ایغور مسلمانوں پر چین کے ناقابل معافی مظالم اور امریکی بائیکاٹ اور پابندیوں کی وجوہات


رواں سال کے دوران چین کے صوبہ سنکیانگ میں دس لاکھ سے زائد ایغورمسلمانوں کی چینی حکومت کے قائم کردہ سیلز میں نظربندی اور اس کے خلاف ہونے والے احتجاج پر اب تک بہت کچھ لکھا جاچکاہے جبکہ اس کے رد عمل میں چین اس بدترین سلوک کو اسلامی انتہا پسندی کے خاتمہ کا نام دیتا رہا ہے۔ چین کا یہ بھی دعویٰ رہا ہے کہ نظربندی کیمپ ووکیشنل ٹریننگ سنٹرز ہیں لیکن حقائق و شواہد چین کے اس دعویٰ کی نفی کرتے ہیں۔ 16 نومبر کو نیویارک ٹائمز میں ”دی سنکیانگ پیپرز“ کے نام سے شائع شدہ آرٹیکل میں چین کے ان نظربندی کیمپوں میں ایغورمسلمانوں کے ساتھ کیے جانے والے گھناؤنے سلوک سے متعلق انکشافات کیے گئے ہیں اور یہ آرٹیکل 400 سے زائد لیک ہونے والے صفحات پر مشتمل ہے۔

26 نومبر کو امریکی سیکرٹری آف اسٹیٹ مائیک پومپیو نے سنکیانگ پیپرز کے حوالہ سے تبصرہ کرتے ہوئے اسے سفاکانہ حراست اور ایغورمسلمانوں اور سنکیانگ میں آباد دیگر اقلیتوں کے خلاف منظم مظالم سے تعبیر کیاتھا۔ مائیک پومپیو کا کہناتھا کہ ہم چینی حکومت پر زوردیتے ہیں کہ وہ جبری طورپر حراست میں لئے گئے اپنے تمام شہریوں فوری طور پر رہا کرے اور اپنی ڈریکونین پالیسیز کا خاتمہ کرے جنہوں نے سنکیانگ میں اس کے اپنے ہی شہریوں کو خوف و ہراس میں مبتلا کررکھاہے۔

سنکیانگ میں جاری ان مظالم کے خلاف امریکہ میں مزید آوازیں بھی بلند ہورہی ہیں۔ امریکی مسلمانوں کی تنظیم برائے کمیونٹی حقوق ایمگیگ نے مطالبہ کیا ہے کہ 2022 میں بیجنگ ہونے والے سرمائی اولمپکس کا بائیکاٹ کیاجائے۔ 3 دسمبر کو امریکہ نے ایغورہیومن رائٹس پالیسی ایکٹ پاس کیا جسے اب سینیٹ سے پاس کرایاجانا ہے۔ اس ایکٹ کے تحت ایغورمسلمانوں کے خلاف متشدد اور مکروہ کارروائیوں کے خاتم تک چینی حکومت کے خلاف سخت پابندیوں کی سفارش کی گئی ہے۔ ایک بھارتی امریکی مسلمان کے طورپر میں چین کے خلاف بیجنگ اولمپکس 2022 کے بائیکاٹ اور ایغورہیومن رائٹس ایکٹ کے تحت پابندیوں کی حمایت کرتاہوں۔

امریکہ دنیا بھرمیں ہیومن رائٹس کی خلاف ورزیوں کے خلاف آواز اٹھانے اور اقدامات کی تاریخ رکھتاہے اور اولمپکس بائیکاٹ کے ذریعہ نظربندی کیمپوں کے خاتمہ کے لئے دباؤ بڑھایا جاسکتاہے۔ ایغورہیومن رائٹس پالیسی ایکٹ امریکی لیڈرشپ کی طرف سے دنیا بھرمیں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف عملی اقدامات کی ایک مثال ہے۔ 1979 میں افغانستان میں سوویت یونین کی جارحیت کے خلاف امریکی صدر جمی کارٹر نے ماسکو اولمپکس 1980 کا بائیکاٹ کیاتھا۔

امریکہ کے اس بائیکاٹ کی دنیا بھر کے 64 ممالک نے حمایت کی اور ماسکو نہیں گئے۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف اولمپک بائیکاٹ کے برعکس ماضی میں امریکی لیڈرشپ کا کردارمثبت دکھائی نہیں دیتا جب جنگ عظیم دوم کے دوران امریکی حکومت نے ایک لاکھ بیس ہزار جاپانی امریکیوں کو محض اس لئے نظربند رکھا کہ جاپانی النسل تھے اور یہ امریکی تاریخ میں کوئی قابل ستائش عمل نہیں تھاجس پر 1988 میں صدر رونالڈ ریگن نے سول لبرٹیز ایکٹ پر دستخط کرتے ہوئے باقاعدہ معافی بھی مانگی تھی۔

سیکرٹری آف اسٹیٹ مائیک پومپیو نے اس پر اپنی تشویش کا اظہار کردیاہے اور صدر ٹرمپ کو بھی ایغورایکٹ کانگریس سے پاس ہوتے ہی فوری طورپر اس پر دستخط کرکے اپنی طرف سے چین کو واضح پیغام دینا چاہیے۔ عمل الفاظ سے گہرا اثر رکھتے ہیں کے مصداق امریکہ کو چین کے خلاف ایغورایکٹ کے تحت سخت پابندیاں لگا کر واضح پیغام دینا ہوگا اور ان پابندیوں میں اپنے حلیف ممالک کو شامل کرکے امریکہ ظلم وزیادتی کا شکار ایغورمسلمانوں کے خلاف مظالم بند کروانے کے لئے چین کو مجبورکرسکتاہے۔ ایک ملک جو ان پابندیوں کے نفاذمیں امریکہ کا ساتھ دے سکتاہے وہ میری جنم بھومی بھارت ہے جو ابھی تک حیرت انگیز طورپر اس سنگین مسئلہ پر خاموشی اختیارکئے ہوئے ہے۔

بھارت کو اس اہم مسئلہ پر سامنے آتے ہوئے دنیا بھرمیں یکساں انسانی حقوق کے اپنے عزم کو دہرانا چاہیے اور دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے اپنے دعویٰ کو ایک مرتبہ پھر دنیا کے سامنے اجاگر کرنا چاہیے۔ خاص طورپر یہ بھارت کی طرف سے مسلمانوں سے متعلقہ مسائل اور حالیہ درپیش صورتحال کے پیش نظر جوابی حکمت عملی کاحصہ بن سکتاہے۔ مسلم اکثریتی ریاست کشمیر کے حوالہ سے آزاد میڈیا اور پریس پر پابندیوں کے حوالہ سے بھارتی حکومت کا تاثر درست نہیں رہا ہے۔

بھارتی حکومت اس وقت شہریت کے نئے قانون کی وجہ سے دنیا بھرکے انسانی حقوق کے علمبرداروں کی طرف سے شدید تنقید کی زد میں ہے جس کے تحت اس نے آسام اور تری پورہ کے کیمپوں میں زندگی بسر کرنے پر مجبور بیس لاکھ سے زائد لوگوں جن میں اکثریت مسلمانوں کی ہے کو شہریت کے حق سے محروم کرنے کی کوشش کی ہے۔ بھارت کے لئے یہ بہترین موقع ہے کہ وہ اپنا امیج بہتربنانے کے لئے ان دھبوں کو دورکرنے کے لئے عملی طورپرایسے اقداما ت کرے جہاں انصاف اور برابری کے مواقع تمام کمیونٹیز کو میسرہوسکیں۔ یہ پالیسی سازی کے حوالہ سے بھی درست سمت اپنانے کا بہترین موقع ہے جس سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔

ایک بات طے شدہ ہے کہ ایغورمسلمانوں کے حوالہ سے چینی اقدامات ناقابل قبول اور قابل مذمت ہیں اور وہ برین واشنگ، ڈرانے دھمکانے اور نسل کشی کے راستہ پر گامزن ہے جو کسی بھی طورپر قابل قبول نہیں۔ یہ کسی کمیونسٹ، مطلق العنان ریاست میں تو قابل قبول ہوسکتاہوگا مگر ایسے اقدامات ایسے ممالک کے لئے قطعاً قابل قبول نہیں ہوسکتے جوانسانیت، آزادی، اور مساوی انسانی حقوق کے علمبردارہیں۔ انہی بنیادوں پر ایسے تمام ممالک کو متحد ہوکر چین میں ایغورمسلمانوں کو مظالم سے نجات دلانے کے لئے آگے آنا ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments