آسمانی آفات اور ہمارے سماجی مباحث


اس میں کوئی شک نہیں کہ الہامی روایت مختلف معمولی و غیرمعمولی کونیاتی حقائق کی تعبیر خدا کی طرف سے ظاہر ہونے والی مختلف آیات یا نشانیوں کے طور پر کرتی ہے۔ لہٰذا کسی بھی آسمانی آفت کے ظاہر ہونے پر الہامی روایت پر ایمان رکھنے والوں کے ذہن کا اپنی روایت کے جانب علامتی طور پر مبذول ہونا ایک معقول سی بات ہے۔ اس لئے عام دیکھا گیا ہے کہ ایسی کسی بھی صورت میں مذہبی شعور ایک فوری عجز کے ساتھ اپنے آپ کو کائنات میں ظاہر ہونے والی ایک خدائی ہیبت کے سامنے جھکا دیتا ہے اور یوں ان غیرمعمولی کونیاتی مظاہر میں کامیابی سے ایسے معنی تلاش کر لیتا ہے جو اس کے وجود سے لاتعلق نہیں ہوتے۔ دوسری طرف غیرمذہبی شعور انہیں ایک صریح طبیعاتی اتفاق سمجھتا ہے اور اس آفاقی لامعنویت سے سر ٹکرا کر خود سوزی کرنے کی بجائے کونیاتی قوتوں کو علم کے ذریعے اپنے دائرہ اختیار میں لانے اور فطرت کو مسخر کرنے کے لئے از سرِ نو کمر کس لیتا ہے۔
ایسے میں وطنِ عزیز کا مخصوص مذہبی سماج ان دونوں قطبین کے بیچ میں کوئی توازن تلاش کرنے کی بجائے ایک نہایت ہی غیرمتوقع راگ الاپتا نظر آتا ہے۔ آسمانی آفات کے فوراً بعد ہمارے کئی محترم مبلغینِ اسلام کو ویسے تو خود اپنے ہی پندونصائح کے مطابق خدا کے آگے سر جھکا کر ’اپنے‘ گناہوں کی معافی مانگنی چاہئے، لیکن یوں لگتا ہے جیسے وہ اپنے بجائے ’ہمارے‘ گناہوں کو کوہِ ہندوکش میں زمین کے دو سو کلومیٹر نیچے پیدا ہونے والے ارتعاش کی علت اولیٰ ثابت کرنے کے موقع کی تلاش میں ہوتے ہیں اور زلزلہ آتے ہی جوق در جوق نمودار ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ان گناہوں میں، جیسا کہ آپ خوب واقف ہیں، فحاشی و عریانی نمبر ایک ہے۔
ان مبلغین کو خیر اس سے تو سرے سے کوئی سروکار نہیں کہ ان کے اس قسم کے بیانات سے کیا علمی پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں، لیکن بہرحال اگر یہ (اعتقادی طور پر) اس پر مصر بھی ہیں تو سمجھ سے باہر ہے کہ اس بات کو ایک عالمگیر سماجی تناظر میں اس طور چھیڑنے سے کہ یہ بظاہر ایک طبیعاتی مظہر سے گڈمڈ ہو جائے، کیا فائدے حاصل کئے جا سکتے ہیں؟
دوسری طرف میڈیا جب ایک سوقیانہ قسم کی سنسنی اور دہشت پھیلا کر فارغ ہوتا ہے، جس میں ہمیں اس قسم کی اہم ترین خبریں بھی مل جاتی ہیں کہ عدالت میں اس وقت لودھراں کیس کی سماعت چل رہی تھی اور فاضل جج نے خود اٹھ کر دروازے کی کنڈی کھولی وغیرہ وغیرہ، تو وہ حافظ سعید یا مفتی نعیم جیسے کسی مبلغ کو ڈھونڈتا ہے تاکہ اہم ترین گرما گرم بحث کا آغاز ہو سکے۔ جی ہاں، توبہ کی دعوت دینے کا اس سے بہتر موقع اور کیا ہو سکتا ہے۔ اس کے فوراً بعد ہی ڈاکٹر ہود بھائی کو دعوت دی جاتی ہے اور ان سے محض یہی بے ضرر سا سوال پوچھا جاتا ہے کہ کیا زلزلے آنے میں ہمارے گناہوں کا بھی کوئی حصہ ہے؟ اب آپ خود ہی بتائیے کہ ہمارے گناہ کون سی طبیعاتی مساوات میں ایک ریاضیاتی متغیرہ (variable) کے طور پر استعمال ہوئے ہیں؟ اس وقت ایسا معلوم ہوتا ہے ڈاکٹر ہودبھائی کا صرف اقرار یا انکار میں سر ہلا دینا بھی ناظرین کے لئے اہم ہے کیوں کہ وہ آج تک کسی بھی آسمانی آفت کے نتیجے میں ان تینوں حضرات کی بات سننے کے بعد ہی توبہ تائب ہونے جیسے اہم مسئلے کے بارے میں کوئی رائے قائم کرتے آئے ہیں۔
(آپ اوپر نوٹ کر چکے ہوں گے کہ خود توبہ کرنے اور توبہ کی دعوت دینے کے بیچ اگر مقابلہ درپیش ہو تو آخر الذکر کے افضل ترین ہونے میں کوئی شک نہیں۔)
یہ سارا ڈرامہ کم و بیش ا ن ہی کرداروں کے ساتھ اب میڈیا پر اتنی بار ہو چکا ہے کہ کسی نشر مکرر کھیل کی طرح لگتا ہے۔ لیکن غور سے دیکھنے والے کو ہر دفعہ مسکرانے کے لئے کوئی نہ کوئی نیا لطیفہ ضرور مل جاتا ہے۔ راقم کو اچھی طرح یاد ہے کہ پچھلے ماہ جب شدید زلزلہ آیا تو پروگرام میں حافظ سعید ہی مدعو تھے۔ اینکر نے دبے دبے لہجے میں کچھ کہا جس سے کچھ معصوم ناظرین غلطی سے یہ مطلب لے سکتے تھے کہ’شکر ہے زیادہ تباہی نہیں ہوئی‘۔ اس پر حافظ صاحب کو شک پڑا کہ شاید اس سے شکرانے والے کیس کے سامنے استغفار والا کیس کمزور پڑ رہا ہے، لہٰذا موصوف اگلے دو تین منٹ زور دے کر کہتے رہے کہ اس زلزلے کو کمزور مت سمجھیں، کافی تباہی ہوئی ہے اور اب بھی وقت ہے کہ گناہوں کی معافی مانگ لی جائے۔
ہمیں تو یہی ڈر ہے کہ کہیں خدانخواستہ کچھ اور ایسے جھٹکوں کی صورت میں ہمارے یہ مخصوص مبلغین دوست کچھ دیسی لبرلز، سائنس پرستوں اور ملحدین وغیرہ کی بھینٹ کا مطالبہ نہ کر دیں تاکہ اجتماعی توبہ کا فریضہ انجام ہو سکے۔
پھر دوسری طرف ان مبلغین کے ردعمل میں وہ گروہ اٹھ کھڑے ہوتے ہیں جو زہریلے لطائف کا تبادلہ شروع کر دیتے ہیں تاکہ موقع کا فائدہ اٹھایا جائے اور مذہبی اعتقادات کا دل کھول کر مذاق اڑایا جائے۔ سوشل میڈیا پر مشاہدہ ہوا کہ ایک صاحب نے قرآن کریم سے سورہ زلزال کی وہ خوبصورت آیت پوسٹ کی جو شاید ایسے ہی موقعوں کی کیا کمال منظر کشی کرتی ہے کہ انسان ہلتی زمین کو دیکھ کر کہے گا کہ یہ اسے کیا ہو رہا ہے؟ ایسے میں کسی دوسرے دوست نے یہ چٹکلہ چھوڑا کہ ’آپ کو شیطان مجبور کرے گا کہ یہ اسٹیٹس لائک نہ کریں‘۔
یہ پورا سماجی منظر نامہ من حیث القوم ہماری علم دشمنی، ایک دوسرے سے بغض اور عمومی تنگ نظری جیسے سماجی خصائص کا بہترین عکاس ہے۔ ایسے موقعوں پر جب دوسری اقوام نظریاتی جنگیں پسِ پشت ڈال کر مسئلے کے عملی پہلوو¿ں کی طرف رجوع کرتی ہیں، ہم یا تو مابعدالطبیعات کو طبیعات کے مقابلے میں لا کھڑا کرتے ہیں اور یا پھر مادیت پرستی کی انتہا پر کھڑے ہو کر سرے سے مابعدالطبیعات کے انکار سے کم پر راضی ہی نہیں ہوتے۔
سیدھی سی بات یہ ہے کہ فطرت کا دائرہ قانون اور اس کے زیرِ اثر پیدا ہونے والے تمام مظاہر انسانی مشاہدے اور دریافت کا موضوع ہیں۔ زمانہ قدیم کا انسان خدائی قہر کو بادل گرجنے اور بجلی کڑکنے کی علت جانتا تھا، لیکن زمانہ جدید میں کل انسانیت اس بات پر متفق نظر آتی ہے کہ یہ علت و معلول کا نظام اس سے بہت زیادہ پیچیدہ ہے اور انسان اپنے علم میں اضافے کے ساتھ مسلسل اس پیچیدگی کی تہیں کھول رہا ہے۔ مذہبی مقدمہ اپنی تمام شکلوں میں کسی نہ کسی طرح اس اعتقاد پر قائم ہے کہ یہ تمام پیچیدہ نظام کسی نہ کسی ایسی نادیدہ علت سے ضرور منسلک ہے جس کی تعریف کا حق صرف الہامی روایت کو ہے۔ اس نظامِ علل کی اولین علت کو فلسفی حقیقتِ مطلق کہتا ہے اور مذہبی مبلغ خدا۔ دوسری طرف غیرمذہبی مقدمہ یا تو اس امید افزا مفروضے پر قائم ہے کہ ایک دن انسان نہ صرف اس پیچیدگی کی تمام تہیں کھول دے گا بلکہ اس حقیقت کا کامل فہم حاصل کر لے گا، یا پھر لامعنویت پر مبنی اس یاسیت زدہ مفروضے پر کہ حقیقتِ مطلق نام کی کوئی چیز سرے سے ہے ہی نہیں اور انسان کو بس اس کائنات میں کسی اتفاق کے زیرِ اثر پھینک دیا گیا ہے۔
یہ اتفاق بھی علت ہی کی ایک توجیہہ ہے جو اپنی ریاضیاتی شکلوں میں اس لئے نمودار ہوتی ہے تاکہ جدید انسان کو بادی النظر میں محض ایک سادہ لوح اصرار نہ لگے۔
بہرحال دونوں صورتوں میں انسان زندگی گزارنے پر مجبور ہے اور اس کا شعور چاہے وہ مذہبی ہو یا غیرمذہبی، اس نظام کے حتمی خدوخال مرتب کرنے کے سلسلے میں کچھ ناگزیر مفروضوں کا محتاج ہے۔لہٰذا اگر زندہ رہنا اور زندہ رہنے کی جدوجہد کرتے رہنا انسان کی مجبوری ہے تو اس کے لئے نہ صرف دوسرے انسان کے مقدس مفروضوں کا احترام لازم ہے بلکہ اپنے مفروضوں کی پیچیدگی کا علم حاصل کرنا بھی ضروری ہے تاکہ ان پر حقائق کے درجے میں اصرار کرنے سے اجتناب کیا جائے۔ یہ اندازہ کرنا شاید بہت زیادہ مشکل نہیں کہ اس احترام کی جانب تیزی سے بڑھنے میں کونسے تعصبات حائل ہیں۔

11 جنوری 2016

عاصم بخشی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عاصم بخشی

عاصم بخشی انجینئرنگ کی تعلیم و تدریس کے پیشے سے وابستہ ہیں۔ ادبی تراجم اور کتب بینی ان کے سنجیدہ مشاغل ہیں۔

aasembakhshi has 79 posts and counting.See all posts by aasembakhshi

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments