ہلچل نیوز: سب سے پہلے، سب سے غلط


\"ahmadانٹر نیٹ پر گردش کرتی ایک ویڈیو کے مطابق کراچی میں نادرا آفس کے باہر ایک خاتون صحافی کو ایف۔سی یعنی فرنٹیئر کانسٹیبلری کے اہلکار نے تھپڑ ماراہے جس کی مذمت کی جانی چا ہیئے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ لوگوں کی پگڑیاں اچھالنے والے اس طرح کے شتر بے مہار نیوز چینلوں کی بھی اسی جذبے سے مذمت کی جانی چاہئیے۔

پولیس نے لوکل نیوز چینل K 21 کی خاتون رپورٹرصائمہ کنول اوران کی ٹیم کے خلاف کارِ سرکار میں مداخلت کرنے کے جرم میں مقدمہ درج کر لیا ہے۔اس سے ایک روز قبل پولیس نے ایف ۔سی اہلکارحسن عباس کے خلاف بھی خاتون کو تھپڑ مارنے کے جرم میں ایف آئی آر درج کی تھی۔

میں اس ویڈیو کو بار بار دیکھ رہا ہوں۔ اور محسوس کر رہا ہوں کہ یہ تھپڑ ہم سب صحافیوں سمیت میڈیا مالکان اور حکومت کے منہ پر بھی ہے جو گزشتہ پندرہ برسوں سے یعنی جب سے نیوز چینلز کا اس دنیا میں ظہور ہوا ہے کوئی حقائق سے ہم آہنگ صحافتی ضابطہ اخلاق بنانے پر اتفا ق نہیں کر سکے ہیں۔

اگر آپ مجھ سے پوچھیں تو میرے بارہ سالہ صحافتی کیرئیر میں اور خصوصاً چند برس بی بی سی کے رپورٹر کے طور پر کام کرتے ہوئے ہوسکتا ہے کہ میرے ہاتھوں بھی کئی لوگوں کی پگڑیاں اُچھل گئی ہوں ، لیکن آج تک تھپڑ تو درکنار یہ توبت بھی نہیں آنے دی کہ کوئی اوے تک بھی کہہ سکے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ بنیادی صحافتی اُصولوں کے دائرے میں رہ کر ہر طرح کا کام کیا جائے ۔شہید ہونے کے بجائے غازی رہا جائے تاکہ دشمن پر کاﺅنٹر اٹیک کیا جا سکے۔

\"thaparr-pic\" آپ نے یہ ویڈیو دیکھی ہے یا نہیں دیکھی ہے،اور آپ رپورٹر ہیں یا نہیں ہیں۔ ذرا ملاحظہ فرمائیے کہ محترمہ کو تھپڑ کس وجہ سے پڑا؟

کراچی میں ناردا آفس کے باہر لوگوں کا ایک ہجوم ہے ، نادرا عملے کی سست روی کی وجہ سے لوگوں کومشکلات پیش آ رہی ہیں۔ملیشیا رنگ کی شلوار قمیض پہنے ایف۔سی کے اہلکار دفتر کے باہر اس ہجوم کو قطاروں میں کھڑا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔لوگ صبح چھ بجے سے کھڑے ہیں اور بارہ بج چکے ہیں۔ ایسے میں انٹری ہوتی ہے K 21 چینل کی براہ راست نشریات براڈ کاسٹ کرنے والی ٹیم کی۔رپورٹ کامقصد یہ ہے کہ سب سے پہلے ٹی۔وی پر دکھایا جائے کہ نادرا حکام لوگوں سے تعاون نہیں کر رہے ہیں اور دفتر کے باہر لوگ نادرا عملے کی سست روی کی شکایات کر رہے ہیں۔ٹیم کے لوگ کوشش کر رہے ہیں کہ کسی طرح سے اندر جائیں اور عملے کی براہ راست بے عزتی کریں۔نادرا والوں نے ایف۔سی کے اہلکاروں کو کہہ رکھا ہے میڈیا والے اندر نہ آئیں۔ٹیم بار بار کوشش کر رہی ہے کہ کسی طرح سے اندر گھسا جائے، لیکن ایف ۔سی والے ان کے سامنے سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔آخر میں جب کوئی بس نہیں چلتا تو بندر کی بندوق کا رُخ یعنی رپورٹر سمیت ٹیم کی توپوں کارُخ ایف۔سی اہلکاروں کی جانب کر دیا جاتا ہے ۔اور ان کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔اس پر بھی تسلی نہیں ہوتی۔ خاتون رپورٹر کو پتہ چلتا ہے کہ فلاں اہلکار نے ہجوم میں موجود انہی کی ایک ہم جنس یعنی کسی خاتون کے ساتھ بد تمیزی کی ہے۔غصے سے رپورٹر کی سانس پھولنا شروع ہوتی ہے۔خود پر کوئی قابو نہیں رہتا۔اپنے کیمرہ مین کو یہ کہتے ہوئے اُس اہلکار کی جانب بڑھتی ہیں کہ اس شخص کو سامنے سے دکھاو اور اُس کے پاس جا کر کہتی ہیں”یہ ہے وہ آدمی جو یہاں صرف اور صرف لوگوں کو بے عزت کرنے آیا ہے ۔او ،تمہیں شرم نہیں آتی“ ۔وہ بیچارا براہ راست بے عزتی سے بچنے کے لئے سائیڈ پر ہونا چاہتا ہے تو محترمہ اُس کے راستے میں آکر کہتی ہیں”تمھارے گھر میں مائیں بہنیں نہیں ہیں“۔وہ آگے بڑھتا ہے تو وہ ا س کا کالر کھنچنے کی کوشش کرتے ہوئے کیمرہ مین سے فرماتی ہیں”یہ ذرا انکی یونیفارم دکھائیے“۔ وہ ایک جھٹکے سے اپنی قمیض کھینچتا ہے تو کہتی ہیں” یہ ہے ان کا رویہ“۔ جب یہ سب کہتے ہوئے وہ دوبارہ اس کا پیچھا کرنے کی کوشش کرتی ہیں تو وہ غصے میں خاتون کو تھپڑ رسید کر دیتا ہے۔

ایف۔سی اہلکار کو اپنے غصے پر قابو رکھنا چاہیئے تھا اور خاتون پر ہاتھ نہیں اٹھانا چاہیئے تھا، لیکن میں انہیں ایک خاتون سے زیادہ ایک \"hqdefault\"رپورٹر سمجھتا ہوں اور ایک رپورٹر کا یہ رویہ انتہائی افسوسناک ہے۔

رپورٹر کوکچھ معلوم نہیں تھا کہ لوگ یہ سب کچھ ٹی۔وی پر یا سوشل میڈیا پر دیکھیں گے، اور ن کے اس رویے کی وجہ سے صحافت جیسے مقدس پیشے کی دھجیاں اُڑ جائیں گی، اور ساتھ ہی ساتھ لوگوں کا صحافت سے بھی اعتماد اُٹھ جائے گا۔وہی ہو رہا ہے کہ خواتین بھی اس ویڈیو کو دیکھ کر خاتون رپورٹر کی صحافت پر لعنت بھیج رہی ہیں۔اور لوگ کہہ رہے ہیں کہ بھئی یہ کون سی صحافت ہے، کہاں کی صحافت،کیسی صحافت ہے،کب ایجاد ہوئی اور کیوں یہ صحافت ہے۔

افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جب ٹیلیویژن چینلز کے مالک آڑھتی ٹائپ لوگ ہوں گے ،اور سفارش پر لوگوں کو اپنے چینلز میں بھرتی کریں گے، اور پھر ان کی کوئی مناسب تربیت نہیں کروائیں گے تو ایسے ہی رپورٹر اور عملہ سامنے آئے گا ۔

ناچیز نے بھی جنرل ریٹائرڈ پرویزمشرف کے دور میں اپنی آنکھوں کے سامنے ایک صحافی کو تھپڑ پڑتے دیکھاہے۔وکلاءتحریک چل رہی تھی۔صحافیوں ، وکلاءاور سول سوسائیٹی کی تنظیمیں مارشل لاءیا ایمرجنسی کے خلاف احتجاجی مظاہرے کر رہی تھیں۔سب کے اوپر دفعہ 144 لگی ہوئی تھی۔لمز یعنی لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز میں جنرل مشرف کے خلاف مظاہرہ ہو رہا تھا۔بڑی خبر تھی۔لمز کے مالک کے جنرل مشرف کے ساتھ ذاتی مراسم تھے۔یونیورسٹی کا مالک چاہتا تھا کہ سٹوڈنٹس مظاہرہ تو کر لیں ،لیکن یہ خبر باہر نہ جائے۔

گیٹ پر پولیس کی بھاری نفری تعینات تھی۔میڈیا کے داخلے پر پابندی تھی۔طلبہ کو بھی یونیورسٹی کا شناختی کارڈ دکھائے بغیر اندر نہیں جانے دیا جا رہا تھا۔مظاہرہ شروع ہوچکا تھا۔میں اور وائس آف جرمنی کے ایک صحافی دوست تنویر شہزاد پولیس سے کچھ فاصلے پر کھڑے حساب لگا رہے تھے کہ اندر کیسے جایا جائے۔اسی دوران ہمارے ایک اور صحافی دوست موٹر بائیک پر بیٹھے سیدھے گیٹ پر پولیس والوںکے پاس چلے۔ہم تھوڑے دور کھڑے تھے، لیکن معلوم پڑ رہا تھا کہ بحث ہو رہی ہے۔اس کے بعد پولیس نے صحافی پر تھپڑوں کی بارش کر دی۔میرا خون بھی کھولنا شروع ہوا۔ڈی۔ایس۔پی یہ کہتا ہوا ہماری طرف بڑھتے ہوئے کہہ رہا تھا ”تساں وی جاناں ایں کہ میں بھیجاں تہانوں“۔ پہلے دل میں آیا کہ اسے تھوڑا اور آگے آنے دیا جائے اور اس کے بعد اس پر بھی تھپڑوں کی بارش کر دیا جائے پھر جو ہوگا دیکھا جائے گا،لیکن ساتھ ہی بی بی سی کے بیورو چیف اور دوست علی سلمان جعفری کی بات یاد آئی جو تھی تو کچھ اور لیکن آپ یہ سمجھ لیںکہ شیر کے منہ میں ہاتھ نہیں دینا یعنی گرفتار نہیں ہونا۔مقصد بھی پورا ہو چکا تھا یعنی خبر تو بن چکی تھی ۔پہلے سے زیادہ بڑی خبر بن چکی تھی۔خبر یہ کہ لمز میں جنرل مشرف کے خلاف مظاہرہ اور صحافی پر تشدد۔تھپڑ کھا کر آنے والے صحافی کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرنے کے بعد اس کا انٹرویو ریکارڈ کیااور خبر بنا کر بی بی سی کے نیٹ ورک پر نشر کردی۔

اس نا خوش گوار واقعے کے بعد وقت ہے کہ میڈیا مالکان اور حکومت ہلچل نیوز طرز کے نیوز چینلز کی ٹریننگ کروائیں، یاپھر اس طرح کے کسی اور واقعے کا انتظار کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments