میٹھی جھیل کی ڈچ لڑکی: گینگ بینگ سے داعش جہاد تک


مشعال اک بہت پیاری ولندیزی بچی تھی۔ گلابی رنگت، نیلی آنکھوں اور سیاہ بالوں کے امتزاج سے وہ دوسری ولندیزی بچیوں سے منفرد نظر آتی تھی۔ سیاہ گھونگریالے بال اسے اپنے باپ کی طرف سے وراثت میں ملے تھے جن کا تعلق ہالینڈ کے کرابیین جزیرے سے تھا۔ مشعال جب ذرا بڑی ہوئی تو اپنی چھوٹی سی بائیسکل پر خود ہی اسکول جانے لگی۔ وہ اسکول سے واپسی پر کچھ دیر کے لئے اپنے قصبے کے وسط میں واقع تازہ پانی کی جھیل پر ضرور رکتی تھی۔ اسُے جھیل میں تیرتے اور غوطے لگاتے ہوئے پرندے بہت اچھے لگتے تھے۔ ننھی مشعال اپنے بیگ میں کچھ پاپ کورن ان پرندوں کے لئے ضرور بچا کر رکھتی تھی۔ بہت سے پرندے اس سے مانوس ہوگئے تھے وہ ہمیشہ اس کے آنے کے منتظر رہتے تھے۔ اس سحرانگیز جھیل کی نسبت سے یہ قصبہ ”میٹھی جھیل“ کہلاتا ہے۔

اس چھوٹی سے لڑکی کی پرُسکون زندگی میں اس وقت بھونچال آگیا جب اسے معلومُ ہوا کہ اسُ کا چھوٹا بھائی اک عجیب و غریب بیماری میں مبتلا ہے۔ اس کے بھائی کے گرُدوں نے بڑھنا چھوڑ دیا تھا۔ اسُ کے والد چھوٹے بھائی کے علاج میں مصروف ہوگئے تھے، انُ کی توجہ مشعال پر کم ہو گئی تھی۔ اسُ کے لئے والدین کے بیچ گھریلو جھگڑے گو کہ نئے تو نہ تھے لیکن اب ان میں شدت آتے جا رہی تھی۔ اس کی ماں کی شراب نوشی بڑھتے جارہی تھی، گھر میں شراب کی کھلی ہوئی بوتلوں کی وجہ سے ناگوار سی بوُ پھیلے رہتی تھی۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بھائی کی تیمارداری کا سارا بوجھ اس کے باپ پر آن پڑا تھا۔ سات برس کی مسلسل بیماری کے بعد زندگی اس کے بھائی کا ساتھ چھوڑ گئی تھی۔ بھائی کی موت کے بعد وہ بہت اداس رہنے لگی تھی۔ کام سے اکثر غیر حاضری کی وجہ سے اسُ کے باپ کا کام چھٹ گیا تھا۔ اب اس کے والدین کے درمیان جھگڑے انتہا کو پہنچ گئے تھے۔ آخرکار اس کے والدین نے علیحدہ ہونے کا فیصلہ کرلیا۔ علیحدگی کے معاہدے کے مطابق مشعال کو ماں کے ساتھ دا ہیگ شہر کے اس گھر میں منتقل ہونا پڑگیا جو اس کی ماں کو وراثت میں ملا تھا۔

مشعال کا نیا گھر شہر کے ایسے علاقے میں واقع تھا جہاں مراکش اور ترکی سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کی بڑی تعداد رہتی تھی۔ اسُ کے نئے اسکول میں بھی مراکشی اور ترک پس منظر رکھنے والے لڑکے اور لڑکیاں بڑی تعداد میں زیر تعلیم تھے۔ مشعال جیسے جیسے بلوغت کی طرف قدم بڑھا رہی تھی اسُ کا حسن اور تابناک ہوتے جارہا تھا۔ دراز قد، گلابی رنگت، نیلی آنکھیں، ستواں ناک، بوسے کی دعوت دیتے ہوئے ہونٹ، گھونگریالے سیاہ بال اور اوپر سے کھنکتی ہوئی آواز سب کو اپنی طرف متوجہ کرلیتی تھی۔ اسکول کے سب ہی لڑکے، خاص طور سے عرب نژاد اس کے گرد ایسے منڈلاتے تھے جیسے کسی رسیلے پھُول کے گرد بھنورے منڈلاتے ہیں۔ آخر کار ان منڈلاتے ہوئے بھنور وں میں ایک بھنورا ”احمد“ اس مہکتے ہوئے پھول کا قرب حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا۔

مشعال کی ماں اکثر نشے میں دھت بے سدھُ پڑے رہتی تھی، ماں کی مدہوشی مشعال کو گھر کے صحن میں بنے ہوئے اسٹور میں احمد کے ساتھ نوجوانی کی مدہوشیوں میں گمُ ہونے کے مواقعے فراہم کرتی تھی۔ احمد مشعال کے ساتھ بیتے نشاط انگیز لمحات کی داستانیں اپنے اسکول کے دوستوں کو سنا کر انہیں رشک و حسد میں مبتلا کرتے رہتا تھا۔ اک روز جب کہ احمد اپنے اک مراکشی ہم جماعت کو اپنی جنسی مہم جوئی کے بارے میں بتا رہا تھا تو اس کے ہم جماعت نے احمد سے پوچھا۔

۔ ۔ ”کیا تمُ نے کبھی گینگ بینگ کا لطف اٹھایا ہے“؟ احمد نے نفی میں جواب دیا تو ہم جماعت نے کہا: ”پھر تو تم اک بڑی سنسنی خیز جنسی مہم جوئی سے ابھی تک محروم ہو“! ۔ ہم جماعت نے احمد کو سوچ میں گمُ دیکھ کر کہا: ”اگر تمُ مشعال کو راضی کرلو تو میں گینگ بینگ گروپ تیار کرلوں گا“۔ احمد نے بے یقینی سے ہم جماعت کی طرف دیکھا تو اس نے کہا: ”شاید تمُ کو معلوم نہیں کہ گینگ بینگ ہر گوری لڑکی کی خواہش ہوتی ہے۔

ہر گوری لڑکی کم از کم زندگی میں اس تجربے سے ضرور گزرنا چاہتی ہے۔ اگر تمُ اسے یہ موقعہ فراہم نہیں کرو گے تو پھر وہ کسی اور کے ذریعہ اس تجربے کو کرے گی۔ تمُ تو گوری لڑکیوں کو جانتے ہو کہ ایک کو چھوڑا تو دوسرے کو پکڑا، دوسرے کو چھوڑا تو تیسرے پر ہاتھ صاف کیا۔ ہم جماعت کی گفتگو سے احمد نے متاثر ہوتے ہوئے کہا کہ اچھا میں مشعال سے بات کرکے دیکھتا ہوں۔

اسُی شام کو احمد کی مشعال کے گھر کے اسٹور میں اس سے ملاقات طے تھی۔ مشعال کے گھر کا عقبی دراوازہ اسُ کے استقبال کے لئے پہلے ہی سے کھلا ہوا تھا۔ مشعال کی طرف سے احمد کے لئے چرس کی بھری سگریٹ تیار تھی کیونکہ وہ شراب اور سور کو اپنے مذہبی عقائد کی وجہ سے ہاتھ نہیں لگاتا تھا، مشعال اپنے لئے ماں کے شراب کے ذخیرے میں سے رم کی بوتل اڑا لائی تھی۔ احمد نے اسٹور میں داخل ہوتے ہی مشعال سے بوس و کنار شروع کردیے۔

احمد چرس بھری سگریٹ کا گہرا کش لے کر مشعل کو فرنچ کس سے نوازتا تھا تو جواب میں مشعال رم کا پیگ چڑھا کر جوابی بوسہ دیتی تھی۔ آدھی سگریٹ پینے کے بعد احمد نے لارا سے پوُچھا کہ کیا اس نے کبھی گینگ بینگ کے بارے میں سوچا ہے۔ یہ سنتے ہی مشعال کی آنکھوں میں چمک آگئی۔ اس نے کہا: ”گینگ بینگ تو ہر سیکسی لڑکی کی فیٹیسی ہوتی ہے۔ احمد نے اک کش بھرتے ہوئے کہا کہ :“ بس سمجھ لو کہ تمہاری یہ فینٹسی پوری ہونے والی ہے۔ مشعال نے اس کی بانہوں میں جھُولتے ہوئے کہا: ”وہ کیسے“؟ احمد نے اسے اپنے ہم جماعت سے ہونے والی گفتگو سے آگاہ کیا تو مشعال نے خوشی کے مارے اس کی بیلٹ کا بکل کھولنا شروع کردیا۔

اب مشعال گینگ بینگ کے دن کی شدت سے منتظر تھی، اس کے ذہن میں اسُ بارے میں طرح طرح کی فلمیں چلتے رہتی تھیں۔ کچھ روز بعد احمد کے ہم جماعت کے چچا خاندان سمیت چھٹیاں گزارنے مراکش چلے گئے۔ وہ گھر کی چابی اپنے بھتیجے کو دے گئے تاکہ وہ انُ کی پالتو بلی کا خیال رکھ سکے اور پودوں کو پانی دے سکے۔ احمد نے گینگ بینگ کے دن کا تعین کرکے مشعال کو سرپرائز دیا تو وہ خوشی کے مارے چھلانگ مارکے احمد کے گلے میں جھوم گئی۔

آخر کار وہ دن آن پہنچا جس کا مشعال سمیت بہت سے نوجوانوں کو شدت سے انتظار تھا۔ جب مشعال اور احمد مقررہ وقت پر مقررہ جگہ پر پہنچے تو احمد کے ہم جماعت نے ان کا استقبال کیا۔ کچھ لڑکے وہاں پہلے ہی سے موجود تھے۔ ان سب لڑکوں کی شکلیں مشعال کے لئے شناسا تھیں یہ سب اس کے اسکول کے ہی طالب علم تھے۔ گھر کے مرکزی کمرے میں ایک ٹیبل پر طرح طرح کی شرابیں، ماریوانا سے بھرے سگریٹ اور ایکس ٹی سی کی گولیاں رکھی ہوئی تھیں۔

ہالینڈ میں گو کہ اٹھارہ سال سے کم عمر نوجوانوں کو الکحل فروخت کرنا ممنوع ہے لیکن انہوں نے کسی نہ کسی طرح کیف و مستی کی شام رنگین بنانے کے لئے شرابوں اور منشیات کا بندوبست کر ہی لیا تھا۔ مشعال سے کچھ لڑکوں نے باری باری ہاتھ ملایا اور جو اُس کے واقف تھے انہوں نے اسُ کے رخسار پر بوسے دیے۔ کچھ ہی دیر میں دو اور لڑکے آگئے جنہوں نے ساؤنڈ سسٹم اور برقی قمقمے اٹھائے ہوئے تھے۔ انہوں نے کچھ ہی دیر میں کمرے کے درمیانی حصے کو مہارت سے اک ڈسکو فلور میں بدل دیا۔

ایک لڑکے نے ڈی جے کے فرائض انجام دیتے ہوئے ہیجان انگیز موسیقی نشر کرنا شروع کردی۔ ایک اور لڑکے نے ساقی کا فریضہ انجام دیتے ہوئے شراب پسند کرنے والوں میں ان کی پسند کی شراب گلاسوں میں انڈیلنا شروع کردی۔ جو لڑکے شراب کو حرام سمجھتے تھے انہوں نے چرس اور گانجا بھرے سگریٹ سلگا لئے، کچھ لڑکوں نے پہلے ہی ایکس ٹی سی گولیاں نگل لیں تھیں اور ان کے زیر اثر انہوں نے ڈانس فلور پر تھرکنا شروع کردیا تھا۔ مشعال تھوڑے ہی وقفے میں رم کے تین جام چڑھا کر مخمور ہوچکی تھی۔

جب ایک لڑکے نے اس کا چوتھا جام بھرا تو اس کے رقص میں نشے کی لڑکھڑاہٹ بھی شامل ہوچکی تھی۔ بہت سے لڑکوں نے ایکس ٹی سی بھی لی ہوئی تھی، شرابیں بھی پی رہے تھے اور چرس کے دم بھی لگا رہے تھے۔ ہیجان انگیز موسیقی کے آہنگ پر رقص ہیجان انگیز تر ہوتے جارہا تھا، سب کے چہرے فروغ مے کشی اور دیگر منشیات کے اثر سے گلنار ہورہے تھے۔ مشعال نے رقص کرتے کرتے اچانک اپنی شرٹ اتار پھینکی۔ اس کی دیکھا دیکھی تمام لڑکوں نے اپنی شرٹس اتار کر پھینکنا شروع کردیں۔

موسیقی کی ایک تیز دھن پر تھر کتے تھر کتے مشعال نے اپنی برا اتار کر لہراتے ہوئے اچھال دی۔ اب ڈانس فلور پر سب لوگ ٹاپ لیس رقص کناں تھے۔ رقص کے دوران ناؤ نوش کا سلسلہ جاری تھا۔ شراب کے چند پیگ اور چڑھا کر مشعال اپنے زیر جامہ سے بھی آزاد ہوچکی تھی۔ اب سب مادر زاد برہنہ ناچ رہے تھے۔ ناچ کے دوران اک لحیم شحیم لڑکے نے مشعال کو گود میں اٹھا کر صوفے پر لٹادیا۔ ڈی جے نے اس لمحے موسیقی کو اور تیز کردیا۔ ہر طرف پسینے، شراب اور چرس کی بوُ پھیلی ہوئی تھی۔

چار لڑکوں کو بھگتانے کے بعد مشعال کو محسوس ہونے لگا تھا کہ وہ جو کچھ کر رہی ہے اس میں اس کا دل و دماغ اس کے جسم کا ساتھ نہیں دے رہا ہے۔ اسے لگنے لگا تھا کہ وہ اک بھیڑ ہے جسے بہت سے بھیڑیے مل کر بھنبھوڑ رہے ہیں۔ وہ اپنے آپ کو ان بھیڑیوں سے نہیں بچا پا رہی تھی۔ اس نے اپنی ہمت بحال کرتے ہوئے آنکھ کھولی تو محسوس کیا کہ ایک لڑکا اس کے منہ میں زبردستی شراب انڈیل رہا تھا اور جو لڑکا اس بار اس پر سوار ہونے کی کوشش کررہا تھا وہ اس کا بوائے فرینڈ تھا۔

مشعال نے اسے اپنی لات سے زور دار دھکا دیا تو وہ صوفے سے گر پڑا۔ اسُ میں نہ جانے کہاں سے اتنی ہمت آگئی کہ وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔ اسُ نے ڈی جے کو میوزک بند کرنے کا اشارہ کیا۔ میوزک بند کرتے ہی اس نے چیخ کر کہا کہ اب کسی نے بھی اگر اسے ہاتھ لگایا تو وہ پولیس کو فون کردے گی۔ میرے کپڑے ڈھونڈ کے دو سور کے جنوں۔ لڑکے پولیس کی دھمکی سے سہم گئے تھے۔ ایک سہمے ہوئے لڑکے نے مشعال کے کپڑے ڈھونڈ کر اس تھمائے۔ اسُ نے جلدی جلدی کپڑے پہنے اور ڈگمگاتے قدموں سے باہر نکل گئی۔

اس واقعہ کے بعد مشعال ایک ہفتے تک اسکول نہیں آئی اس نے اپنا فون بھی بند کردیا تھا۔ اس کی بغیر اطلاع کی غیر حاضری سے اسکول کو تشویش ہوئی تو ایک ٹیچر اس کے گھر پہنچ گئی۔ مشعال نے ٹیچر کو بے خوابی اور ڈیپریشن کا بہانہ کرکے ٹال دیا، وہ اپنے اصل کرب کو اس سے بیان نہیں کرسکی۔ اگلے ہی روز اسے اسکول سے ماہر نفسیات کا فون آگیا جس نے فوری طور پر ملاقات کرنے پر اصرار کیا۔ مشعال نے ماہر نفسیات سے کئی ملاقاتوں میں اپنے بچپن، بھائی کی بیماری، موت اور والدین کے جھگڑوں اور طلاق پر بات کی لیکن وہ گینگ بینگ کے تجربے کو چالاکی سے گول کرگئی جس کی وجہ سے اس کے شب و روز میں زہر گھلُ گیا تھا۔

ماہر نفسیات کے ساتھ کچھ نشستوں کے بعد اس میں دوبارہ اسکول جانے کی ہمت آگئی تھی۔ جب وہ ایک وقفے کے بعد دوبارہ اسکول آئی تو اس نے محسوس کیا کہ بہت سے لڑکوں خاص طور پر عرب و ترک نژاد لڑکوں کی نگاہیں اسے عجب طرح سے گھورتی ہیں۔ ان کی نگاہوں کی تپش سے اس کے وجود میں اک خوف کی لہر سی دوڑنے لگتی تھی۔ اس نے کئی بار سوچا کہ وہ کسی اور اسکول میں منتقل ہوجائے مگر اس کے پاس کوئی معقول جواز نہیں تھا۔ اک روز تو حد ہی ہوگئی جب اک عرب نژاد ہم جماعت لڑکے نے ٹوائلٹ میں گھس کر اس سے یہ کہہ کر دست درازی کرنے کی کوشش کی کہ وہ گینگ بینگ کی شام بیمار تھا اور وہ اپنا حصہ وصول کرنا چاہتا ہے۔ وہ اسُ لڑکے کو دھکا دے ٹوائلٹ سے تو نکل آئی لیکن اسے ایسے لگا کہ ٹوائلٹ کی غلاظت میں اس کا سارا وجود لتھڑ گیا ہے۔

اس کے اسکول کے کچھ مہذب عرب نژاد لڑکوں میں ایک لڑکا ایسا بھی تھا جس نے اس سے کبھی بات کرنے کی کوشش نہیں کی تھی وہ ہمیشہ پڑھائی میں مگن رہتا تھا۔ جب اس نے اک روز مشعال سے کہا کہ وہ اسُ سے کچھ بات کرنا چاہتا ہے تو وہ چونک گئی۔ کہ شاید وہ بھی اپنے حصے کا طلبگار ہو۔ مشعال نے اس لڑکے کو سرد لہجے میں کہا کہ کہو کیا کہنا چاہتے ہو؟ اس نے کہا کہ میں نے اسکول میں تمہارے گینگ بینگ کی کہانی سنی ہے، مجھے افسوس کہ تم بدمعاش لڑکوں کے ہاتھوں چڑھ گئیں مگر میں تمہیں اک مشورہ دینا چاہتا ہوں۔

مشعال نے اس سے کہا کہ شاید تم ہمدردی جتا کر میرے قریب آنا چاہتے ہو؟ لڑکے نے کہا کہ ایسی کوئی بات نہیں بس تمہاری بھلائی کی بات ہے، میری بات ماننے سے عرب لڑکے اور لڑکیاں تمہیں چبھتی ہوئی نظروں سے دیکھنا چھوڑ دیں گے، تم ہماری ثقافت سے واقف نہیں ہو۔ مشعال نے اس سے کہا اچھا کہو کیا کہنا چاہتے ہو، مجھے بھی تو معلوم ہو کہ تمہارے پاس ایسی کون سی جادو کی چھڑی ہے۔ اگر تم اسکارف اوڑھنا شروع کردو تو مجھے یقین ہے کہ ان سب کا رویہ تبدیل ہوجائے گا، تم ان سب کی نظر میں یکایک محترم ہوجاؤ گی۔

یہ سب تمہارا ماضی فراموش کردیں گے۔ مشعال نے اس لڑکے سے کہا کہ کیا تمُ مجھے مسلمان ہونے کا مشورہ دے رہے ہو؟ اس نے جواب میں کہا کہ اسکارف پہنے سے کوئی مسلمان نہیں ہوجاتا، مراکش میں عیسائی اور یہودی عورتیں بھی اسکارف پہنتی ہیں۔ مشعال نے اس کے جواب سے متاثر ہوتے ہوئے کہا کہ اچھا میں اس بارے میں سوچوں گی۔

وہ گھر کے قریب ایک عرب کی دکان سے خوبصورت اسکارف خرید لائی۔ جس روز وہ اسکارف پہن کر اسکول آئی تو اس بے دیکھا کہ اسُ لڑکے کا مشورہ درست نکلا، عرب لڑکوں اور لڑکیوں کا انداز واقعی بدل گیا تھا۔ جو لڑکیاں اس سے ہاتھ ملانا پسند نہیں کرتی تھیں وہ گلے لگ کر مل رہی تھیں، عرب لڑکوں کی آنکھوں سے جھلکتی جنسی درندگی تعظیم میں بدل گئی تھی۔ اس کے عرب نژاد سابق بوائے فرینڈ نے اسکول تبدیل کرلیا تھا، ویسے بھی وہ اس کا فون بلاک کر چکی تھی۔

اب اس کی دوستی عرب نژاد لڑکیوں سے ہوگئی تھی۔ وہ ان سے اپنے دل کا حال کہہ سکتی تھی۔ اب اس کے حلقہ احباب میں لڑکے نہیں تھے۔ اسے اپنی جنسی ناآسودگی اور جنسی زندگی سے محرومی کا احساس بڑھتے جارہا تھا۔ اس کی اکثر دوستوں کے بوائے فرینڈ تھے بس وہی ایک تھی کہ جس کا کوئی بوائے فرینڈ نہیں تھا۔ اب وہ اپنے اسکول کے کسی بھی لڑکے سے دوستی کرنے کو تیار نہیں تھی۔

مشعال کی تنہائی کا مداوا کرنے کے لئے اسُ کی عرب نژاد سہیلیوں نے اس کا تعارف اک ڈچ عرب ڈیٹنگ ویب سائیٹ سے کروایا۔ اسُ نے اس سائیٹ پر اپنا پروفائیل رجسٹر کروالیا۔ کچھ ہی دنوں میں اسُ کے ای میل بکس میں اس سے دوستی کرنے کے خواہش مند عرب نوجوانوں کی درخواستوں کا تانتا بندھ گیا۔ بہت سے نوجوانوں سے بات چیت کے بعد اس کو اک فلسطینی نژاد عرب لڑکا ”حمید“ پسند آگیا۔ اسے فلسطینی اور فلسطین میں اسرائیلی مظالم کے خلاف جدوجہد کرنے والے شروع سے ہی پسند تھے۔

چند بار ملاقات کے بعد حمید نے اسُے اچانک اک خوبصورت ہیرے کی انگوٹھی پیش کرکے اس کا ہاتھ ہمیشہ کے لئے مانگ لیا۔ مشعال کے پاس انکار کا کوئی جواز نہیں تھا۔ اسُ نے حمید کے بارے میں اپنی ماں کو بتایا تو اسُ نے حسب دستور نشے میں مغلظات بکنے کے سوا کچھ نہ کہا البتہ اسُ کے باپ نے یہ کہہ کر اس کا حوصلہ بڑھایا کی کہ ”بیٹی میں تمہاری خوشی میں خوش ہوں“۔

حمید نے جلد ہی اپنے گھر پر اک سادہ سی تقریب میں نکاح کا اہتمام کیا جس میں مقامی مسجد کے امام اور اس کے قریبی دوستوں نے شرکت کی۔ اس کی کچھ عرب نژاد سہیلیوں نے اس کے ہاتھوں پیروں پر مراکشی انداز سے حنا لگائی اور ان سب نے ملکر اس کے لئے سفید جوڑا تحفے میں دیا جو مشعال نے وقت نکاح دلہن کے طور پر زیب تن کیا۔ اسُ کے باپ نے نکاح میں شریک ہوکر ان کے رشتے کو تسلیم کیا۔ اب اسُ کی زندگی یکایک پرُسکون ہوگئی تھی۔

اسے روز نشے میں دھت اول فول بکتی ماں کا سامنا کرنے سے نجات مل گئی تھی۔ حمید کِک باکسنگ کا ماہر تھا، مقامی مارشل آرٹ کلب میں ٹرینر کے طور پر کام کرکے وہ گزارے کے لائق کمالیتا تھا۔ حمید کے شفیق برتاؤ اچھے کردار اور عرب سہیلیوں سے تعلقات کی وجہ سے مشعال نے اسلام کے بارے میں جاننا شروع کردیا تھا۔ حمید اسُ کی اسلامی تعلیمات سے متعلق سوالات کے جواب بہت تحمل سے دیتا تھا۔ وہ جب بھی کام سے جلد گھر آتا تو اکثر کھانا بھی تیار کرتا تھا، مشعال ٹیبل کو سجاتی تھی اور وہ ساتھ کھانا کھاتے تھے۔

ان دنوں حمید بہت پرُجوش تھا۔ وہ گھر آتے ہی مختلف عرب چینل دیکھنے بیٹھ جاتا تھا۔ اسلامی اسٹیٹ کے مجاہدین فتوحات پر فتوحات حاصل کرتے جارہے تھے۔ مشعال کو عربی خبروں میں لفظ ”لبیک“ کے سوا کچھ اور سمجھ نہیں آتا تھا۔ اسُ نے حمید سے دریافت کیا کہ یہ مجاہدین کالے جھنڈے تھامے ”لبیک لبیک“ کے نعرے لگاتے ہوئے کیوں بڑھتے ہیں؟ اسے لفظ ”لبیک“ میں اک ساحرانہ سی طاقت محسوس ہوتی تھی۔ حمید نے اسے بتایا کہ لبیک دراصل مظلوموں کی آواز پر ”یس“ کہنا ہے جیسے کہ بس اب وہ تنہا نہیں، ہم داد رسی اور مدد کے لئے آرہے ہیں۔

ہم تمہیں ظلم سے نجات دلائیں گے۔ مشعال کو اب مجاہدین کی مزید فتوحات کا انتظار رہتا تھا، ہر نئی فتح کے ساتھ حمید کا خوشی سے جگمگاتا چہرہ اسے بہت اچھا لگتا تھا۔ اک روز اس نے اچانک حمید سے کہا کہ میں مسلمان ہونا چاہتی ہوں! ۔ جو مذہب مظلوموں کی حمایت کرے اس سے اچھا مذہب اور کیا ہوسکتا ہے؟ یہ بات سنُ کر حمید کی خوشی کی انتہا نہیں رہی تھی، اس نے اگلے روز ہی نماز جمعہ کے بعد امام مسجد سے وقت لے لیا۔ بھری مسجد میں مشعال کے مشرف بہ اسلام ہونے کا اعلان کیا گیا۔

ساری مسجد نعرہ تکبیر سے گونج اٹھی۔ یہ دونوں پھولوں اور مٹھائیوں سے لدے گھر آئے۔ حسب معمول گھر آتے ہی حمید نے ٹی وی آن کیا تو خبر تھی کہ عراق و شام کے اک بڑے حصے پر خلافت قائم کردی گئی ہے اورمجاہدین کے رہنما بغدادی نے خلیفہ کے طور پر بیعت لینا شروع کردی ہے۔ حمید یہ خبر سنُ کر سارے فلیٹ میں ڈانس کرتا پھر رہا تھا اور خوشی کے مارے کمرے میں لٹکے ہوئے باکسنگ پیڈ پر مکے برساتا تھا۔ مشعال کو احساس بھی نہیں تھا کہ کب اس کے دل میں جہاد میں شامل ہونے کی چنگاری بھڑک اٹھی تھی نہ جانے کب اسُ کا دل اس ڈچ معاشرے اور یہاں کی سہل زندگی سے اُچاٹ ہوگیا تھا۔

مشعال نے حمید کو اس طرح بے خودی کے عالم میں کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اسُ نے حمید سے کہا ”تم اپنے مارشل آرٹ کے فن کو یہاں کیوں ضائع کر رہے ہو؟ مظلوموں کی صدا پر لبیک کیوں نہیں کہتے؟ ۔ چلو دونوں مل کر بلاد خلافت کو چلتے ہیں۔ تم مجاہدین کو تربیت دینا، میں نے فرسٹ ایڈ کا کورس کیا ہوا ہے میں مجاہدین کی مرہم پٹی کردیا کروں گی۔ یہ سنتے ہی حمید نے مشعال کو گود میں اٹھا کر چوُمنا شروع کردیا۔ مشعال کو معلوم نہیں تھا کہ حمید بہت پہلے ہی سے مجاہدین کے رابطے میں تھا اور وہ کئی نوجوانوں کو جہاد کے لئے شام روانہ کرنے میں مدد کرچکا تھا۔ چند ہی روز میں حمید اور مشعال خاموشی سے استنبول کی جانب پرواز کرچکے تھے۔ مشعال کا باپ بیٹی کو فون کرکے تھک چکا تھا، اس کا فون بند ہوچکا تھا، اس کے فلیٹ میں نئے لوگ آن بسے تھے۔ میٹھی جھیل کی شہزادی نے جہاد کی دہکتی ہوئی بھٹی میں چھلانگ لگادی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments