بے نظیر اور تین دریا


افتخار عارف نے کہا ہے
ہم اپنے رفتگاں کو یاد رکھنا چاہتے ہیں
دلوں کو درد سے آباد رکھنا چاہتے ہیں

آج اُس بدقسمت ستائیس دسمبر کو گزرے بارہ سال ہونے کو آئے لیکن وہ ساعتیں اب بھی نہیں بھولتی جب میں اور میرا کزن مانچسٹر کے سٹاک پورٹ ٹاؤن میں لگی کرسمس کی سیلوں سے خریداری کر رہے تھے تب یہ اندوہناک خبر سننے کو ملی تھی اور ہم سب کچھ چھوڑ کر گھر کی طرف بھاگے تھے کہ خود جا کر ٹیلیویژن پر دیکھیں کہ جو سنا تھا اس پر یقین نہیں آ رہا تھا۔ ہائے کیسی قیامتیں ڈھاتی وہ شام گزری تھی۔

اس مرتبہ راقم گرمیوں کی چھٹیوں میں جب پاکستان گیا تو کتابیں خریدنے کے دوران ایک کتاب پر نظر گئی جس کے سرِ ورق پر بی بی محترمہ کی تصویر نے اپنی طرف متوجہ کیا۔ یہ بی بی پر لکھا گیا ایک بائیوگرافکل ناول تھا جو ایک ترکش خاتون یشار سیمان نے قلم بند کیا تھا۔

ایک انتہائی خوبصورت پیرائے میں ناول کی صورت میں لکھی گئی یہ کتاب دراصل بی بی محترمہ کی سوانح عمری ہے جس میں لکھنے والے کا دلکش اندازِ بیاں آپ کو اپنے سحر میں جکڑ لیتا ہے اور آپ تین سو صفحات کیسے مکمل کرتے ہیں پتہ بھی نہیں چلتا۔

یشار اس ناول میں جا بجا پاکستان اور ترکی کا موازنہ کرتی ہیں جب یہاں جنرل ضیا اور ترکی میں جنرل کنعان اورن کی فوجی حکومتیں بر سرِ اقتدار تھی۔ جنرل کنعان نے اس وقت کے وزیراعظم سلیمان ڈیمرل کی حکومت پر شب خون مارا تھا۔ یشار بتاتی ہیں کہ جنرل کنعان نے بھی ضیا کی طرح اسلام کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا۔ کنعان اپنی ہر تقریر سے پہلے قرآن کی آیت پڑھا کرتے تھے۔ جب جنرل ضیا کی موت ہوئی تو ترکی میں سرکاری طور پر ایک غم کی کیفیت تھی۔ ترک صدر نے کہا تھا آج میں نے اپنا بھائی کھو دیا ہے۔ ضیا الحق کے جنازے پر ترک صدر اور وزیراعظم نے شرکت بھی کی تھی۔ ضیا کو اپنا بھائی کہنے والے اسی ترک صدر نے مئی 1989 میں پھر بے نظیر بھٹو کا وزیراعظم پاکستان کے طور پر استقبال بھی کیا۔

یشار سیمان بی بی محترمہ کی زندگی سے واقعات اٹھاتی ہیں اور ان کو اپنی کمنٹری کے ساتھ بیان کرتی ہیں اور بی بی کو بھر پور انداز میں خراجِ تحسین پیش کرتی ہیں کہ کیسے ایک نہتی عورت نے ایک رجعت پسند معاشرے اور خاص طور پر ایک فوجی حکمران کا انتہائی بہادری سے مقابلہ کیا۔

یشار سیمان کے اس ناول میں بی بی کی شخصیت کے جس پہلو سے میں پہلی مرتبہ متعارف ہوا وہ بی بی کی دریاؤں سے محبت ہے۔ بی بی کہتی ہیں مجھے دریاؤں سے باتیں کرنا اور ان کے ساتھ وقت گزارنا ہمیشہ اچھا لگتا تھا۔ بی بی کہتی ہیں اپنی زندگی کے دوران جب بھی مجھے کوئی خوشی ملی یا میں کسی غم سے ہمکنار ہوئی تو میں نے ان دریاؤں کو ہمیشہ اپنا رازدان پایا۔ میں نے اپنی ہر خوشی اور غم ان دریاؤں کے ساتھ بانٹا۔ جب میں خوش ہوتی تھی تو مجھے لگتا تھا کہ دریا بھی میری طرح خوش ہے اور جب میں غمگین ہوتی تھی تو مجھے لگتا تھا کہ میری طرح آج دریا بھی ایک اداسی اپنے اندر لیے بہتا چلا جا رہا ہے۔

بی بی کہتی ہیں مجھے اپنی زندگی میں تین دریاؤں سے بہت محبت رہی۔ ان تین دریاؤں میں سب سے پہلے تو میرا اپنا، میرے ملک کی لائف لائن، یعنی انڈس ہے اور میری اس دریا سے محبت پہلے پیار کی طرح ہے جس کی جگہ کوئی نہیں لے سکتا۔ بی بی کہتی ہیں میری خواہش ہے کہ جس طرح میری زندگی کی ابتدا اس دریا کے قریب ہوئی اسی طرح میری زندگی کا خاتمہ بھی اس دریا کے قریب ہو۔ بی بی کہتی ہیں مجھے میرے بابا نے بتایا تھا کہ دریائے سندھ کی پیدائش ہمالیہ کے بلند اور برفیلے پہاڑوں پر ہوتی ہے اور وہ چائنہ اور بھارت سے گزرتا کشمیر اور پاکستان میں داخل ہوتا ہے اور پنجاب اور سندھ کی زمینوں کو زرخیز کرتا بہتا چلا جاتا ہے۔

بی بی کہتی ہیں مجھے یہ بالکل خواب سا لگتا تھا کہ کیسے ایک دریا کی پیدائش بہت دور اونچے پہاڑوں میں ہوتی ہے اور وہ مختلف زمینوں سے گزرتا، انھیں سیراب کرتا بالآخر سمندر میں آ گرتا ہے۔ بی بی کہتی ہیں جب میں ہارورڈ کے لیے کراچی سے جا رہی تھی تو آخری دن دریائے سندھ کے کنارے بیٹھ کر میں نے اس سے بہت سی باتیں کی تھی۔

دوسرا دریا جو بی بی کو بہت پیارا تھا اور جب بی بی ہارورڈ سے گریجویشن کر رہی تھی تب اس دریا کی محبت میں گرفتار ہوئی، وہ دریائے چارلس تھا جو بوسٹن شہر کی خوبصورتی میں اضافہ کرتا بہتا چلا جاتا ہے۔ بی بی کہتی ہیں ہارورڈ میں گزارے چار سال میری زندگی کے بہترین سال تھے۔ آج بھی میں اکثر تنہائی میں آنکھیں بند کر کے ہارورڈ کے ریڈ کلف کیمپس میں گزارے وہ مہ و سال سامنے لاتی ہوں جب خزاں میں درختوں کا رنگ نارنجی اور پیلا ہو جاتا تھا سردیوں میں پورا شہر نرم برف کی کمبل اوڑھ لیتا تھا اور بہار کی پہلی کلی کے کھلتے ہی ہم سب خوشی سے ناچنا شروع کر دیتے تھے۔

تیسرا دریا جس نے بی بی کے دل میں گھر بنایا آکسفورڈ کا چارویل دریا تھا۔ جب بی بی آکسفورڈ میں تعلیم حاصل کر رہی تھی تو اپنی دوستوں کے ساتھ اس دریا کی کشتی رانی کرتے ہوئے بہت دور تک چلی جاتی تھی اور اس خوبصورت علاقے کے حسین مناظر سے جی بھر کر لطف اندوز ہوتی تھی۔

آج یہ کتاب مکمل کرنے کے بعد میں سوچ رہا ہوں کہ جس طرح دریائے سندھ اونچے پہاڑوں سے ٹکڑاتا، اپنے راستے میں آنے والی ہر رکاوٹ کو عبور کرتا، ایک انتہائی لمبا اور صبر آزما سفر طے کرتا بالاآخر ہموار زمینوں میں داخل ہوتا ہے عین اسی طرح بی بی نے بھی جب اپنی جدوجہد شروع کی تو ضیا جیسے اونچے پہاڑ سے ٹکڑانا پڑا جس نے بی بی کے راستے میں ہزاروں رکاوٹیں کھڑی کی لیکن بی بی جہدِ مسلسل کی ایک تصویر بنی، اپنی ہمت اور ثابت قدمی کے ذریعے ان پہاڑوں سے ٹکڑاتی اور اپنا راستہ بناتی آگے بڑھتی رہی۔ اور آج جب ان کو شہید ہوئے بارہ سال بیت چلے تو آج بھی وہ اپنی عوام کے دلوں میں ایک روشن دیے کی مانند امید کے چراغ جلائے زندہ ہیں۔

اب آخر میں یشار ایک ترکش شاعر ناظم حکمت کی ایک نظم کی چند لائنوں کی صورت میں بی بی کو خراجِ عقیدت پیش کرتی ہیں۔

جب میں تمھاری آنکھوں میں جھانکتا ہوں

تو زمیں کی خوشبو

سورج کو چھو کر

میرے دماغ تک پہنچتی ہے

میں گندم کے ایک کھیت میں گم ہوں

فصلوں کے درمیان

سبزے سے بھری

ایک لامتناہی چوٹی

تمھاری آنکھیں جیسے

ہمیشہ رہنے والے

اور ہمیشہ تبدیل ہونے والے

کسی مادے کی طرح

اپنے راز آہستہ آہستہ کھولتی

لیکن کبھی بھی

ہمت نہیں ہارتی

ہار نہیں مانتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments