وہ ہماری دوست نہیں تھی


‏وہ ہماری دوست نہیں تھی۔ دوستی تو دور کی بات ہم تو اس سے بات تک نہ کرتے تھے۔ کہاں ہم! کلاس کے سب سے لائق فائق، ٹیچرز کی آنکھ کا تارا اور کہاں وہ سب سے پیچھے کونے کی بنچ پر بیٹھنے والی، شاید میٹرک تک پہنچنے کے لیے کچھ جماعتیں بھی اس نے دو دفعہ پڑھی تھیں۔ ایسی لڑکیوں سے بھلا ہم کیوں دوستی کرتے؟ ہماری تو اکڑ ختم نہ ہوتی تھی۔ اور پھر وہ تو بولتی ہی نہیں تھی۔ کلاس میں ٹیچرز کبھی سوال کرتیں تو اس کا جواب بھی اسے نہ آتا تھا۔ ہم تو اگر اس کی آواز کہیں سن لیتے تو شاید پہچان بھی نہ پاتے۔ کچھ بھی تو خاص نہ تھا اس میں، عام سا چہرہ، معمولی خدوخال، مگر ہاں، ایک خاص بات تو تھی اس میں، ایک نرم سی مسکراہٹ، جو اس چہرے کا ہالہ کیے رہتی۔ جب بھی اسے دیکھا اس مسکراہٹ کے ساتھ دیکھا۔

‏بورڈ کے امتحانوں سے چند مہینے پہلے ایک عجیب افتاد آن پڑی۔ ابا بیمار، گھر کی شفٹنگ اور بھائی کے شہر سے باہر جانے کی وجہ سے دو ہفتوں کے لیے اسکول آنے جانے کا مسئلہ کھڑا ہو گیا۔ گھر میں پنچایت بیٹھی۔ ہمارا گھر اس دور میں داخل ہو چکا تھا جب والدین کو گھر کے سربراہ کی حیثیت اور پورا احترام تو حاصل ہوتا ہے مگر بہت سارے فیصلوں کا اختیار بڑے بھائی بہنوں کے پاس چلا جاتا ہے۔ بڑے بھائی نے اس گھریلو پنچایت کے اختتام پر ہمیں بلا بھیجا اور زمانے کے سارے بھید بھاؤ سمجھانے کے بعد کہا کہ تم بہت سمجھدار بچی ہو اس نئی جگہ کوئی جاننے والا بھی نہیں بس اسٹاپ اسکول اور گھر سے بمشکل چند منٹوں کی دوری پر ہے۔

اسٹاپ سے تمہیں باجی سلیمہ گھر لے آئیں گی۔ اسکول سے یقیناً چند اور بچے بھی بس سے سفر کرتے ہی ہوں گے۔ اور صرف دو ہفتوں کی ہی تو بات ہے۔ ہم تو شدید خوف اور حیرت سے احتجاج بھی نہ کر سکے۔ امی کے سامنے خوب روئے کہ کسی سے بات کریں، کوئی انتظام، کچھ تو کریں، یہ کون سا نیا تجربہ ہے! ؟ ہم سے نہ ہو سکے گا، ہم کھو جائیں گے۔ مگر ہماری آہ و بکا کا کسی پر کوئی اثر نہ ہوا۔ اس دن دل کو یقین ہو گیا کہ کسی کو ہماری فکر نہیں اور کوئی ہم سے محبت نہیں کرتا۔ یونیورسٹی جانے والے بڑے بھائی بہنوں نے بزدلی کا مذاق تو اڑایا مگر ساتھ سمجھایا بھی، ہمت دلائی اور اپنی مثالیں بھی دیں مگر خوف تھا کہ کم نہ ہوتا تھا۔

‏اور پھر وہ دن آیا۔ صبح باجی سلیمہ ساتھ جا کر اسکول چھوڑ کر آئیں مگر واپسی پر خود آنا تھا۔ آج تک یاد ہے وہ کیفیت، ٹیچرز کلاس میں آئیں، کیا بولا، کیا پڑھائی ہوئی ہمیں کچھ یاد نہیں۔

‏اسکول سے واپسی پر سب قریبی دوستوں کو کوستے جنہوں نے جھوٹے منہ ہمیں گھر چھوڑنے کی آفر تک نہ کی، بس اسٹاپ پہنچے۔ سرخ چہرہ، حیران پریشان کھڑے، حواس باختہ، سب گھر والوں کے لیے انتہائی منفی جذبات لیے رو دینے کے قریب ہو گئے کہ برابر سے ایک نرم سی آواز آئی کہ کیا ہوا؟ تم اتنی دیر سے کھڑی ہو کیا مطلوبہ بس نہیں آئی؟ ہم نے اس کی طرف دیکھا، وہی دوستانہ سی مسکراہٹ۔ دل میں جو اطمینان اترا اس کو ہم آج بھی آنکھ بند کر کے محسوس کر سکتے ہیں ہم نے اسے بتایا کہ بس تو آ کر گزر بھی گئی مگر ہم بس کو ہاتھ دے کر روک ہی نہ سکے۔ وہ ہنس پڑی اور کہا کہ مجھے اندازہ تھا اسی لیے میں ابھی تک نہیں گئی۔

‏اس کے بعد دو ہفتے تک یہ معمول سا بن گیا۔ ہماری کلاس میں کوئی خاص بات چیت نہ ہوتی مگر جوں ہی چھٹی ہوتی وہ اپنی مسکراہٹ کے ساتھ ہمارے ساتھ آ کھڑی ہوتی۔ باتیں کرتے ہم اسٹاپ تک پہنچتے، اکثر دو تین بسیں آ کر چلی جاتیں اور ہم بچوں کی طرح ٹھنکتے، نخرے کرتے رہتے، نہیں نہیں! اس بس میں رش بہت ہے ہم نہیں جائیں گے۔ اور وہ کبھی ہم سے ضد نہ کرتی۔ یہ بھی نہ کہتی کہ اگر میری بس مس ہو گئی تو اگلی پندرہ منٹ سے پہلے نہیں آئے گی۔ وہ خود بھی ہماری عمر کی ہو گی مگر ہمارا دھیان ایسے رکھتی جیسے ہم سے برسوں بڑی ہو۔ اس کی مطلوبہ بسیں آ کر گزرتی جاتیں اور وہ ایک فکرمند اور خیال کرتی ماں کی طرح جب تک کہ ہمیں بس میں بٹھا نہیں دیتی گھر نا جاتی۔

‏دو ہفتے پلک جھپکتے گزر گئے۔ اور چند مہینوں بعد اسکول بھی ختم ہو گیا۔ اسکول کے بعد ہم اس سے کبھی ملے نہ اسے دیکھا۔

‏وہ ہماری دوست نہیں تھی مگر اس نے اس عمر میں ہمیں احساس دلایا کہ اچھائی قابلیت کا ٹیگ لگائے نہیں آتی، دوسروں کی مدد کا جذبہ کتابوں کا رٹا لگائے بغیر بھی آ سکتا ہے۔ انسان کی پرکھ اس کے اخلاق سے ہوتی ہے اور ایک نرم مسکراہٹ چہرہ کو کتنا خوبصورت بنا دیتی ہے۔ اس جیسے بے لوث تو ہم شاید آج تک نا ہو سکے مگر اپنائیت اور غرض سے پاک دوستی کا پہلا سبق اس نے ہمیں پڑھایا۔

‏دن مہینے سال گزر گئے۔ کتنے دوست ملے بچھڑے، کتنے پیار اور خیال کرنے والے زندگی میں آئے لیکن آج بھی آنکھ بند کرو تو سب سے پہلے وہ مسکراتا، بے لوث چہرہ چھم سے سامنے آ جاتا ہے۔ دعا کے لیے ہاتھ اٹھیں تو اس کا نام دعاؤں میں ہمیشہ سر فہرست ہوتا ہے۔

ڈاکٹر عظمیٰ قدرت
Latest posts by ڈاکٹر عظمیٰ قدرت (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments