میرے دیس کے بے نام مچھیرے


ویسے تو میرے دیس کے مسائل بہت بڑے بڑے ہیں جیسے کہ رانا ثناءاللہ صاحب سچے ہیں۔ یا شہریار آفریدی صاحب صادق اور امین ہیں۔ مریم نواز صاحبہ انقلاب لے کر آرہی ہیں۔ یا بلاول بھٹو صاحب انقلابی ہیں لیکن اگر میں جان کی امان پاؤ تو ایک جسارت کرنا چاھتی ہوں میرے آقاوں ہم۔ غریب غلام۔ رعایا بھی اس وطن میں رہتے ہیں حضور ہم۔ کو بھی انسان کہا جاتا ہے۔ ہماری بھی کچھ حقیر حقیر سے مسائل ہیں جن کی وجہ سے ہم۔ پر زندگی کے دروازے تنگ ہوئے ہیں۔

اس وطن کا سب سے بڑا شہر جو کہ معاشی سیاسی سماجی اور اقتصادیات کا مرکز ہے۔ کراچی کے اس بڑے شہر کے اندر واقع ہے مچھر کالونی۔ یہ کراچی کے اندر موجود کیماڑی ٹاون کے قریب ایک کچی پسماندہ آبادی ہے جو کہ محمدی سوسائٹی اور مچھر کالونی کے نام سے جانی جاتی ہے مچھیرے لفظ سے ہی اس کا نام مچھر کالونی پڑا تھا۔ کیونکہ یہ ماہی گیروں کی آبادی کہلائی جاتی ہے 1960، سے ہی یہاں پر بنگالی برمی اور پختون آباد ہیں دس لاکھ کی اس بستی میں بنگالیوں کی تعداد کثرت سے ہے۔

یہاں پر موجود لوگوں کے لیے اپنی زندگی دوسرے لوگوں کے مقابل گزرنا کافی مشکل ہے۔ جوں جوں گندا نالہ خشک ہوتا گیا وہاں لوگ آباد ہوئے۔ گندے نالے کے اوپر موجود یہ بستی جو کہ لاوارث ہے۔ کیونکہ یہاں پر موجود لوگوں کے لیے نہ ہی روزگار کے کوئی مواقع موجود ہیں نہ صحت کے نہ ہی تعلیم نہ کوئی اسپتال موجود ہے۔ جہاں پر روزگار کا سوال آتا ہے تو ان کے لیے سب سے بڑا المیہ یہ ہے ماہی گیروں کی اس بستی میں موجود لوگ آج تک اپنی شنا خت سے ہی محروم ہیں۔

حکومت کی طرف سے ان کو پاکستانی ہی تسلیم نہی کیا جاتا ان کو نادرا سے شناختی کارڈ نہی بنا کر دیے جاتے کئی لوگ تو بیس بیس سال سے اس کے لیے کوشش کر رہے اور شناختی کارڈ نہ ہونے کی بنا پر ان کے آنے والی نسلوں کو بھی بہت دھکے کھانے پڑھتے ہیں۔ ان کے بچوں کے بے فارم نہی بنتے برتھ سرٹیفکیٹ نہ ہونے کی وجہ سے ان کو اسکول میں داخلہ نہی ملتا۔ حکومت کی اس ایک غفلت سے وہ اپنی ساری زندگی محرومیوں میں گزارنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

نہ ہی ان کو کوئی شناخت ملتی نہ ہی روزگار تو ان کی آنے والی نسلیں تعلیم۔ صحت اور روزگار جیسے بنیادی انسانی حقوق سے محروم ہوتے ہیں۔ اس ایک غلطی اور کوتائی کی وجہ سے مچھر کالونی میں سماجی اخلاقی اور قانونی جرائم میں۔ خطرناک حد تک اضافہ ہورہا ہے۔ کمسن بچے بچیوں کی شادی کا رواج بہت زیادہ ہے۔ تقریبا ہر لڑکی بارہ سال کی عمر میں ماں بن جاتی ہے۔ جو کہ انسانیت کی تذلیل لگتی ہے۔

کیوں ہم نے یہ سوچ بنائی ہے کہ لوگو کو تکلیف ہی دینی ہے کیوں ہم۔ نے یہ ماحول پیدا کیا ہے خواص کی لڑائیوں میں عوام کے مسائل اور غمگیر ہو گئے ہیں۔ خدارا ملک کے ظاہری اور باطنی حکمرانوں ہم لوگوں پر رحم کرو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments