’دا بیٹل فار پاکستان‘: شجاع نواز کی کتاب میں ایسا کیا ہے کہ پاکستان میں اس کی تقریب رونمائی نہ ہو سکی؟


معروف سکالر اور تجزیہ نگار شجاع نواز کی حال ہی میں شائع ہونے والی کتاب ’دا بیٹل فار پاکستان‘ ملک کے سیاسی اور عسکری حلقوں میں کافی زیر بحث ہے اور اس کی بنیادی وجہ نہ صرف کتاب میں موجود مواد ہے بلکہ شجاع نواز کا اس حوالے سے فیس بک پر جاری کیا گیا پیغام بھی ہے۔

24 دسمبر کو شجاع نواز، جو کہ پاکستان کے سابق آرمی چیف جنرل آصف نواز کے بھائی بھی ہیں، نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر لکھا کہ ’وہ تمام افراد جو میری کتاب کی رونمائی کی کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں منعقد ہونے والی تقاریب کی منسوخی کی وجہ پوچھ رہے ہیں، میں ان کو بتانا چاہتا ہوں کہ (مبینہ طور پر) پاکستان آرمی نے ان تقاریب کے منتظمین کے ذریعے انھیں منسوخ کروایا ہے۔‘

انھوں نے مزید لکھا کہ پہلے ان سے کہا گیا کہ وہ خود یہ تقاریب ملتوی کر دیں لیکن جب انھوں نے انکار کیا، تو یہ فیصلہ ان کی ’مرضی کے خلاف لیا گیا۔‘

لیکن ایک ایسی کتاب جس میں مصنف خود لکھتے ہیں کہ وہ فوج کے سابق سربراہان جیسا کہ جنرل پرویز مشرف، جنرل اشفاق پرویز کیانی، جنرل جہانگیر کرامت، جنرل راحیل شریف اور موجودہ سربراہ جنرل قمر جاوید باوجوہ کے ’بالخصوص مشکور‘ ہیں تو اس کتاب میں ایسا کیا ہے جس سے مبینہ طور پر پاکستانی فوج نے مبینہ طور پر اس کی رونمائی نہ ہونے دی۔

بی بی سی اردو نے جب شجاع نواز سے اسی بابت سوال کیا تو انھوں نے کہا کہ وہ اس بارے میں مزید کوئی بات نہیں کرنا چاہتے۔

’میں ایسا کچھ نہیں کہنا چاہتا جس سے قیاس آرائیوں میں اضافہ ہو۔ یہ جواب صرف فوج دے سکتی ہے۔ ان کی خواہش تھی کہ کتاب کی رونمائی کی تقاریب مستقبل میں ہوں۔‘

کتاب میں ایسا کیا لکھا ہوا ہے؟

ظہیر

کتاب میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ‘ستمبر 2014 میں ہمیں اطلاع ملی کہ جنرل ظہیر الاسلام پاکستان میں فوجی بغاوت کا منصوبہ بنا رہے ہیں مگر اس وقت کے فوجی سربراہ جنرل راحیل شریف نے اس منصوبے کو پنپنے نہیں دیا‘

امریکہ میں تھنک ٹینک، اٹلانٹک کونسل کے ساؤتھ ایشین سینٹر سے منسلک شجاع نواز نے کتاب کے مواد کے بارے میں بات کرتے ہوئے بی بی سی کو بتایا کہ ان کی کتاب کا محور بالخصوص سنہ 2008 سے پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کے بارے میں ہے۔

‘میری کتاب کا اصل مقصد ان مسائل کی آگاہی میں اضافہ تھا جو پاکستان کی ترقی کی راہ میں حائل تھے اور مستقبل میں ایسے حالات کے بارے میں تصویر کشی کرنا تھا جن کی مدد سے پاکستان اپنے مقاصد کو حاصل کر سکے۔‘

شجاع نواز کہتے ہیں کہ اس کتاب میں انھوں نے امریکی عسکری اور سفارتی قیادت کی حکمت عملی اور اس کی خامیوں پر بھی نظر ڈالی ہے جن میں وہ پاکستان کو افغان پالیسی میں ذیلی حیثیت دیتے تھے۔

لیکن اگر کتاب کا جائزہ لیا جائے تو اس میں ایسے کئی واقعات شامل ہیں جن کا ماضی میں اتنا کھلے عام ذکر شاذ و نادر ہی ہوا ہے۔

کتاب کے صفحہ 185 پر شجاع نواز لکھتے ہیں کہ سنہ 2014 میں افواہیں گرم تھیں کہ پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے اس وقت کے سربراہ جنرل ظہیر الاسلام پاکستان تحریک انصاف اور اس کے سربراہ عمران خان کی جانب سے اسلام آباد میں حکومت مخالف دھرنے کے انعقاد میں مدد کر رہے تھے۔

اسی بارے میں وہ صفحہ 262 میں پاکستان میں امریکہ کے سابق سفیر رچرڈ اولسن سے اپنی گفتگو کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ امریکی سفیر نے انھیں بتایا کہ ’ستمبر 2014 میں ہمیں اطلاع ملی کہ جنرل ظہیر الاسلام پاکستان میں فوجی بغاوت کا منصوبہ بنا رہے ہیں مگر اس وقت کے فوجی سربراہ جنرل راحیل شریف نے اس منصوبے کو پنپنے نہیں دیا اور آئی ایس آئی کے سربراہ کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا۔ جنرل ظہیر کور کمانڈرز سے بھی رابطے رکھے ہوئے تھے اور اگر انھیں راحیل شریف کی حمایت ہوتی تو حکومت کا تختہ الٹ چکا ہوا۔‘

اسی طرح کا ایک اور واقعہ انھوں نے صفحہ 34 پر بیان کیا ہے جس میں وکلا تحریک کا ذکر کرتے ہوئے شجاع نواز لکھتے ہیں کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے اعتزاز احسن نے انھیں بتایا کہ انھیں اس تحریک کے دوران ملکی حالات کے تناظر میں شک تھا کہ فوج تختہ نہ الٹ دے مگر وہ پریشان نہیں تھے کیونکہ وکلا تحریک کے نتیجے میں صدر پرویز مشرف کو اپنے عہدے سے استعفی دینا پڑا تھا۔

اعتزاز

شجاع نواز لکھتے ہیں کہ اعتزاز احسن نے کہا ‘ہم گو مشرف گو’ کے نعرے ‘گو کیانی گو’ میں تبدیل کر دیتے۔’

لیکن اسی کے ساتھ ساتھ شجاع نواز آگے لکھتے ہیں کہ انھیں فوج کے اُس وقت کے سپہ سالار جنرل اشفاق پرویز کیانی نے بعد ازاں بتایا کہ اگر وہ چاہتے تو وہ حکومت گرا چکے ہوتے کیونکہ عوام کا حکومت پر سے اعتماد اٹھ گیا تھا اور وکلا تحریک کے نتیجے میں ہونے والی انتشار کی صورتحال نے سب کو پریشان کر دیا تھا لیکن جنرل کیانی نے ایسا قدم نہیں اٹھایا۔

اسامہ بن لادن اور ان کے خلاف سنہ 2011 میں امریکہ کی جانب سے کیے گئے آپریشن کے بارے میں شجاع نواز نے 37 صفحات پر مبنی باب ‘فرام تورا بورا ٹو پٹھان گلی’ کے نام سے لکھا ہے جس میں انھوں نے تفصیلی طور پر اس آپریشن، اس کے محرکات اور اسامہ بن لادن تک پہنچنے کے لیے پاکستانی اور امریکی خفیہ اداروں کی جانب سے کی گئی مختلف کارروائیوں کا ذکر کیا ہے۔

یاد رہے کہ گذشتہ برس سابق آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل اسد درانی نے انڈین خفیہ ادارے را کے سربراہ اے ایس دلت کے ہمراہ اپنی گفتگو پر مبنی کتاب ’دا سپائی کرانکیلز‘ میں ذکر کیا تھا کہ امریکیوں کو اسامہ بن لادن کے بارے میں معلومات فراہم کرنے میں اہم کردار کا ایک سابق پاکستانی فوجی افسر کا تھا۔

انھوں نے کہا تھا کہ ’میں اس کا نام نہیں لینا چاہتا کیونکہ میں اپنے الزامات ثابت نہیں کر سکوں گا اور نہ ہی میں اس کو کوئی مشہوری دلوانا چاہتا ہوں۔ اس کو امریکہ سے پانچ کروڑ ڈالر کے معاوضے میں سے کتنا ملا، میں نہیں جانتا، مگر وہ پاکستان میں نہیں ہے۔‘

شجاع نواز اس پر روشنی ڈالتے ہوئے صفہ 102 پر لکھتے ہیں اسامہ بن لادن کی کھوج لگانے کے لیے مختلف افراد نے امریکی حکام کی مدد کی تھی جن میں سے ایک آئی ایس آئی کے سابق افسر لیفٹیننٹ کرنل اقبال سعید خان تھے جو اس سے قبل ملٹری انٹیلیجنس کا بھی حصہ رہ چکے تھے۔

شجاع نواز لکھتے ہیں کہ اقبال سعید خان فوج میں ’بیلی‘ کے نام سے بھی معروف تھے اور فوج سے قبل از وقت ریٹائرمنٹ کے بعد انھوں نے سکیورٹی کنٹریکٹر کا کام شروع کر دیا تھا۔

شجاع نواز لکھتے ہیں کہ غالباً اقبال سعید خان کے ایبٹ آباد کے دفتر کو امریکیوں نے جاسوسی کے لیے استعمال کیا تھا اور بعد میں انھیں امریکی آپریشن کے بارے میں خاموش رہنے پر نوازا گیا۔

اسامہ بن لادن کے خلاف امریکی کارروائی پر پاکستانی حکومت نے ایبٹ آباد کمیشن قائم کیا جس کی باضابطہ رپورٹ تو کبھی منظر عام نہیں آئی لیکن غیر سرکاری طور پر سامنے آنے والی رپورٹ میں اقبال سعید خان کو بری کر دیا گیا تھا۔

لیکن شجاع نواز کتاب میں لکھتے ہیں کہ امریکی کارروائی کے فوراً بعد اقبال سیعد خان پاکستان سے باہر چلے گئے تھے اور اسلام آباد ڈی ایچ اے میں اپنا مکان بھی خالی چھوڑ دیا۔

’سابق فوجی افسر اب امریکی شہر سان ڈیاگو میں 24 لاکھ ڈالر کی مالیت کی حویلی میں رہائش پزید ہیں اور سفید رنگ کی بیش قیمت گاڑی بی ایم ڈبلیو ان کے زیر استعمال ہے۔‘

سول ملٹری تعلقات اور ان میں مشکلات

جنرل راحیل شریف

جنرل راحیل شریف نے جنرل اشفاق پرویز کیانی کی ریٹائرمنٹ کے بعد فوج کی کمان سنبھالی

کتاب کے ساتویں باب ’سول ملٹری تعلقات مس مینیجمینٹ‘ میں صفحہ 175 پر شجاع نواز لکھتے ہیں ماضی کی حکومتوں کی طرح سنہ 2008 میں منتخب ہونے والے پی پی پی کی حکومت نے بھی معمول کے کام عسکری حکام کے حوالے کیے اور غیر معمولی طور پر عسکری قیادت کو ایسی عزت و تکریم سے نوازا جس سے عوام میں یہ تاثر پیدا ہوا کہ ملک میں دو طرفہ حکومت ہے، حالانکہ پی پی پی کی حکومت جمہوریت کی بالادستی کا پرچار کرتی رہی۔

اس حوالے سے جب بی بی سی نے شجاع نواز سے سوال کیا تو انھوں نے کہا کہ جس طرح سفارتی میدان میں پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں ’بے جوڑ اتحاد‘ نظر آتا ہے وہی ہمیں پاکستان میں سویلین حکام اور عسکری قیادت کے مابین نظر آتا ہے۔

سویلین قیادت پر تنقید کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ سیاسی جماعتیں قلیل المعیاد فوائد پر توجہ دیتی ہیں اور اس میں اپنا نقصان کرا بیٹھتی ہیں۔

’پاکستان میں سویلین حکومت نے فوج کی حمایت حاصل کرنے کے لیے انھیں جگہ دی، وسائل دیے اور انھیں قانونی تحفظ فراہم دیا تاکہ وہ ایسی کارروائی کر سکیں جو قانون اور انصاف کے دائرے سے باہر ہوں۔‘

nawaz zardari

دوسری جانب عسکری حکمت عملی پر تبصرہ کرتے ہوئے شجاع نواز نے بی بی سی کو بتایا کہ ’پاکستانی فوج نے ابھی تک مل بیٹھ کر کام کرنے کا سبق نہیں سمجھا اور اپنے منصوبوں کو سویلین حکام کے ساتھ نہیں شیئر کیا۔ اس کا نتیجہ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ دہشت گردی اور شدت پسندی کے خلاف جنگ ابھی تک مکمل نہیں ہوئی ہے۔‘

شجاع نواز کہتے ہیں کہ ہم اب دیکھ رہے ہیں کہ سویلین حکومت کی کمزوریاں عیاں ہونے کا فائدہ عسکری قیادت کو ہوتا ہے جو سویلین حکام کو اپنے بیانیے اور سوچ پر منتقل کرنے میں کامیابی حاصل کر لیتے ہیں اور اس سے ایسا تاثر ملتا ہے کہ دونوں فوج اور حکومت ’ایک صفحے پر ہیں‘ اور ’کم از کم قریبی مستقبل میں یہ حالات تبدیل ہوتے ہوئے نظر نہیں آتے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32187 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp