بی بی، تیرا آصف سرخرو ہوا!


مقام ہے ککری گراونڈ لیاری اور تاریخ 18 دسمبر 1987۔ مدھم اور شوخ روشنیوں کے امتزاج کے سائے تلے اپنے ولیمہ کی تقریبات کے سلسلہ میں آصف علی زرداری اپنی نئی نویلی دلہن بے نظیر بھٹو کے ساتھ بیٹھے ہیں۔ ایک صحافی سوال داغتا ہے کہ جب محترمہ جیل میں ہوں گی تو آپ کیا کریں گے۔ دولہا بڑے اعتماد سے چہرے پر دائمی مسکراہٹ سجائے جھٹ سے جواب دیتا ہے کہ اب محترمہ جیل کبھی نہیں جائیں گی۔ اور پھر محترمہ جیل کبھی نہ گئیں۔ اسی تقریب ولیمہ میں بھٹو کی بیٹی مائیک ہاتھ میں پکڑ کر ولیمہ میں آے مہمانوں سے مخاطب ہوتی ہے ”جو قربانیاں ہم نے دی ہیں اس دھرتی کی خاطر دیں ہیں اور دھرتی کی خاطر دیتے رہیں گے۔ “

ستائس دسمبر 2007، دہشت گردی اور آمریتی فیصلوں کی لپیٹ میں آئی عوام جب بے نظیر بھٹو کو امید جمہوریت سمجھ کر اس سے لپٹتی ہے تو امید کو کچل دیا جاتا ہے۔ بے نظیر کو شہید کر دیا جاتا ہے۔ شہادت سے قبل عوام کے جم غفیر سے کچھ یوں مخاطب ہیں ”آج جب یہ دھرتی پکار رہی ہے کہ میں خطرے میں ہوں، بلوچستان میں دیکھو، شمالی علاقوں میں دیکھو، ہماری مسجدوں میں دیکھو، یہ دھرتی آپ کو پکار رہی ہے مجھے پکار رہی ہے“

شہادت کے بعد راولپنڈی سے لاڑکانہ باپ کے بعد بیٹی کی نعش پہنچتی ہے تو سندھ میں انتقام کی آگ بھڑک اٹھتی ہے اور پاکستان نہ کھپے کے مطالبہ کو ککری گراؤنڈ کا دولہا ”پاکستان کھپے“ کا نعرہ لگا کر وفاق کو نئی امید بخشتا ہے۔

2008 کے الیکشنز کے بعد اپنی پارٹی کی حکومت بننے کے بعد آصف علی زرداری اس ملک کا طاقتور ترین سویلین صدر منتخب ہوتا ہے۔ عہدہ صدارت پر فائز ہونے کے بعد اس کا دل پہلی صدا 14 مئی 2006 کو لندن میں طے پانے والے میثاق جمہوریت کو لگاتا ہے اور اس میثاق کے تمام کے تمام چھتیس نکات کو عملی جامعہ پہنانے کی خاطر رضا ربانی کی زیر قیادت آئین میں ترمیم کے لئے کمیٹی تشکیل دیتا ہے۔

آٹھارویں ترمیم 8 اپریل 2010 کو قومی اسمبلی سے پاس ہوتی ہے۔ نصف سے زیادہ میثاق جہموریت کو اپنے میں سموئے یہ ترمیم آئین میں لگ بھگ 100 تبدیلیاں کر کے آئین کے 83 آرٹیکلز کو سنوار کر اس میں سے آٹھویں اور سترویں ترمیم کا تقریبا مکمل خاتمہ کرتی ہے۔ یوں آئین کی بحالی اپنی اصل صورت میں ممکن ہوتی ہے۔ آٹھارویں ترمیم کسی سیاسی انقلاب سے کچھ کم نہ ہے۔ یاد رہے کہ فقط آٹھویں ترمیم میں آئین کے 90 آرٹیکلز کے ساتھ چھیڑ خانی کر کے اس کا چہرہ مسخ کیا گیا تھا۔

پیپلزپارٹی ہمیشہ ہمسایہ ممالک سے بہترین تعلقات کو اپنی خارجہ پالیسی کا اھم ستون گردانتی ہے۔ اپنی آخری حکومت ( 2008 سے 2013 ) کے دوران ہندوستان کو ایم ایف این کا درجہ دینے کی سنجیدہ کوشش کرنا (جو بعض وجوہات کی وجہ سے کامیاب نہ ہو سکی) ، ایران پاک گیس پائپ لائن منصوبہ کی تکمیل کے حوالے سے ایران سے معاہدہ، اور گوادر بندرگاہ کو چلانے کا ٹھیکہ سنگاپور کی کمپنی سے لے کر ایک چینی کمپنی کو دینے جیسے اقدامات یقینا پی پی حکومت کی خارجہ پالیسی میں ہمسایہ ممالک سے اچھے تعلقات قائم رکھنے کی جستجو کا مظہر ہیں۔

بی بی کی شہادت کے بعد جمہوری حکومت پہلی دفعہ اپنی آئنی مدت پوری کرتی ہے۔ اس حکومت میں ملکی تاریخ میں پہلی دفعہ دفاعی بجٹ قومی اسمبلی میں عوامی نمائندگان کے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔ 2013 میں اس ملک کی فضاؤں کو پہلی دفعہ پرامن انتقال اقتدار کا سماں نصیب ہو تا ہے۔ جس سے اس ملک کی سیاست میں یقینیت کے عنصر کی بنیاد ڈلتی ہے۔

آٹھارویں ترمیم کی منظوری، ہمسایوں سے اچھے تعلقات کی تگ ودو یا پھر پرامن انتقال اقتدار کی روایت ڈالنے کی بات ہو تو شہید بی بی کے سپاہی آصف علی زرداری کا کردار تاریخ میں محفوظ ہو چکا۔

عہدہ صدارت چھوڑنے کے بعد آصف علی زرداری اپنے پر قائم مقدمات کی پیروی پھر سے شروع کر دیتے ہیں کہ ایک دن خبر آتی ہے کہ آج آصف علی زرداری اپنے تمام 22 مقدمات میں عدالت کی جانب سے باعزت بری۔ آخری مقدمہ میں بھی بے قصور ثابت ہو گئے۔

منظر پھر اچانک بدلتا ہے اور یکا یک یہ مرد حر فیک اکاونٹ کیس میں پابند سلاسل ہو جاتا ہے۔ اس دفعہ اینٹ سے اینٹ بجا دینے کا بیان دینے والا یہ شخص گرفتار ہونے سے قبل بارہا آگاہ کرتا ہے کہ اس کا قصور فقظ آٹھارویں ترمیم ہے اور اس کی پاداش میں وہ سب کچھ سہنے کو تیار ہے۔ یاد رہے یہ وہی آصف علی زرداری ہے جو 11 سال بے گناہ سیاسی قیدی رہا لیکن اس کی پارٹی کی حکومت اور اس کے دور صدارت کے دوراں ملک میں ایک بھی سیاسی قیدی نہ تھا۔

27 دسمبر 2007 بی بی کی شہادت کا دن۔ اس سال بھی بلاول بھٹو برسی سے حسب معمول خطاب کریں گے مگر کریں گے لاڑکانہ کی بجائے راولپنڈی سے۔ وہ ممکنہ حد تک نیب اور سلیکٹد کو آڑے ہاتھوں لیں گے۔ میڈیا حسب روایت برسی کی تقریبات کو بھر پور کوریج دے گا۔ اور ہمارے جیسے دل جلے فقط اتنا کہہ سکیں گے کہ کاش یہی میڈیا محترمہ کی زندگی میں ان کو اتنا ہی بڑا لیڈر مان لیتا جتنا آج دکھا رہا ہے تو کافی ہوتا۔

برسی کی میڈیا کوریج (بی بی کی زندگی پر رپورٹس، ڈاکومینٹریز، بلاول کا خطاب اور اس پر تبصرے، پرنٹ میڈیا پر بی بی کی شخصیت پر کالمز اور فیچرز لکھیں جائیں گے ) میں سب کچھ شامل ہو گا، نہیں ہو گا تو آصف علی زرداری کا آہنی کردار جو بی بی کے مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں انتہائی سنجیدہ ہے۔

میڈیا کا آصف علی زرداری کے ساتھ نا انصافی پر مبنی رویہ دیکھ کر نوم چومسکی کا پروپیگنڈہ کے بارے تھیسز فٹ سے ذہن میں آتا ہے۔ وہ اپنی کتاب ( manufacturing the consent ) میں کہتے ہیں کہ مرضی کو جب مصنوعی طریقہ سے بنایا جاتا ہے تو سب سے پہلے تعلیم یافتہ طبقہ کو متاثر کیا جاتا ہے تو پھر عام آدمی ہر صورت متاثر ہوتا ہے۔

پہلے میڈیا کے پڑھے لکھے لوگوں کو زرداری صاحب کے خلاف بہکایا اور بہلایا گیا تو پھر عام آدمی کا کیا پوچھنا۔ لیکن اگر پروپیگینڈے کی آنکھ کی بجائے معروضیت، عقلیت اور قانون پسندی کے تناظر میں دیکھا جائے تو زرداری صاحب نے تقریبا 28 سال اپنے پر دائر تمام 22 مقدمات کا خندہ پیشانی سے سامنا کیا اور عدالت سے باعزت بری ہوے۔ پھر زرداری صاحب کو اتنا کرپٹ ثابت کرنے کے لئے ”رولا“ کاہے کا؟

2006 کی آڈیٹر جنرل آف پاکستان رپورٹ (ائے جی پی رپورٹ ) کا معائنہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ 1990 میں جب اس وقت کے صدر اسحق خان نے اسمبلی توڑ کر پی پی کی حکومت گرائی تو فقط دو سال کے اندر بینظیر بھٹو اور آصف علی زرداری پر 19 کرپشن کے مقدمات بنائے گے۔ اور یہ مقدمات بنوانے کے لئے اسحاق خان نے غیر قانونی طور پر سرکاری خزانے کو 28 ملین روپے کا ٹیکہ لگایا۔ ائے جی پی رپورٹ 2006 میں اس کی وضاحت درج ہے۔

آخر میں بس مجھے اتنا کہنا ہے کہ بی بی! تیرا آصف نہ صرف دھرتی کے قانون کی نظر میں سرخرو ہوا بلکہ دھرتی میں لڑی جانے والی جمہوریت کی سربلندی کی لڑائی میں بھی سرخرو ہوا۔

وہی دھرتی جس سے عہد وفا تو نے کبھی نئے نویلے شوہر کے ولیمہ کی تقریبات کے دوران ککری گروانڈ مین کیا تو کبھی جس سے اظہار عشق تو نے عوام کے جم غفیر کے دوران قبل از شہادت لیاقت باغ میں کیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments