نہیں پر جب بھی ہو گا پولیس والوں نے اگے لگ کر دوڑیں ہی لگانی ہیں۔ ظاہر ہے پنجاب پولیس کی دوڑیں لگتا دیکھنا اور دیکھتے ہی رہنا ریاست کے لئے ممکن نہیں ہو گا۔ پھر ان کو آنا پڑے گا اپنے پیاروں پر ہاتھ ڈالنا ہو گا۔ جن پر ہاتھ ڈالنے سے وہ ویسے گریز کر رہے ہیں۔

اب یہ صورتحال اسلام آباد میں گھڑمس کرا کے پیدا ہوتی ہے۔ اپنی حکمت اور باریک کاروائیوں سے اس کا انتظام پہلے کر لیا جاتا ہے۔ یہ کرنے والوں کو ہی پتہ ہو گا۔ اس ساری کہانی میں کپتان کے بارے میں نہ سوچیں۔ کپتان ایک عظیم لیڈر ہے۔ وہ ایسے حالات پیدا کر دیتا ہے کہ مطلوبہ مقاصد کا حصول ممکن ہو جاتا ہے۔

ستمبر دو ہزار تیرہ میں کپتان نے کن پھاڑ اعلان کیا تھا جب اس نے طالبان کو دفتر کھول کر دینے کی آفر کی تھی۔ اس اعلان کو سنتے ہی ساری دنیا سن ہو کر رہ گئی تھی۔ آپریشن ضرب عضب پھر جون دو ہزار چودہ میں ہو کر رہا تھا۔ کپتان کے اعلان اور آپریشن کی لانچنگ میں اتنا ہی ٹائم لگا تھا جتنا تیاری میں لگتا ہے کسی وڈے آپریشن کی۔

کپتان نے اگلی مہربانی پھر اسی سال دھرنا دے کے بھی کی تھی۔ اپنے دھرنے میں برگر بچے آنٹی لوگ نچا نچا کر سب کو مشغول رکھا ان کا دھیان بٹائے رکھا۔ اس بار بھی کپتان بڑے جذبے سے اپنی طرف سے حکومت گرانے آ رہا ہے۔ جن کا نشانہ لگوانے لگا ہے نہ انہیں خبر ہے نہ کپتان کو خود پتہ ہے کہ وہ ایسا کیا کارنامہ سرانجام دینے لگا ہے جو رہتی دنیا تک یاد رہے گا اور سیاست کی کتابوں میں پڑھایا جائے گا۔

کپتان کا دھرنا اور اس کا سیاسی احتجاج ان قوتوں سے لے جا کر جوڑ دیا جائے جنہوں نے ساری دنیا کا تراہ نکال رکھا ہے۔ اس سے زیادہ خوش کن صورتحال کپتان کی مخالف حکومت کے لئے نہیں ہو سکتی۔ وہ بیٹھے بٹھائے ساری دنیا میں اپنے حریف کو بدنام کر سکیں گے۔ کپتان کے چندے بند ہوں گے۔ نان سٹیٹ ایکٹر اب سیاسی حکومت کا بھی نشانہ لگانے لگے ہیں۔ ایسی مسکین مظلوم حکومت کرہ ارض پر دوسری نہ ہو گی۔ کپتان کی سیاست تو کھڈ میں گرے گی ہی لیکن حافظ صاحب کے خلاف ایکشن کی بھی راہ ہموار ہو جائے گی۔ کپتان صرف بہانہ ہے حافظ سعید نشانہ ہے۔

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 407 posts and counting.See all posts by wisi

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments