باوا جی کا لنگر اور نذیر نمبردار کی مرغی


میرے ابا جی ”صوفی صغیر حسین صاحب“ بتاتے ہیں کہ ”بیٹا جس دن ہمارے پیرومرشد ہمارے گھر پہلی بار تشریف لائے اس دن تیری عمر پانچ دن تھی۔ ہم بہت غریب لوگ تھے۔ ہماری کچی جھونپڑی ہوتی تھی ریت کے ایک سرکاری ٹیلے پر بنا چاردیواری کے ہمارا کچا گھر تھا۔ چاروں طرف ریگستان تھا۔ پانی بجلی نام کی کسی چیز سے ہم واقف بھی نہ تھے۔ مجھے باوا جی حضرت الحاج خواجہ صوفی پیر فقیر عبدالرحمان شاہ صاحب کا مرید ہوئے کچھ ہی مہینے ہوئے تھے کہ ایک دن اچانک گرمیوں کی سخت دوپہر پیدل سفر کرتے ہوئے باوا جی ہمارے گھر تشریف لے آئے، میرے پاس نہ ہی تو بٹھانے کو جگہ تھی نہ بچھانے کو ان کے شایان شان کوئی چادر تمھاری اماں نے جلدی جلدی چھونپڑی سے جو تھوڑا بہت سامان تھا باہر نکال کر کچی زمین پہ چکنی مٹی کا پوچا لگایا اگر بتیاں سلگائیں اور ایک چادر بچھا دی دو میلے کچیلے تکیے اوپر رکھ دیے۔

جتنی دیر تک تمھاری اماں جھونپڑی کی صفائی کرتی رہی باوا جی باہر چھپر کے نیچے الانی چارپائی پر بیٹھے رہے۔ فورٹ عباس ہارون آباد ڈاہرانوالہ چشتیاں بخشن خاں فقیر والی کھچی والا قریب قریب علاقوں سے باواجی کے مریدین آنا شروع ہوگئے دیکھتے ہی دیکھتے لگ بھگ پچاس کے قریب مردیدین اکٹھے ہوگئے۔ باوا جی اس علاقے میں راولپنڈی تحصیل گجرخان کرم آباد شریف مسہ کسوال سے سال چھ ماہ بعد ہی تشریف فرما ہوا کرتے تھے۔ اس لیے جہاں جہاں باوا جی کی آمد کی خبر پہنچی مریدین جلتی شمع پہ پروانوں کی طرح اکٹھا ہونا شروع ہوگئے۔

باوا جی نے مجھے فرمایا ”صغیر سب کے لیے لنگر کا انتظام کرو، اور فرمایا دال روٹی بناؤ“۔ تمھاری اماں نے چند محلے کی عورتوں کی مدد سے فوراً لنگر کا انتظام شروع کردیا میں نے پورے محلے سے برتن جگ گلاس پلاسٹک کی چھابیاں چنگیریں اور ہاتھ والی پنکھیاں اکٹھی کیں۔ تیری اماں نے ایک بڑے دیگچے میں میں مونگ کی دال پکنے کے لیے چولہے پر رکھ دی محلے کی جو بچیاں تیری اماں کے پاس قرآن کی تعلیم حاصل کرنے آتی تھیں انھوں نے بڑی بڑی پراتوں میں آٹا گوندھنا شروع کردیا۔

کچھ سروں پر مٹی کے گھڑے اٹھا کر لگ بھگ ایک کلومیٹر دور بستی کے اکلوتے کنویں سے پانی بھرنے چلی گئیں۔ باوا جی بڑے خوش تھے۔ ہم نے باوا جی کے کپڑوں سے چمٹے ہوئے لیہدے کے کانٹے اتارے پیدل چل چل کر باوا جی کے پیروں پہ سوجن تھی۔ ابھی لنگر تیار ہوہی رہا تھا کہ ساتھ والے گاؤں سے مرحوم نذیر نمبردار جو کہ باوا جی کا مرید تھا وہ بھی آگیا۔ باوا جی سے ملنے کے بعد مجھے جھونپڑی سے باہر بلا کر پوچھنے لگا ”صغیر کیا لنگر بنارہے ہو۔

”میں نے کہا باوا جی نے فرمایا ہے کہ دال بناؤ۔ تو وہ خفا ء ہو کر کہنے لگا“ واہ اب میرے پیر صاحب دال کھائیں گے، نہیں نہیں میں باوا جی کو اپنے گھر لے کر جاؤں گا تم دال مت پکاؤ، ”اور اندر جاکر باوا جی سے عرض کی“ باوا جی میرے گھر تشریف لے چلیں میری بہت خواہش ہے کہ آپ کا قدم مبارک میرے گھر میں بھی پڑے۔ باوا جی نے مجھے بلا کر فرمایا ”صغیر بیٹا یہ نذیر کیا کہتا ہے“۔ میں نے عرض کی حضور آپ کو اپنے گھر لے جانا چاہتا ہے۔

باوا جی نے پوچھا ”لنگر میں کتنی دیر ہے“۔ میں نے عرض کی حضور لنگر ابھی تیار ہورہا ہے۔ بس کچھ ہی دیر ہے۔ باوا جی نے فرمایا ”باقی لوگ ادھر ہی ٹھہریں اور مجھے اپنے ساتھ لیا اور فرمایا“ جب تک لنگر تیار ہوتا ہے چلو نذیر کے گھر بھی دعائے خیر کر آتے ہیں ”۔ باوا جی اپنی تھکان سفر کی تکالیف اور پیروں کی سوجن کی پرواہ کیے بغیر ہی نذیر نمبردار کے گھر جانے کو تیار ہوگئے۔ ہم پیدل غلیانوالہ ٹبہ سے“ چھپن فور آر ”چلے گئے۔

نذیر نمبردار نے جاتے ہی مرغی پکڑ کر ٹوکرے کے نیچے دے دی۔ اس وقت برائلر کا رواج نہ تھا لوگ مہمان کے لیے ککڑی (مرغی ) پکانا بڑا کارنامہ سمجھتے تھے۔ بابا جی نے نذیر نمبردار کے گھر کے صحن میں ہی کھڑے کھڑے دعا فرمائی اور واپسی کے لیے چلنے لگے تو نذیر نمبردار نے بڑی عاجزی سے عرض کی حضور کھانے کا وقت ہوگیا ہے میرا شوق ہے کہ آپ شام کا کھانا کھا کر جائیں۔ باوا جی نے مجھے فرمایا ”اوہ لالا یہ نمبردار کیا کہتا ہے“؟

میں نے ہنس کر عرض کی حضور آپ کو ککڑی کھلانا چاہتا ہے۔ بابا جی مسکرائے اور فرمایا ”نہیں بچو! ہم وہ دال ہی کھائیں گے“ چلنے لگے تو نذیر نمبردار باوا جی کے سامنے ہوگیا اور عرض کی حضور مجھ سے برداشت نہیں ہوگا کہ میرا پیر دال کھائے۔ باوا جی نے میری طرف دیکھا پھر نذیر نمبردار کی طرف دیکھا اللہ جانے کیا اندازہ لگایا اور اور فرمایا ”چلو جلدی کرو وہاں باقی لوگ انتظار کر رہے ہیں“۔ ”لیکن جلدی بناؤ جو بھی بنانا ہے“۔

نذیر نے بیٹھک میں باوا جی کے بیٹھے کے لیے بہترین قالین بچھائی اور گدے ڈال کر شنیل کی چادر اور ریشمی تکیے لگائے۔ جنھین دیکھ کر میرا دل بھی چاہا کہ واقعی باوا جی کے شایان شان یہی تکیے تھے۔ چند لمحے بعد نذیر نمبردار آیا اور مجھے علیحدہ کر کے کہنے لگا ”صغیر بھائی ککڑی ٹوکرے کے نیچے دی تھی اب دیکھا ہے تو ککڑی مرچکی ہے۔ اب کیا کریں“۔ میں نے کہا دیکھو نذیر بھائی آپ باوا جی کو عرض کرچکے ہو کہ میں ککڑی پکانا چاہتا ہوں اب ککڑی کا انتظام کرو۔

نذیر نے چوکیدار کو پیسے دے کر گاؤں میں بھیجا مگر دگنی قیمت کے عوض بھی گاؤں کا کوئی شخص مرغی دینے کو تیار نہ ہوا۔ ادھر باوا جی نے مجھے سختی سے فرمایا اس نمبردار سے کہو جلدی کرے، وہاں ہمارے بچے ہمارا انتظار کر رہے ہیں۔ جب دو تین بار باوا جی نے ناراضی کا اظہار کیا اور پوچھا کہ ”پتہ کرو یہ نمبردار کدھر گیا ہے“۔ میں اٹھ کر باہر آگیا میں نے نذیر سے پوچھا نذیر بھائی کتنی دیر ہے تو اس نے کہا ”بھائی ایک بندے کو پیسے دے کر سائیکل پہ ہارون آباد بھیجا ہے تاکہ مرغی کا انتظام ہوسکے برائے مہربانی باوا جی کو کچھ دیر مزید روک لو“۔

میں نے اندر جاکر دیکھا تو باوا جی جانے کے لیے تیار کھڑے تھے۔ میں نے عرض کی باوا جی مرغی مرگئی ہے اور بندہ ہارون آباد مرغی لینے گیا ہے۔ تو باوا جی مسکرانے لگے اور فرمایا ”نمبردار کو بلاؤ“۔ میں نے نذیر کو اندر بلایا وہ شرمندہ سا ہوکر کہنے لگا بس باوا جی تھوڑی دیر اور، تو باوا جی نے اس کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرا ا ور فرمایا ”بیٹا چلو صغیر کے گھر بہت سارے لوگ انتظار کررہے ہیں“۔ جب ہم واپس آئے تو تیری اماں لنگر پکا کر باہر گلی میں کھڑی ہمارا انتظار کرہی تھی۔

میلی کچیلی چادروں پہ پیر بھائی تشریف فرما تھے۔ مٹی کی پیالیوں میں دال اور پلاسٹک کی چنگیروں میں توی کی روٹیاں ہم نے پیش کیں۔ باوا جی نے دوپیالیاں دال کی کھائیں۔ فرمایا ”بیٹا کوئی بھائی امیر یا غریب نہیں ہوتا۔ جب کسی پیر پھائی کے گھر جاؤ تو یہ مت سوچو کہ بیٹھنے کی جگہ کیسی ہے کھانا کیسا ہے۔ بلکہ اگر ممکن ہو تو جو کمی محسوس کرو اپنی گرہ سے پوری کردو تاکہ تمھارے غریب پیر بھائی کی دل آزاری نہ ہو کسی بھی پیر بھائی کے گھر جاؤ تو لنگر میں حصہ لازمی ملاؤ۔ تم سب بھائی ہو تمھارا دین کا رشتہ ہے کوئی امیر یا غریب نہیں سب برابر ہیں بہترین وہ ہے جو زیادہ متقی اور پرہیز گار ہے“۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments