کنیز فاطمہ کو گھر بسانا ہے – دوسری قسط


منی بلکتی رہی۔ اس معصوم کو کیا معلوم گھر بسانا کسے کہتے ہیں۔ معلوم تو کنیز فاطمہ کو بھی خاک نہ تھا۔ میاں سے سن کے منی کے منہ پر کھینچ مارا بس۔
بھائی منی کا ہاتھ پکڑ کر اسے گھسیٹتا کمرے میں چلا گیا۔ کنیز فاطمہ کے میاں کی مسکراہٹ ان کی آنکھوں میں دیکھی جا سکتی تھی۔ ہونٹوں پر تاسف کی لکیر برقرار رہی۔

اماں نے خدا حافظ کہہ کر منہ پھیر لیا۔ ابا دروازے تک چھوڑنے آئے۔ بیٹی کے سر پر ہاتھ پھیرا، داماد کو گلے لگایا اسے دعائیں دیں، بیٹی کو سسرال میں دل لگانے کی روایتی نصیحت بھی نہ کی اور بھاری دل سے پلٹ گئے۔

کنیز فاطمہ کے ابا حبیب اللہ خان، مسلم لیگ کے سرگرم کارکن تھے۔ تحریک پاکستان کی اکثر رودادوں میں ان کا ذکر تھا۔ قائد اعظم اور پاکستان سے حد درجہ محبت۔ ریاضی کے ماہر۔ انڈیا سے ہجرت کی تو لاڑکانہ کے قریب ایک چھوٹے سے شہر رتو دیرو میں سکونت اختیار کی۔ کنیز فاطمہ بتاتی ہیں کہ لوگ ان سے کلیم کے کاغذات بھرواتے، بصد اصرار یہ کھنڈر نما گھر، جو کئی خرابیوں کی وجہ سے بچ رہا تھا، ۔ اپنے نام کروایا۔ ایک اسکول میں پڑھاتے تھے۔ ریاضی کے ماہر تھے۔ گھر سے ملحقہ ایک بڑا سا کمرہ شاید کسی ہندو کا کلینک تھا۔ اسے بچوں کو پڑھانے کے لیے مختص کر دیا۔

کنیز فاطمہ جیسی جانے کتنی بیٹیاں یوں ہی کچھ عرصہ کسی کارگاہ میں جنم لیتی ہیں، جہاں پرائے گھر جانے کے لئے، ہنسنے، بولنے، رونے دھونے، کھانے، پینے، سونے، جاگنے، پکانے، پیسنے، سلائی کڑھائی کی چوبیس گھنٹے آزمائشی تربیت ہوتی ہے۔

چودہ پندرہ برس تک وہ اس کار گاہ میں مختلف سرگرمیوں کے ذریعے سسرال میں ایک وقت میں بہت سے کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہو جاتی ہے۔ یہاں مفت کھانا اور عید، بقرعید پر نیا جوڑا دیا جا تا ہے۔

اس کے الھڑ پن کو اس جملے کے پے در پے وار کر کے قتل کیا جاتا ہے۔ ”سیکھ لو کچھ ورنہ دوسرے دن ہی گھر بیٹھی ہو گی“

سسرال میں ابدی رہائش کی نصیحت حیات بعد الموت کے عقیدے کی طرح ان کے دل میں راسخ کر دی جاتی ہے۔ بے شک سسرال کی زندگی ہی ہمیشہ رہنے والی ہے۔

پاس پڑوس کے لوگ بھی اس کار گاہ پر نظر رکھتے ہیں تاکہ کسی کو اس کار گاہ کی زیر تربیت بچی کے متعلق اپنی مستند رائے دے سکیں۔

پاس پڑوس سے کنیز فاطمہ کے بارے میں ان کی ساس نندوں نے جو تعریفیں سنی تھیں، کنیز فاطمہ کے گن ان سے کہیں زیادہ تھے۔

کنیز فاطمہ چند دنوں میں ہی سسرال میں ایسے گھل مل گئیں جیسے یہیں جنم لیا ہو۔ میکے جانا ہوتا تو واپسی پر منی رو رو کر ہلکان ہو جاتی۔ ماں بھی رکنے پر اصرار کرتیں۔ میاں بھی بڑے شگفتہ لہجے میں اجازت دے دیتے مگر کنیز فاطمہ کو تو گھر بسانا تھا۔

کنیز فاطمہ اپنی ساس کو ایک کام نہ کرنے دیتیں۔ سب سے چھوٹی نند زبیدہ کو سلائی کڑھائی کا بہت شوق تھا اسے کہہ دیا کہ ”ہم سب کر لیں گے تم صرف اپنے کام پر دھیان دو“ ۔ اس زمانے میں سلائی مشین کے پیڈسٹل نئے نئے آئے تھے۔ عین اس کے سر کے اوپر ایک بڑا سا ریڈیو دیوار کے تختے کے اوپر رکھا تھا۔ ایک سفید رنگ کے کپڑے پر بڑا سا پھول کاڑھ کر اس پر ڈال دیا گیا تھا۔

ریڈیو انڈیا سے آدھی رات تک فرمائشی اور دن میں پاکستانی گانے سنا کرتی۔ اس کے ہاتھ سلائی مشین کی سٹل کے نیچے کپڑے یا ریڈیو کے بڑے سے بٹن کو آگے پیچھے گھمانے میں مصروف ہوتے۔

کچھ ماہ بعد ہی جمیلہ کے لیے کسی کمپوڈر کا رشتہ آ گیا۔ فراست سیدھا سادا لڑکا تھا۔ جمیلہ کی شوخ اداؤں کا اسیر ہوا تو رشتہ بھیج دیا۔ جمیلہ کی شادی سے دو روز پہلے ابا آ گئے۔ بیٹی سے تو کچھ نہ کہا پر ساس کے سامنے گڑگڑائے کہ کنیز کو اس کی ماں یاد کر رہی ہے۔ طبیعت بہت خراب ہے۔ ساس سمجھ گئیں کہ زچگی کا وقت قریب ہو گا۔

بھائی صاحب آپ کی مجبوری سمجھتی ہوں پر کل جمیلہ کی رخصتی ہے، دلہن نے سارا گھر سنبھالا ہوا ہے۔ پھر بھی اگر دلہن جا نا چاہے تو لے جائیں۔

کنیز فاطمہ کے کان میں چائے لاتے ہوئے یہ الفاظ پڑے تو حیران رہ گئیں کہ ابا اس موقع پر انہیں لے جانے کی بات کیسے کر سکتے ہیں۔ فوراً چائے کا کپ ابا کو تھماتے ہوئے بولیں۔

ابا! ”اماں ٹھیک کہتی ہیں ہم جمیلہ کی شادی کے بعد آ جائیں گے۔ اماں کو ہمارا سلام کہیے گا“ ۔

جمیلہ کو کمزوری تھی یا بے ہوش ہو نے کی عادت، کنیز فاطمہ پانی سے بھرا پیالہ لے کر اٹینشن کھڑی تھیں کہ رخصتی کے وقت جمیلہ بے ہوش ہو، اور وہ اس کے چہرے پر چھینٹے ڈالیں۔

عین اس وقت انہیں اپنے محلے کی ایک عورت نے بتایا کہ ان کی اماں نے صبح سویرے ایک مردہ بچے کو جنم دیا اور خود مرتے مرتے بچیں مگر حالت بہت خراب ہے۔

اماں کے بارے میں سنا تو خود چکرا کر بیٹھ گئیں۔

اگلے روز ساس نے اپنے بیٹے کو حکم دیا کہ دلہن کو اس کی ماں کے ہاں چھوڑ کر آؤ، اس کی ماں کو اس وقت اس کی ضرورت ہے۔

”مجھے چھوڑنے اور واپس لانے کے جھنجھٹ سے دور رکھیں۔ کلیم سے کہیں انہیں چھوڑ آئے پھر یہ مجھے خط لکھ کر بلا لیں میں لینے چلا جاؤں گا“ ۔ کنیز فاطمہ کے میاں یہ کہہ کر تیزی سے اپنے کمرے میں چلے گئے۔

کنیز فاطمہ بھی پیچھے لپکیں۔
دلہن اسے چھوڑو، تم تیاری کرو میں کلیم سے کہہ دیتی ہوں۔ (کلیم، کنیز فاطمہ کے چھوٹے دیور تھے )

ارے اماں! خط تو بہت دنوں بعد ملے گا، نہیں ہم نہیں جائیں گے۔ ہم خود اتنے دن نہیں رہ سکتے، آپ سب کے بغیر۔

یہ دوڑا ہوا خود تمہیں کل لینے آئے گا، خط کا انتظار نہیں کرے گا، مت فکر کرو۔ اپنی ماں کے بارے میں سوچو۔ مرتے مرتے بچی ہیں۔ کچھ دن خدمت کر لینا ان کی۔

نہیں اماں، اگر ہم انہیں ناراض کر کے گئے، تو ہماری اماں خوش ہوں گی، نہ اللہ۔ فائدہ کیا ہو گا۔ ہم نے دس بیبیوں کی منت مانی ہے، ہماری اماں ٹھیک ہو جائیں گی۔

کنیز فاطمہ نے منتیں، تعویز گنڈے اور وظائف کی باتیں اپنی سسرال میں ہی سنی تھیں۔ اور ان کے ثمرات بھی دیکھے تھے۔ سامنے کی بات تھی، جمیلہ کی ہر منت پوری ہوتی تھی۔ فراست سے شادی کی منت پوری ہونے کے بعد جمیلہ نے رزق میں برکت کی منت مانگی، وہ بھی پوری ہوئی۔ جمیلہ کے پاس ہر وقت پیسے ہوتے تھے۔ جب دیکھو گولا گنڈے یا قلفی والے کی آواز پر دروازے کی طرف لپکتی۔ کپڑے اچھے سے اچھے پہنتی۔

کنیز فاطمہ کے ابا ان سب باتوں کو نہیں مانتے تھے۔ انہوں نے تو ہمیشہ کوشش، حکمت عملی، بہتر موقع اور اللہ کی رضا کو ہی مقدم سمجھا تھا مگر گھر میں سالن میں نمک یا روغن کے کم یا زیادہ یا پھر گول، خستہ، نرم روٹی کی ہدایت و تعریف کے علاوہ اس سے کبھی کوئی دوسری بات ہی نہیں کی تھی۔ لیکن اگر ان کے منہ سے یہ باتیں سن لیتے تو؟ تو ہمارا خیال ہے کہ خوش ہی ہوتے کہ بٹیا گمان و یقین تک سسرال میں رچ بس گئی۔

میاں جی کو ایسی صابر بیوی پر ترس آہی گیا۔ اگلی صبح وہ انہیں ماں کے پاس لے گئے۔ اماں کی حالت تو بہت خراب تھی۔ دم سادھے پڑی تھیں۔ نقاہت کی وجہ سے بات بھی نہیں کی جا رہی تھی۔ صغرا اب ذرا بڑا ہو گئی تھی۔ اماں کا بستر ان کے گندے کپڑے اسی نے دھوئے تھے۔ مگر اماں کچھ کھا پی نہیں رہی تھیں۔ بچے کے مرنے اور اپنی نڈھال جان سے ادھ موئی ہو چکی تھیں۔ کنیز فاطمہ نے زبردستی ان کے منہ میں دودھ ڈالا اور سیب کو پیس کر انہیں چمچ سے کھلا یا۔ اماں شام تک بیٹھنے کے قابل ہو گئیں۔ منی بہن سے خفگی کے اظہار میں خاموش بیٹھی رہی۔ مغرب کی نماز کے بعد میاں جی روتی صورت لیے آ کھڑے ہوئے۔ ”میں چلتا ہوں“

منی کو خوف ہوا باجی اس آدمی کے ساتھ پھر چلی جائے گی۔
باجی آپ اس کے ساتھ مت جا نا۔
منی ایسے نہیں بولتے۔ یہ تمہارے دلہا بھائی ہیں۔
”نہیں یہ گندے ہیں۔ ان کو جانے دو“ ۔

بڑے بھائی بھی آ کھڑے ہوئے۔ ”دیکھو کنیز اماں نے تمہیں دیکھا تو اٹھ بیٹھیں۔ ورنہ ہم تو ڈر گئے تھے۔ بہت حالت خراب تھی اماں کی“ ۔

ابا بھائی صاحب کے لیے مرغی لینے گئے ہیں۔ بھائی صاحب آپ بھی رک جائیں۔ ہم نے اوپر والا کمرہ صاف کر دیا ہے آپ کے لیے۔

نہیں نذیر مجھے پرائی جگہ پر نیند نہیں آتی۔
”یہ پرائی جگہ تو نہیں کنیز باجی کا گھر ہے، باجی بھی تو آپ کے گھر سوتی ہے“ ۔ صغرا تڑخ کر کے بولی۔
صغرا بری بات، اب وہی ہمارا گھر ہے۔ ہمیں وہیں رہنا ہے۔ ہم رک تو رہے ہیں۔
اچھا تو تم رک رہی ہو؟ میاں جی کے لہجے میں تناؤ دیکھ کر کنیز فاطمہ گھبرا گئیں۔
نہیں نہیں ہم بھی چل رہے ہیں۔
جائیے آپ بھی جائیے۔ انہیں پرائی جگہ نیند نہیں آتی اور آپ کو اپنا گھر بسانا ہے۔
صغرا نے دروازے پر لٹکا برقع اٹھا کر پلنگ پر پھینک دیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments