رانا ثنا اللہ کیس پر شہریار آفریدی کی پریس کانفرنس: ’تمام ثبوت فراہم کر دیے تھے، ٹرائل سے قبل کیس میں تاخیری حربے استعمال کیے گئے‘


شہریار

صحافیوں کے پوچھنے پر وزیر مملکت برائے داخلہ امور نے اصرار کیا کہ انھوں نے صرف فوٹیج کا لفظ استعمال کیا تھا جس کو غلط رنگ دیا گیا اور کہا گیا کہ انھوں نے ویڈیو شواہد کا ذکر کیا ہے

وزیر مملکت برائے داخلہ شہر یار آفریدی نے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ سابق وزیر قانون اور پاکستان مسلم لیگ کے رہنما رانا ثنا اللہ کے حوالے سے لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد تاثر دیا گیا کہ سب کچھ ختم ہو گیا ہے، کیس ختم ہو گیا ہے اور وہ بری ہو گئے ہیں مگر ’میں بتانا چاہتا ہوں کہ رانا ثنا اللہ اب بھی ملزم ہیں۔‘

’میں قوم کو بتانا چاہتا ہوں کہ رانا ثنا اللہ اب بھی ملزم ہیں اور لاہور ہائی کورٹ نے ان کی ضمانت کے حوالے سے آرڈر جاری نہیں کیا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ انھوں مختلف موقعوں پر کہا کہ رانا ثنا اللہ کے کیس میں 17 دن کے اندر اندر تمام ثبوت اور فوٹیج عدالت کے روبرو پیش کر دیے جائیں گے لیکن صحافیوں کے سوال پوچھنے پر انھوں نے اصرار کیا کہ انھوں نے کبھی ویڈیو کا لفظ استعمال نہیں کیا تھا۔

یاد رہے کہ گذشتہ روز لاہور ہائی کورٹ نے مسلم لیگ نواز کے رکن قومی اسمبلی اور سابق وزیر قانون پنجاب رانا ثنا اللہ کی منشیات برآمدگی کیس میں درخواست ضمانت منظور کرتے ہوئے ان کی رہائی کا حکم دیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

رانا ثنا اللہ کیس میں ’تاریخ پر تاریخ‘ کیوں؟

‘کیا صرف ان ہی کے جج تبدیل ہونا تھے؟’

یہ کون ہے جسے رانا ثنا اللہ سے ملنے چل کے آنا پڑا

’ہم نے 17 روز میں تمام ثبوت فراہم کر دیے تھے، 18ویں دن ٹرائل شروع ہونا تھا مگر کیس میں تاخیری حربے استعمال کیے گئے۔‘

انھوں نے کہا کہ اے این ایف ایک پروفیشنل فورس ہے جس کی سربراہی میجر جنرل کرتے ہیں اور ان کے ماتحت نو بریگیڈئیر ہوتے ہیں۔ ’میری اور وزیر اعظم کی کسی سے ذاتی رنجش نہیں ہے۔ ہم نے قانونی اور عدالتی معاملات میں کوئی مداخلت نہیں کی، ویسے بھی یہ ضمانتوں کا موسم ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ حکمران آئیں گے اور چلے جائیں گے، اصل چیز پاکستان اور ملک کے ادارے ہیں جن کو ہم مضبوط کریں گے۔

’میری ذات سے ایک ویڈیو جوڑی گئی۔ اس حوالے سے اپنی پہلی پریس کانفرنس میں نے اور ڈی جی اے این ایف نے کی جس میں میں نے صرف فوٹیج کا لفظ استعمال کیا جس کو غلط رنگ دیا گیا اور ویڈیو کہا گیا۔‘

شہر یار آفریدی کا کہنا تھا کہ ان کی تمام پرانی پریس کانفرنسز نکال لی جائیں اور سینیٹ اور قومی اسمبلی میں بیانات بھی۔ ’مجھ سے ویڈیو کی بات کی گئی میں نے کہا ویڈیو نہیں فوٹیج ہے جو عدالت میں پیش کر دی گئی تھی۔‘

انھوں نے کہا کہ جب لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ آئے گا جس کو پڑھیں گے اور اسے معاملے کو منطقی انجام تک پہنچائیں گے۔

شہریار آفریدی کا کہنا تھا کہ لاہور ہائی کورٹ کا آرڈر نہیں آیا اس لیے وہ اس پر ابھی مزید بات نہیں کریں گے۔

ہم نے کسی سطح پر عدالتوں اور قانونی معاملات میں مداخلت نہیں کی۔ ہم عدالتوں کا احترام کرتے ہیں اور ہمیں ان پر یقین ہے یہ نہیں کہ فیصلہ مطلب کا آئے تو سب ٹھیک ورنہ نہیں۔

رانا ثنا اللہ

رانا ثنا اللہ کو اپنی رہائی کے عوض دس، دس لاکھ روپے کے دو ضمانتی مچلکے جمع کروانے ہوں گے۔ منگل کے روز لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس چودھری مشتاق احمد نے راناثنا اللہ کی درخواست ضمانت پر فیصلہ سنایا۔ اس سے پہلے گذشتہ روز فاضل جج نے سابق وزیر قانون کی درخواست ضمانت پر دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

رانا ثنا اللہ کو یکم جولائی کو پاکستان میں انسداد منشیات کے ادارے نے ایک شاہراہ پر مبینہ طور پر 15 کلو منشیات رکھنے کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔

وزیر مملکت برائے انسدادِ منشیات شہریار آفریدی نے رانا ثنا اللہ کو ’رنگے ہاتھوں‘ گرفتار کرنے اور ایک ویڈیو سمیت دیگر شواہد موجود ہونے کا دعویٰ بھی کیا تھا۔

ان الزامات کے تحت انسداد منشیات فورس کے عدالت میں چالان پیش کرنے کے باوجود ابھی تک رانا ثنا پر فردِ جرم عائد نہیں کی جا سکی ہے۔

رانا ثنا اللہ خان کو اُن کی گرفتاری کے بعد سے ایک درجن سے زائد مرتبہ عدالت میں پیش کیا جا چکا ہے۔ پہلی مرتبہ انھیں دو جولائی کو عدالت میں پیش کیا گیا تھا تاہم اب ان کی ضمانت منظور کر لی گئی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32298 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp