طرح طرح کے لوگ


حاسد لوگ

جنہیں ہر وہ چیز بالکل نظر نہیں آتی جو ان کے پاس ہے اور ہر وہ چیز بڑی ہو کے نظر آتی ہے جو ان کے پاس نہیں ہے۔ اپنی کامیابی پر سب کو خوش ہوتا اور اسے پو رے ذوق و شوق سے سیلیبریٹ کرتے دیکھنا چاہتے ہیں لیکن کسی کی کامیابی پر انہیں کوئی پرانا غصہ، کوئی پرانی گستاخی اور اگر کچھ ایسا نہ بھی یاد آئے تو کوئی ضروری کام یاد آجاتا ہے۔ وہ خوش ہیں تو سب کا پاؤں ہاتھی کے پاؤں میں ہونا چاہیے، کوئی اور خوش ہے تو چیونٹی انہیں کاٹ جا تی ہے یا مچھر ان کے ناک میں گھس جا تا ہے اور وہ بس بھنبھنا تے رہتے ہیں۔ ایسے لوگ اکثر دنیاوی نعمتوں سے مالا مال ہو تے ہیں کہ خدا بھی ان کے شر سے محفوظ رہنا چاہتا ہے اس لئے ان کو جی بھر کے نوازتا ہے اور اسی لئے ان کے حسد کو برداشت کرنا ہر خاص و عام پر فر ض ہو تا ہے کہ ان سے تو خدا بھی بچ بچ کر چلتا ہے۔

دیگ کے دل جتنے یا حد سے زیادہ دنیا دار دوست یا رشتہ دار انہیں خوش رکھنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ کسی میں ہلکی سی بھی بغاوت کی رمق باقی ہو، اسے جلد یا بدیر انہیں خیر باد کہنا پڑتا ہے یا یہ خود ہی ایسے ”گستاخوں“ کو نشان ِ عبرت بنا دیتے ہیں۔ ان لوگوں کی پہچان کے لئے ایک اور بات ذہن نشین کر لیں کہ ان کے چہروں پر مسلسل پریشانی طاری رہتی ہے کیونکہ اپنی خوشی میں بھی یہ اسی فکر میں مبتلا رہتے ہیں کہ کون کون ان کی خوشی سے جل رہا ہے اور اسے مذید کیسے جلایا جائے اور دوسروں کی خوشی میں تو ویسے ہی یہ جل بھن رہے ہو تے ہیں تو اگر یہ لوگ ہنس بھی رہے ہوں تو ان کے چہروں سے یہ پریشانی کہیں نہیں جاتی کہ یہی ”پریشانی“ کا مستقل گھر ہے۔

دنیا دارلوگ

یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر کوئی دوسرا ہشیاری، مکاری اور دوغلی حرکتیں کرے تو اسے منافق کہتے ہیں مگر خودیا اپنا کوئی پیارا کرے تو اسے دنیا داری یا مصلحت پسند ی کہتے ہیں اس لئے دنیا داری کی رسم نبھاتے ہو ئے یہاں بھی انہیں ”دنیا دار“ ہی لکھا جا ئے گا۔ ایسے لوگ جس کے منہ پر

ہو تے ہیں اسی کے بس ہو تے ہیں، اس کے بچپن سے لے اس کے فوت ہو نے تک (جو ابھی ہونا ہو تا ہے ) ہرواقعے میں ایسے دلچسپی لیتے ہیں جیسے وہ انہی

کے ساتھ پل بڑھ کر جوان ہو ئے ہیں اور انہی کے ساتھ فوت ہو نے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ان کے سامنے بیٹھ کر ان کے دشمنوں کو اپنا دشمن کہتے ہیں اور ان کے دوستوں کے لئے جان قربان کرنے کو تیار ہوجاتے ہیں۔ یہ بات قابل ِ ذکر نہیں ہے کہ جب وہ ان کے ”دشمنوں“ کے پاس بیٹھے ہو تے ہیں تو یہی عمل اسی ترتیب سے دہراتے ہیں۔ مگر یاد رکھئیے یہ دنیا داری نہیں کوئی آسان کھیل، اک آگ کا دریا ہے اور تیر کر جاناہے اور اس کے لئے بہترین تیراک ہو نا ضروری ہوتا ہے اسی لئے ہر کوئی خالص دنیا دار نہیں ہو سکتا اس کے لیے سلوک کی بہت سی منزلیں طے کر نی پڑتی ہیں اور سب سے بڑھ کر ذہانت اور بے غیرتی کا لیول ایک خاص مقدار میں چاہیے ہو تا ہے جو ہر ایک کے نصیب میں نہیں ہو تا۔

اس لئے دنیا دار بننے کی کوشش تو بہت سے کرتے ہیں مگر کامیاب وہی ہو تے ہیں جن کو انسانی نفسیات کو اپنی بے غیرتی اور ذہانت سے قابو کرنے کا فن بخوبی آتا ہو۔ اور یہ کمبنیشین بہت کم لو گوں میں ہوتا ہے کیونکہ اکثر لوگ یا تو گھامڑ ہو تے ہیں یا پھر بے غیرتی کے اس معیار تک نہیں پہنچ پا تے لہذا کامیابی انہی کے قدم چومتی ہے جن کو خدا نے مندرجہ بالا دونوں صلاحیتیوں سے جی بھر کر نوازا ہو اور یہ وہ گُن ہے جو انسان کو نہ کوئی تعلیمی ادارہ سکھا سکتا ہے نہ ماں کی گود یا باپ کی تربیت، یہ تو اللہ کا وہ خاص فضل ہے جو کسی کسی کا نصیب ہوتا ہے۔

جیسے محنت سے کوئی بھی انسان ایک کامیاب ڈاکٹر انجئینر یا وکیل بن سکتا ہے مگر گلوکار یا رائٹر کی کامیابی کے لئے محنت کے ساتھ ساتھ خدادا صلاحیت نہ ہو تو وہ ممکن نہیں رہتی بالکل اسی طرح یہ منافقت اوہ۔ معذرت دنیا داری بھی کچھ ایسی ہی نعمت ہے جو محنت سے نہیں بلکہ اندرونی صلاحیت سے ہی کامیابی کی منزلیں طے کرتی ہے۔

چِل مِل لوگ

عبداللہ دیوانہ جیسے بیگانی شادی میں ناچتا ہے یہ لوگ بھی ہر جگہ ناچتے پھرتے ہیں۔ مطلب انہیں کسی بات سے کم ہی فرق پڑتا ہے کہ کون ان کے بارے میں کیا کہہ رہا ہے اور کیا سوچ رہا ہے۔ بلکہ اگر کوئی ان کے بارے میں سوچ ہی لے تو یہ بڑے خوش ہو جاتے ہیں۔ ایسے لوگ بھی آٹے میں نمک کے برابر ہیں اور ان کی یہ درویش صفتی ان کوخدا کا بہت بڑا انعام ہو تی ہے۔ ہر گروپ انہیں اپنے گروپ میں اس لئے رکھنا چاہتا ہے کہ ان کی اس ”درویشی“ کو حسب ِ ضرورت استعمال کیا جاسکے۔

جب نچوانا ہو نچوا لیا، جب مر ثیہ پڑھنا ہو وہ بھی پڑھوا لیا۔ یعنی ان کی معصومیت کو جیسے مر ضی نچوڑ لیا جائے ان کے فرشتوں کو بھی خبر نہیں ہو تی۔ دھمال ڈالنے کے ماہر ہو تے ہیں۔ جوش میں آئیں تو بھونڈی آواز میں ایسا گانا بھی گا دیتے ہیں کہ آنے والی نسلوں تک ان کی گونج باقی رہنے کے قوی امکانات ہو تے ہیں۔ انہیں بڑی سے بڑی بُری خبر بھی سنا دو تو ایسے دیکھیں گے جیسے کہہ رہے ہوں ”بس یہی یا کچھ اور بھی؟ “۔

ان کو کسی فوتگی پر افسوس کرنے ساتھ لے جاؤ تو ان سے جانے سے پہلے وعدے لینے پڑتے ہیں کہ وہاں جہاں کر ہنسنا تو دور کی بات مسکرانا بھی نہیں اور خود کو اس بات پر پکا کرنا پڑتا ہے کہ دوران ِ افسوس ان سے آنکھیں چار تو کیا دو بھی نہ ہوں، ورنہ جو لطافت چہرے پر بکھرے گی، پرسہ لینے والوں کے دل کو کثافت سے بھر دے گی۔

فوکسڈ لوگ

ایسے لوگوں کو میوزک فنکشن میں لے جاؤ یا ادبی یا تعزیتی یہ اپنے ایجنڈا پر فوکسڈ رہتے ہیں۔ اور یہ ایجنڈا کو ئی بھی ہو سکتا ہے۔ سیاسی سے لے کر غیر سیاسی تک۔ مگر زیادہ تر ایسے لوگ ”سیاسی“ ہو تے ہیں۔ سیاست میں آکر یہ انسانیت کی خدمت کرنا چاہتے ہیں، یہ اور بات ہے کہ انسانیت کا دائرہ ان کی اپنی ذات شریف یا اپنے خاندان کے انسانوں تک ہی محدود ہو تا ہے اور باقی انسانوں کو چارے کے طور پر استعمال کرنے کے فن میں مکمل طور پر طاق ہو تے ہیں۔

یہ لوگ پیتھالوجیکل لائر (جھوٹ بولنے کی عادت میں بیماری کی حد تک مبتلا ہو تے ہیں ) ۔ ان کا حلقہ احباب بہت وسیع ہو تا ہے۔ اور ان سے ہاتھ ملانے والے کو یہ سوچنا چاہیے کہ ”ہر ہاتھ ملانے والا دوست نہیں ہو تا“ مگرجو ان سے ایک دفعہ ہاتھ ملا لیتا ہے اور بات کر لیتا ہے وہ ان کی ریشمی باتوں کے جال میں الجھ جاتا ہے۔ دوسرا انہیں جو مر ضی سمجھتا رہے ان کی جوتی کو بھی پروا نہیں ہو تی کیونکہ یہ اپنی ذات کے علاوہ اور کسی کے بھی دوست نہیں ہو تے مگر کمال یہ ہے کہ ساری دنیا انہیں اپنا دوست سمجھتی ہے اور یہ اسی بات کا فائدہ اٹھا کر اپنی ہر جائز ناجائز ضرورت پو ری کرتے ہیں۔

مو قعے کی مناسبت سے الفاظ کا چناؤ ان پر ختم ہے کیونکہ بات صرف چناؤ اور بولنے تک ہی ہو تی ہے، وہ جو کہہ رہے ہو تے ہیں ان کا وہ مطلب ہر گز نہیں ہو تا جو سننے والا سن کر سمجھ چکا ہو تا ہے اور انہیں بڑا انسان تسلیم کر کے دل ہی دل میں ان کی عظمت کو سات توپوں کی سلامی اور ان کے قدموں کو بوسہ دے چکا ہو تا ہے۔ وہ لوگوں کے کام بھی اسی سوچ کے ساتھ آتے ہیں کہ کل کو یہ کیے ہو ئے کام ان کے کسی نہ کسی کام ضرور آئیں گے۔

اور وہ کام ان کے بارے میں اچھی اچھی باتیں کرنا، ان کے لئے فیس بک کے اچھے اچھے سٹیٹس لگانا اور ان کی انسانیت کا جگہ جگہ دم بھرنا بھی ہو سکتے ہیں اور کوئی بڑے مادی کام بھی۔ لیکن کام کر کے کام نکلوا ضرور لیتے ہیں۔ ساری دنیا انہیں اپنا دوست لیکن دل ہی دل میں یہ سب کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں اور اس ناتے خود کودنیا کی مظلوم ترین مخلوق سمجھتے ہو ئے اپنے جھوٹوں سے سب کو بے وقوف بنا کر کام نکلوانے کو اپنا حق سمجھتے ہیں۔

اور یہ سیاسی لوگ صرف روایتی سیاستدان ہی نہیں بلکہ دفتروں میں بیٹھے سرکاری افسریا صحافی یا استاد یا گھر بیٹھی کوئی ساس، نند، بہو، داماد یا بہنوئی۔ کوئی بھی ہوسکتے ہیں۔ اور اس قسم کے لوگ اتنے فوکسڈ ہو تے ہیں کہ ان کے علاوہ کسی کو خبر تک نہیں ہو تی کہ ان کا اصل فوکس کچھ اور ہے اور وہ کہہ کچھ اور رہے ہیں مختصرا! فوکس ہے کوئی اور، انہیں سمجھا جاتا ہے کوئی اور۔

مذہبی لوگ

ان میں دو طرح کی قسمیں ہو تی ہیں۔ ایک تو عام سے لوگ ہو تے ہیں جو مذہبی بھی ہوں تو بس ہو تے ہیں۔ محفل میں بیٹھے ہوں تو پتہ بھی نہیں چلتا کہ کتنے کو مذہبی ہیں۔ بس اپنے مذہب کو اپنی قمیض کی جیب میں یا دوپٹے میں سنبھال کے چپکے سے بیٹھے رہتے ہیں ان کا مذہب ان کا اور رب کے درمیان کا ہی بس معاملہ ہو تا ہے، وہ اسے نہ دوسروں کو نیچا دکھانے کے لئے استعمال کرتے ہیں نہ خود کو اونچا ظاہر کرنے کے لئے۔ ایسے نیک طبیعت لوگ دنیا سے تقریبا ختم ہو جانے والی سپیشیز ہیں۔

اور پھر ایک اور خاص قسم کے مذہبی لوگ ہوتے ہیں، جن کی داڑھی یا حجاب، نماز، روزہ، حج سب کے سب سیلفیاں لئے بغیر ادھورے ہیں۔ وہ مذہب کے زور پر خود کو دوسروں سے برتر سمجھنے کی عادت میں اس قدر مبتلا ہو تے ہیں کہ ان کی نظر میں ایک عام مسلمان یا غیر مسلمان کی وقعت ایک کیڑے مکوڑے سے زیادہ کی نہیں ہو تی۔ موقع ملے تو وہ انہیں پیروں کے نیچے کچلنے میں ذرا بھی دیر نہ لگائیں۔ ان کے نزدیک جنت کا دروازہ کھلے گا تو بس ان ہی کے لئے اور حضور پاک ﷺ ان کا استقبال کر یں گے اور اپنے ساتھ بٹھا لیں گے اور اٹھنے نہیں دیں گے کہ کوئی اور نامراد ان کی جگہ پر قابض نہ ہو جائے، آخر کو کوئی نہ کوئی ملک ریاض جنت میں بھی تو ہو گا نا۔

ان کے نزدیک باقی سب جس راستے پر چل رہے ہیں اس کا انجام دوزخ کے سوا کچھ نہیں، آگ کا یندھن ہیں باقی سب لوگ اور کچھ بھی نہیں۔ کیونکہ قبر میں ہو نے والے سوالوں کا پر چہ ان کے پاس ہی آکر لیک ہوا ہے اس لئے وہ ہی اس امتحان کو پاس کر سکیں گے یا وہ لوگ جو ان کی بات کو سنتے اور ان کے پیچھے آنکھیں بند کر کے چلتے ہیں۔ اگر کوئی آنکھ کھول کر چلے تو وہ بھی جہنمی ہی ہے۔ وہ حضرت عمر ؓ کے پیوند لگے کرتے کی مثالیں بر ینڈیڈ کرتے پہن کر اور حضور پاک ﷺ کی کھانے پینے میں سادگی کی مثالیں لذیذ ترین ڈشز سے پیٹ بھر کر دیتے ہیں۔ زبان کی بے مثال روانی اور عربی کا تلفظ سادہ لوح، قران پاک خود سے نہ سمجھنے والوں کو یوں بھی متاثر کرنے میں کامیاب رہتا ہے کہ جنت تک جانے کی اس سے زیادہ سستی اور سہل سواری دستیاب نہیں ہے

یہ تو ہو گئے عربی بولنے والے عامل فاضل مولوی، ایک نئی طرز کے مولوی بھی اب مارکیٹ میں آرہے ہیں۔ وہ پہلے گا بجا کر یا اداکاری کر کے اپنا آپ منوا لیتے ہیں۔ لوگ ان کے چہرہ شناس ہو جاتے ہیں اور وہ لوگوں کے نبض شناس اور جیسے ہی یہ عمل مکمل ہوتا ہے وہ شوبز کو خدا حافظ کر کے اسی دائرہ اسلام میں پھر سے داخل ہو جاتے ہیں جو ان کے بچپن میں ماں باپ اور مولوی انہیں سکھانے کی کوشش کرتے تھے مگر تب نٹ کھٹ ہونے کی وجہ سے وہ باتیں سمجھ نہیں پاتے تھے۔

لیکن شوبز کے در کی برکت سے ان پر خدا کو جاننے کی جستجو سوار ہو تی ہے، اور جیسے ہی انہیں یہ پتہ چلتا ہے کہ یہ کام ہو گیا ہے، کایا پلٹ گئی ہے تو وہ یہ بات صیغہ راز میں نہیں رکھتے اورپہلے وقتوں میں پریس کانفرس بلائی جاتی تھی، اب تو ایک ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر ڈال دو، مشہور تو آپ پہلے ہی ہو تے ہیں، دنوں میں باعزت بھی ہو جاتے ہیں کہ پاکستان وہ مارکیٹ ہے جہاں سب سے مہنگے داموں بغیر مول تول کیے مذہب ہاتھوں ہاتھ بکتا ہے اور مذہب کا لبادہ جتنا بڑا مرضی منافق زیب تن کر لے اسے معزز ہو نے سے کوئی نہیں روک سکتا اور شو بز یا آرٹ اور کلچر والا جتنا مرضی انسان دوست یا دیندارہو، رہے گا میراثی یا کنجر ہی۔ توسمجھدار اورہشیار فنکار جب یہ دیکھتا ہے کہ اس کی لاکھ ہشاریوں کے باوجود نہ پیسہ اتنا آرہا ہے نہ عزت اتنی مل رہی ہے تو وہ مذہب کے برینڈ کو کیش کروانے نکل کھڑا ہو تا ہے کہ امیر اور باعزت ہونے کا اس سے آسان نسخہ کوئی نہیں ہے۔

دانشور لوگ

ایک زمانے میں ایسے لوگوں کی تعداد کم کم تھی۔ سوشل میڈیا کے کمالات میں سے ایک کمال یہ بھی ہو گیا کہ دانشور اب پھپوندی کی طرح ہر جگہ نکلے پڑے ہیں۔ پہلے پہلے دانش بکھیرنے کے لئے چار کتابیں ہی سہی مگر کچھ نہ کچھ کتاب جیسی چیز پڑھنا ہی پڑتی تھی، کتاب نہ سہی اخبار ہی پڑھ لی جاتی تھی آخر کو دانشوری کرنا ہو تی تھی مگر اب سوشل میڈیا پر ادھر سے ادھر گھومنے والے اشعار، اقول اور کتابوں کے چیدہ چیدہ اقتباسات، ایک دانش مند دانشور پیدا کرنے کے لئے بہت ہیں۔

ایک مولوی کی طرح ایک دانش دور کے لئے بھی چرب زبانی، خوش لباسی اور حسب ِ ذائقہ داڑھی اور بالوں کا سٹائل اس کی حیثیت کو عام لوگوں سے نمایاں کرنے میں نمایاں کردار ادا کرتے ہیں۔ آپ مولوی نہیں ہیں اور پھر بھی داڑھی رکھتے ہیں تو دور سے ہی دانشور لگیں گے۔ بال لمبے رکھ لیں یا بالکل ٹنڈ کرو ا لیں تو پھر آپ کو دانشمند نظر آنے سے کو ئی نہیں روک سکتا۔ لادین ہو نے کا اعلان ایک اضافی خصوصیت ہے۔ مگر جو بات ایک پاکستانی دانشور کو دانشوری کی پکی سند ادا کرتی ہے

وہ ہے پاکستان کے بننے کے خلاف فتوی، بن گیا تو ابھی تک ٹوٹا کیوں نہیں، اس پیشن گوئی کو دہرائے جانا، پاکستان میں ہو نے والی ہر غلط بات کو اتنا اچھالنا کے دنیاہر پاکستانی سے پو چھے بتا تیری رضا کیا ہے؟ اور وہی بات بالکل وہی بات انڈیا میں ہو جائے تو اسے یہ کہہ کر نظر انداز کرنا کہ یہ تو ایک آدھ مثال ہے رواج نہیں، ہر غلط بات کا رواج تو پاکستان میں ہی ہے۔ ہر اس کتاب کو فضول کہنا اور کبھی نہ پڑھنے کی قسم کھاناجو گاندھی کوبرا یا جناح کو اچھا کہہ رہی ہو۔

”کتابیں پڑھنے والے یہ دانشور“ پرانے زمانے کی بات ہے اب تو سوشل میڈیا کی دانشوری ہی کی دھوم ہے اور اس کا طریقہ کار یہ ہے کہ انہی اصولوں پر جن کا ذکر اوپر کیا گیا ہے، پر چلتے ہوئے حسب ِ ذائقہ پو سٹیں فارورڈ کی جاتی ہیں، یہ لکھا نہیں ہو تا کہ اسے آگے فارورڈ کر نے والوں کو دس نیکیوں کا ثواب ملے گا مگر ان کو نہ جاننے والوں کو جاہلت اور پینڈ وپنے کے ایسے طعنے مارے ہو تے ہیں کہ مطلب تقریبا ثواب نہ ملنے والا ہی نکل آتا ہے۔

محتاط لوگ

یہ لوگ منافق نہیں ہو تے مگر اتنے غیر منافق بھی نہیں ہو تے۔ یہ اتنے احتیاط پسند ہو تے ہیں کہ انہیں تقریبا منافق کہہ ہی دینا چاہیے۔ یہ دنیا کی ہر اس لذت سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں اور اٹھاتے بھی ہیں جو دینی اور معاشرتی اعتبار سے ممنوع ہو تی ہے۔ منزل ان کی بھی وہی ہو تی ہے جو ایک گناہ گار کی ہوسکتی ہے مگر انتہائی پھونک پھونک کر قدم اٹھانے کی عادت میں مبتلا ہونے کی وجہ سے ان کا راستہ لمبا ہو جاتا ہے۔

پہنچتے وہیں پر ہیں جہاں کی خاک ہو تے ہیں مگر بڑی احتیاط سے کہ ان کے مذہب اور سماجی اصولوں کو ذرا بھر بھی ٹھیس نہ لگے۔ لگے تو لگے مگر کسی کو پتہ نہ چلے۔ ”لوگ کیا کہیں گے“۔ ”قبر میں حساب لینے والے فرشتے کیا کہیں گے“ بس اسی فکر میں جو کام جلدی جلدی کر سکتے ہیں وہ بھی انہیں آہستہ آہستہ اور چھُپ چھُپ کر کرنے پڑ جاتے ہیں۔ ان کی نیت بری نہیں ہو تی نا یہ عادتا دل توڑنے والی مخلوق ہو تے ہیں مگر خود کو بچانے کی ایسی عادت میں مبتلا ہو تے ہیں کہ ان کے راستے میں پھر جو بھی آئے پاش پاش بھی ہو جائے تو یہ سر جھٹک کر منہ دوسری طرف کر لیتے ہیں۔

الفاظ سوچ سوچ کر بولتے اور بولنے سے پہلے سو مرتبہ تولتے ہیں، اس تول مول میں بات کہاں کی کہاں نکل جائے انہیں پرواہ نہیں ہو تی۔ ایسے لوگ ہجوم کے پیچھے چلنے میں، یا ہجوم کے ساتھ سر جھکا کر کھڑے رہنے میں کو ئی عار نہیں محسوس کرتے۔ بغاوت، کسی دور پار کی نسل نے بھی کی ہو تو ان کے جینیز میں ایک بھی ایسا جرثومہ نہیں پہنچ پا تا۔ یہ خیر و عافیت سے زندگی کی منزلیں طے کر کے انتہائی سکون کی موت پاتے ہیں۔ اور پیچھے رہ جانے والوں کے پاس اس بات کے علاوہ اور کچھ بھی کہنے کو نہیں ہو تا کہ بچارہ بہت اچھا تھا، اچھا بھلا دو روٹیاں اور کریلے کا سالن کھا کہ سویا تھا اور بس پھر اٹھا ہی نہیں۔ زیادہ سے زیادہ دوروٹیوں، سالن کے ساتھ پانی کے گلاس کا اضافہ ہو سکتا ہے اس سے زیادہ لواحقین کے پاس ان کی شخصیت پر مرنے کے بعد روشنی ڈالے کو کچھ نہیں ہو تا۔

پنگے باز لوگ

یہ محتاط لوگوں کے بالکل برعکس ہوتے ہیں، آج کل نہ ہو نے کے برابر ہیں مگر پھر بھی ہیں ابھی تک دنیا میں ناپید نہیں ہو ئے۔ یہ لوگ جہاں نہ بھی بولنا ہو وہاں بھی بول پڑتے ہیں۔ کسی بھی بے زبان کی زبان بن کر پنگا لینا ان کاپسندیدہ مشغلہ ہے۔ زیادہ تر وقت لوگوں کا ایک بڑا گروپ ان کے خلاف بر سر پیکار رہتا ہے۔ ویلنے میں بازو دینے کے شوقین ہو تے ہیں اور ہر چلتی بحث میں گھس جاتے ہیں۔ بحث کہاں جا رہی ہے اس سے انہیں کو ئی سروکار نہیں ہوتا، بحث کا مقصد کیا ہے، جانے ان کی جوتی۔

ان کا کام بس ہر چلتی گاڑی میں اچھل کر سوار ہونا ہوتا ہے۔ یہ دل کے سادہ، زبان، غصے اور دماغ کے تیز لوگ ہو تے ہیں۔ اکثر لوگ ان کے سامنے بولنے سے ہچکچاتے ہیں اور کبھی کبھی باقاعدہ ڈرتے بھی ہیں۔ ان کا جتنا بڑا مرضی، مادی، سماجی یا انسانی نقصان ہو جائے یہ غلط کو غلط کہنے سے نہیں چوکتے اور اس معاملے میں اتنے انتہا پسند ہو تے ہیں کہ صحیح کو بھی غلط ہی کہتے ہیں اور ا انہیں کوئی مائی کا لال روک نہیں سکتا۔ ان کی زندگی کی مدت چھوٹی اور مرنے کے بعد قصوں عمر بہت لمبی ہو تی ہے۔ جنازے کی چارپائی کے گرد ان کے بارے میں متضاد رائے رکھنے والوں کو ہجوم ہوتا ہے اور ایسے جنازوں کی نماز ِ جنازہ کے شرکاء اختتام پر اکثر ایک دوسرے سے دست و گریبان ہو ئے پائے جاتے ہیں۔

اس کے علاوہ بھی بہت سی اقسام کے لوگ پائے جاتے ہیں، مگر ہر بات جیسے کہنے کی نہیں ہو تی اسی طرح ہر بات لکھنے کی بھی نہیں ہو تی۔ اس تحریر میں اپنا آپ ڈھونڈنے سے بھی نہ ملے تو سمجھ جائیے گا کہ آپ ان لوگوں میں سے ہیں جنہیں ابھی ایجاد یا دریافت ہونا ہے۔ انسان کو سمجھنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے تو بس اگر آپ اوپر کہیں نہیں ہیں تو آپ بس ناممکنات میں سے ہیں جنہیں سر کرنے والا ابھی کوئی پیدا نہیں ہوا۔ (جاگتے رہو، پہچانتے رہو اور ہنستے رہو)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments