معاشرہ کفر کے ساتھ تو زندہ رہ سکتا ہے لیکن انصاف کے بغیر نہیں


کارلافے ٹکر کی ماں طوائف تھی جب ٹکر پیدا ہوائی تو ولدیت کے خانے میں ماں کا نام لکھا گیا۔ ماں کے طوائف ہونے کی وجہ سے ٹکر کی تربیت کا مناسب بندوبست نہ ہو سکا۔ گندے ماحول اور عدم توجہ کے باعث اس نے آٹھ سال کی عمر میں سگریٹ نوشی شروع کردی۔ جب دس سال کی عمر کو پہنچی تو سگریٹ پینے کے ساتھ ساتھ چرس پینا شروع کردیا۔ 13 سال کی عمر میں پہلی بار ماں اسے اپنے ساتھ لے کر باہر نکلی، اس دن کے بعد وہ مسلسل گھر سے نکلتی رہی کبھی شراب کی ایک بوتل کے عوض، کبھی چند ڈالر اور چرس کے دو سگریٹوں کے بدلے اپنا بدن گروی رکھ دیتی تھی۔ 13 سال کی عمر کے بعد وہ کتنی اذیتوں سے گزری، گناہ کی کتنی گھاٹیوں میں اتری اور ذلت کے کتنے صحراؤں میں ننگے پاؤں پھرتی رہی اسے کچھ خبر نہیں تھی۔ بس اتنا یاد تھا وہ ایک کرنسی نوٹ بن چکی ہے کبھی اس دکان پر کبھی کسی کی مٹھی میں، کبھی کسی نے ٹکرے ٹکرے کر کے پھینک دیا۔

ایک رات وہ اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ مل کر ایک جوڑے سے موٹر سائیکل چھینے کی کوشش کی۔ مزاحمت کے دوران انہوں نے جوڑے کو قتل کر دیا اور فرار ہو گے کچھ ہفتوں بعد پولیس نے پکڑ لیا۔ مقدمہ چلا ٹیکساس کی عدالت نے دونوں کو سزائے موت سنا دی۔ اپیلوں کا ایک نا ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو گیا۔ اس دوران اس کا بوائے فرینڈ بیماری کی وجہ سے جیل میں انتقال کر گیا۔ ٹکر اب اکیلی رہ گی اور اپنی سزائے موت کا انتظار کرنے لگی۔

کارلافے ٹکر ایسی لڑکی جو بات بات پر جیل انتظامیہ کو ننگی گالیاں دیا کرتی تھی اچانک اس کی زندگی میں ایسی کیا تبدیلی آئی کہ اس کا رویہ بدل گیا۔ اب زیادہ تر اپنا وقت بائبل کے مطالعے میں گزارنے لگی، وہ نشی عورت جو ہر وقت سگریٹ اور شراب کا مطالبہ کرتی رہتی تھی، اب روزے سے رہنے لگی اب وہ اللہ تعالیٰ اور مسیح کے سوا کسی چیز کا نام لیتی تھی۔ ایک سال کے عرصہ میں وہ ایک طوائف زادی اور قاتلہ سے مبلغہ بن گی ایک ایسی مبلغہ جس کے ایک ایک لفظ میں تاثیر تھی اس نے اپنی زندگی کے باقی دن جیل میں آئے ان مجرموں کی روحانی تربیت میں وقف کر دی۔

اس کی اس تبدیلی نے پوری جیل پر حیرت انگیز اثر چھوڑا اور وہ لوگ جنہیں قانون نے مجرم کا خطاب دے کر معاشرے کے لیے ضررساں قرار دے دیا تھا اس کی انگلی پکڑ کر نیکی، پارساث اور عبادت کے راستوں پر چلنے لگے۔ وہ بدمعاش، جیب تراش اور ڈاکو جو جرم کے نت نئے تجربات سیکھنے کے لئے جیل آتے تھے اب وہ معاشرے کے لیے امن اور محبت کا پیغام لے کر جانے لگے۔

جب ٹکر کی بدلی ہوئی زندگی کی خبر باہر پہنچی تو اخبارات کے رپورٹر جیل میں اس کے انٹرویوز کرنے آنے لگے اس کی سینکڑوں تصاویر بنائی گئی انٹرویوز ہوئے جو مختلف اخبارات، رسائل وجرائد، اور چینلز پر چلنے اور چھپنے لگے۔ امریکہ میں تو ایک بھونچال آگیا لوگوں نے اس کی فوٹو اٹھائی اور حکومت سے اس کی سزا معاف کرنے کا مطالبہ کرنے لگے۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں آگے بڑھی ”ٹکر کو بچاؤ“ کی تحریکیں شروع ہو گئیں۔ اپلییں کی گئیں، درخواستیں دی گئیں احتجاج کی دھمکیاں دی گی لیکن قانون کے بہرے کانوں پر جوں تک نہ رینگی۔

رحم کی اپیل ”ٹکیساس بورڈ آف پارڈن اینڈ پیرول“ کے سامنے پیش ہوئی۔ 18 رکنی بورڈ نے کیس سننے کی تاریخ دی تو دو ممبران نے چھٹی کی درخواست دے دی باقی 16 ممبران نے سزا معاف کرنے سے انکار کر دیا۔ بورڈ کے فیصلے کے بعد عوام سڑکوں پر نکل آئے اور ٹکر کی درخواست لے کر ٹیکساس کے گورنر جارج بش کے پاس پہنچ گے۔ گورنر نے درخواست سنی اور ہجوم سے ہمدردی کا اظہار کیا آخر میں یہ کہہ کر معذرت کر لی کہ مجھے قانون پر عمل درآمد کرانے کے لیے گورنر بنایا گیا ہے مجرموں کو معاف کرنے کے لیے نہیں، اگر یہ جرم اصلی فرشتے سے بھی سرزد ہوتا تو میں اسے بھی معاف نہ کرتا۔

جب ٹکر کی رحم کی اپیل سپریم کورٹ پہنچی تو چیف جسٹس نے یہ فقرے لکھ کر درخواست واپس کر دی: ”اگر آج پوری دنیا کہے یہ عورت کارلافے ٹکر نہیں، ایک مقدس ہستی ہے تو بھی امریکن قانون میں اس کے لیے کوئی ریلیف نہیں جس عورت نے قتل کرتے ہوئے دو بے گناہ شہریوں کو کوئی رعایت نہیں دی اسے دنیا کا کوئی منصف رعایت نہیں دے سکتا۔ اگر ہم اپنے ملک میں نظر دوڑائیں تو ہمیں ایسے ہزاروں واقعات ملیں گے جن کے ثبوت ہونے کے باوجود مجرم باہر آزاد پھر رہے ہیں۔

سانحہ ساہیوال ہمارے سامنے ایک زندہ مثال ہے بے گناہ شہریوں کو دن دہاڑے فائرنگ سکواڈ کے ذریعے مار دیا جاتا ہے واقعے کی ویڈیو ایک ثبوت، وہاں موجود شہریوں کی بیانات، شہادتیں وہ بھی ثبوت لیکن جرم کرنے والے قانون سے بالاتر نکلے عدالت کو ثبوت نہ مل سکے جس کی بنیاد پر وہ مجرموں کو سزا سناتی۔ ایک ماں کے سامنے اس کے بیٹے کو مارا جاتا ہے مجرم کچھ سال قید کاٹنے کے بعد باعزت رہا ہو جاتا ہے ثبوت نا کافی ہونے کا فائدہ دیتے ہوئے رہا کیا گیا مجبور ممتا کا بھروسا اعتماد اس عدالتی نظام سے اٹھ جاتا ہے وہ اپنے بیٹے کا بدلہ لینے کے لیے اس مجرم کو گولی مار دیتی ہے اگر ہمارا عدالتی نظام اس مجرم کو اس کی سزا دیتا تو آج ایک ماں کو اپنے ہاتھ خون سے نا رنگنے پڑتے۔

راؤ انوار جیسا قاتل جب سرعام پھرے گا تو پھر ہم کیسے امید لگائیں کہ اس معاشرے میں جرائم ختم ہوں گے۔ جو قانون سے بالاتر ہیں وہ عدالتی فیصلوں کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں۔ پاکستان میں قانون تو سخت بنائے گئے، لیکن انصاف کا عمل اتنا نرم، ڈھیلا اور طویل رکھا گیا مدعیوں کی نسلیں فیصلہ سننے کی آس میں قبروں تک پہنچ جاتی ہیں لیکن سماعتیں، پیشیاں، گواہیاں، تاریخیں، ثبوت، بیانات اور شہادتیں مکمل نا ہونے کی بنا پر مجرم رہا ہو جاتے ہیں۔

اگر اپ پیسے والے ہیں تو قانون کی آنکھ میں دھول جھونکنا، پیرول پر رہا ہونا اور ضمانت قبل از گرفتاری کا بندوبست کرنا کوئی مشکل کام نہیں اس ملک میں جرائم بڑھتے گے مجرم رہا ہوتے رہے۔ ہمارے حالات جانے کب بدلیں ہمارا عدالتی نظام کب ٹھیک ہو کب آزادانہ فیصلے ہوں، کب ثبوت اور بیانات مکمل ہوں اور مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے ایسا نظام جانے کب آئے جب فوری انصاف ملے ہم نے ہر موڑ ہر مغرب کی نکل کرتے ہیں اگر اپنا نظام بھی مغرب جیسا بنا لیں جہاں ہزاروں اپیلیں کرنے کے باوجود ٹیکساس کی ایک جیل میں 3 فروری کو 38 سالہ کارلافے ٹکر کو زہریلا انجکشن لگا کر سزائے موت دے دی جاتی ہے۔

اگر ہم نے اس سبز ہلالی پرچم تلے زندگی گزارنی ہے تو اس نظام کو بدلنا ہو گا ہمیں اس کی جگہ ایسا نظام لانا ہو گا حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول ہے۔ ”معاشرہ کفر کے ساتھ زندہ رہ سکتا ہے لیکن نا انصافی کے ساتھ نہیں“۔ ہمیں اپنا عدالتی نظام اسلامی قانون کے مطابق بنانے کی ضرورت ہے۔ جس میں کسی کے ساتھ نا انصافی نہیں کی جاتی جب معاشرے میں انصاف قائم ہوگا وقت پر فیصلے ہوں گے تو جرائم کی شرح کم ہوگی بڑھے گی نہیں کوئی مائیں اپنے بیٹوں کا بدلہ لینے کے لیے ہتھیار نہیں اٹھائیں گئی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments