سوئس عدالت میں شہید بینظیر کے خلاف ”مقدمے“ کی تفصیل


سوئس بینک میں ساٹھ ملین ڈالر کا آصف علی زرداری یا بے نظیر بھٹو کے خلاف مقدمہ کیا تھا؟

جیسا کہ ہم پہلے یہ بات کرچکے کہ یکم مئی 1998 سے 27 مئی 1998 کے دوران سوئیزرلینڈ کے بینک اے بی این ایمرو میں تین اکاؤنٹس کھولے گئے جن میں میں بیس بیس ملین ڈالر جمع کروائے گئے۔ آپ یہ بات ضرور یاد رکھئے گا کہ اس وقت آصف علی زرداری کو آخری بار جیل گئے ہوئے ڈیڑھ سال سے زیادہ عرصہ ہوچکا تھا۔

یہ ڈالر کہاں سے حاصل کیے گئے اور کس نے حاصل کیے اس بابت لکھ چکا ہوں کہ پاکستان کی ایجنسیوں کے پاس اور تفتیشی اداروں کے پاس یہ ویڈیوز موجود ہیں کہ یہ پیسہ سیف الرحمن جو اس وقت احتساب کمیشن پاکستان کا چیئرمین تھا اس کے بھائی مجیب الرحمن نے اسٹیٹ بینک اور دیگر بینک سے نکلوائے تھے اور اس کے بعد فنڈز کی کمی کا بہانہ بناکر فارن کرنسی اکاؤنٹس فریز کیے گئے تھے۔ مشرف کے دور میں یہ ویڈیوز پی ٹی وی پر نشر کی گئی تھیں۔

پہلا مقدمہ یہ بنایا گیا یا کہ یہ پیسہ یعنی ان میں سے ایک اکاؤنٹ 20 ملین ڈالر آصف علی زرداری کو اے آر وائے گولڈ دبئی نے رشوت دی ہے۔ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو سے قبل پاکستان میں گولڈ کی امپورٹ ایکسپورٹ کا کوئی قانون یا ریگولیٹری قانون موجود نہیں تھا۔ بے نظیر بھٹو نے پاکستان میں سونے کی برآمد و درآمد کو قانون اور ٹیکس کے دائرہ میں لانے کے لئے پہلی بار یہ قانون بنایا اور کھلی نیلامی پر اے آر وائے نے گولڈ امپورٹ کا لائسنس حاصل کیا۔ الزام یہ لگایا گیا کہ 20 ملین ڈالر گولڈ امپورٹ کا لائسنس لینے کے لیے اے آر وائے نے آصف علی زرداری کے اکاؤنٹ میں جمع کروایا ہے۔

اب یہ بات اس قدر مضحکہ خیز ہے کہ الزام لگانے والوں نے یہ جاننے کی کوشش ہی نہیں کی کہ پاکستان میں اے آر وائے نے اس دور میں کس قدر گولڈ امپورٹ کیا۔ گولڈ امپورٹ کا لائسنس جولائی 1996 میں جاری ہوا اور بے نظیر بھٹو کی حکومت ٹوٹنے تک کل 53 لاکھ پاکستانی روپے کا سونا اے آر وائے نے دبئی سے پاکستان بھجوایا۔

16 اکتوبر 1996 کو آصف علی زرداری کو حراست میں لے لیا گیا اور اے آروائے والے اس قدر دیانتدار اچھے اور شریف لوگ نکلے کہ آصف علی زرداری کی جیل جانے کے ڈیڑھ سال بعد انہیں یاد آیا کہ انہیں ابھی 20 ملین ڈالر کمیشن ادا کرنا ہے جو پاکستان میں ان کے کل بزنس سے سو گنا زیادہ رقم تھی۔ بہرحال دیانتدار لوگوں نے وہ پیسہ اس اکاؤنٹ میں منتقل کر دیا۔ یاد رہے کہ اے آر وائے گولڈ نے کل سونے کا بزنس بیس ملین ڈالر کا پاکستان کے ساتھ شاید دس سال میں بھی نہیں کیا۔

دوسرا الزام یہ لگایا گیا کہ ایس جی ایس اور کوٹیکنا دو کمپنیاں تھیں جنہیں کسٹم افسران کی کرپشن روکنے کے لئے رینڈم پری شپمنٹ انسپکشن کا اختیار دیا گیا تھا۔ جس سے پاکستان میں کسٹم کا محکمہ کرپشن میں نمبرون قرار پایا جانے والا دسویں نمبر سے بھی نیچے چلا گیا اور بندرگاہوں اور ایئرپورٹس پر کارگو کی کرپشن مکمل طور پر ختم ہوگئی۔

اس بابت ایک خط بھی بنایا گیا کہ کہ ان نیک کمپنیوں نے بھی ٹھیکہ حاصل کرنے کے دو سے اڑھائی سال کے بعد آصف علی زرداری کے اکاؤنٹ میں 20 ملین ڈالر جمع کروائے۔ یہ امر بھی اس قدر مضحکہ خیز ہے اور جاننے کی ضرورت ہے کہ ان دنوں کسٹم سے پاکستان کی کل آمدنی بیس ملین ڈالر نہ تھی۔ مستزاد اس پر یہ کہ ان کمپنیوں کو شاید کسٹم کی کل چوری جو وہ روکیں اس کا پانچ فیصد معاوضہ ملنا تھا۔

حیرت انگیز اور مضحکہ خیز امر یہ ہے کہ ان لوگوں سے بھی آصف علی زرداری نے کوئی ایڈوانس لیے بغیر ٹھیکہ دے دیا گیا۔ کام شروع ہوگیا تو ان دیانتدار لوگوں کو اس کے جیل میں جانے کے بعد یاد آیا کہ یہ ادائیگی کرنا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments