ادارہ سخن اور نسل ِ نو کاقافلہ


اس وقت پاکستان میں ادبی حوالے سے جو موضوع سب سے زیادہ زیرِبحث ہے وہ نئی نسل کے تخلیق کار اور ان کا ادبی سفر ہے۔ درجنوں تنظیمیں جو کسی نہ کسی سینئر آدمی کے قبضے میں ہیں اور افسوس کہ ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ان میں یا تو نوجوانوں کو موقع ہی نہیں دیا جاتا ہے اور اگر کوئی تنظیم یا سینئر ادبی رہنما کسی کو موقع دیتا بھی ہے تو انہیں نوجوانوں کو جو اس کی ذات کا راگ الاپتے ہیں یا اس کی واہ واہ بن کے رہتے ہیں۔ میں نے اپنی ادبی زندگی کے پہلے دس سال ایسے سینئرز اور تنظیموں کے مالکان کے نام دیے اور ان کے ساتھ پل پل زندگی گزاری، میرا بھی ان کے بارے میں یہی نقطہ نظر تھا جو ہر نوجوان کا ہوتا ہے یعنی یہ سینئرز مجھے آگے بڑھنے کا موقع دیں گے، یہ سینئرز میری رہنمائی کریں گے، یہ سینئرز مجھے سٹیج تک پہچانے میں اپنا مخلصانہ کردار ادا کریں گے، یہ سینئرز مجھے ہر ادبی محاذ پر ڈٹ کر مقابلہ کرنے کی ترغیب دیں گے اور میرا سہارا بنیں گے۔

مگر مجھے آج انتہائی افسوس ہوتا ہے جب میں اپنے پچھلے دس سال پہ نظر دوڑاتا ہوں کہ میں کن کن لوگوں کے شکنجے میں رہا، میں کن کن لوگوں کو اپنا ادبی معبود مانتا رہا اور وہ کیسے کیسے میرے پر کاٹنے کا کردار ادا کرتے رہے۔ آج میں جب کسی بھی ایسے نئے تخلیق کار سے ملتا ہوں تو مجھے اپنا ماضی یاد آ جاتا ہے۔ میں جب کسی سینئرز کو مشاعرے اور شعر کے جھانسے میں لا کر نئے تخلیق کار کو ٹریپ کرتے دیکھتا ہوں تو یقین جانیں سوائے کڑھنے کے اور کچھ نہیں کر سکتا۔

شہرِ لاہور میرا س لیے خواب تھا اور ہے کہ اس نے مجھے ادبی پہچان دی، اس نے مجھے نام اور شہرت دینے میں نمایاں کردار ادا کیا اور میرے جیسے کئی نئے لکھنے والوں کا بھی یہی خواب ہوتا ہے۔ آج ہمارے کچھ سینئرز سے حلقہ اربابِ ذوق اور ترقی پسند مصنفین سمیت کئی اہم تنظیموں کو اپنی باپ دادا کی جاگیر سمجھ لیا اور ایسے بڑے ادبی پلیٹ فارمز کو اپنے ذاتی مقصد اور ذاتی تشہیر کے لیے استعمال کیا۔ اس ادبی دہشت گردی کا جس جس نے بھی بائیکاٹ کیا اسے ذلیل و خوار بھی کیا گیا، اسے چور شاعر بھی کہا گیا اور اس کے خلاف تنقیدی اجلاسوں میں قراردادیں بھی پاس کروائیں گئیں بالکل ایسے جیسے منٹو کو حلقہ اربابِ ذوق میں بین کیا گیا۔ مجھے آج جب بھی کئی نوجوان اچھا شعر کہتا ہوا ملتا ہے میں یقین کریں سب سے پہلے اسے یہ دعا دیتا ہوں کہ ”خدا تمہیں کچھ سینئرز کے شر سے بچائے“۔ کیونکہ کچھ ایسے سانپ ہیں جن کا ڈسا اگر بچ بھی جائے تو اس کے زہر سے کوئی لوگ مارے جاتے ہیں۔

ایسا ہی ایک نوجوان وقاص عزیز کچھ عرصہ قبل لاہور آیا اور اس نے ایک ایسے پلیٹ فارم کا آغاز کیا جس کے ذریعے صرف نسلِ نو کو پروموٹ کیا جائے گا، اس ادارے کا مقصد ایسے نوجوانوں کو سامنے لانا تھا جو مختلف تنظیموں اور مختلف این جی اوز کے ڈسے ہوئے تھے۔ وہ نوجوان جنہیں کوئی سایہ اور سائباں میسر نہیں تھا، وقاص عزیز نے ادارہ ”سخن“ کے ذریعے انہیں ایک ایسی چھت میسر کی جس میں مجھ جیسے کوئی نئے لکھنے والوں نے پناہ لی اور اپنی جگہ بنائی۔

میں جب جب کسی نسلِ نو مشاعرے میں گیا میرے دل سے وقاص عزیز کے لیے بھی وہی دعا نکلی جو ہر نوجوان کے لیے نکلتی تھی کہ ”خدا سے کچھ سینئرز کے شر سے محفوظ رکھے“۔ مگر دوستو وقاص عزیز کا مسئلہ تھوڑا مختلف ہے، اس کے بارے میں ایک تقریب میں گفتگو کرتے ہوئے میں نے کہا تھا کہ ”وقاص عزیزاپنے دشمن خود محنت سے بناتا ہے“۔ اور اس نوجوان کے ساتھ وہی ہوا جو کئی نئے لکھنے والوں کے ساتھ ہوا جو شعر کے ساتھ کمٹڈ تھے۔ یہ بھی شعر سے کمٹڈ تھا اور اس کی یہ کمٹمٹ توڑنے میں کئی سینئرز میدان میں کود پڑے اور اسے تباہ و برباد کر دیا، اس سے اس کا گھر تک چھین لیا، نوکری چھین لی اور اسے ادبی دنیا میں بیگانہ کرنے میں اہم ترین کردار ادا کیا۔

مگر وقاص عزیز اتنا برا دھچکا سہہ گیا مگر خود کو اکیلا نہیں کیا، اس نے ہمت نہیں ہاری اور ہاری ہوئی بازی پلٹنے میں لگ گیا۔ آج ایک دفعہ پھر یہ لاہور میں نسلِ نو کے قافلے کی سرپرستی کر رہا ہے اور یقین جانیں اس قافلے میں خدا نے اسے بڑے باکمال دوست عطا کیے اور یہ میرا دوست دوبارہ زندگی کی طرف لوٹ آیا۔ میں احمد خیال اور وقاص عزیز کو سیلیوٹ پیش کرتا ہوں کہ انھوں نے اس ادارے کو بھی ٹریپ نہ ہونے دیا اور ”مقابلہ تو دلِ ناتواں نے خوب کیا“۔

مجھے خوشی ہے کہ اس ادارے نے اپنی ساکھ کو نہ تو کمزور ہونے دیا اور نہ ہی اسے بلیک میل کرنے والوں کے ہاتھوں میں دیا۔ ورنہ تو یہاں بھی کئی سینئرز نے کوشش کی کہ وہ نسلِ نو کا امام بن سکے مگر اب اس نسل کا امام وقاص عزیز ہے اور اس قافلے کا ہر فرد نسلِ نو کا امام ہے کیونکہ یہ قافلہ جو پانچ سال قبل لاہور سے چلا تھا، اس نے ”نیل کے ساحل سے لے کر تابخاکِ کاشغر“ تک کا سفر طے کیا اور آج پورے پاکستان میں اس باغی قلمار اور اس قافلے کی گونج ہے۔

گزشتہ روز جب الحمرا ہال میں کل پاکستان نسلِ نو مشاعرہ ہو رہا تھا تو کئی ”ریٹائرڈ ادبی بابے“ اس کوشش میں مبتلا تھے کہ انہیں صدارت مل جائے، کوئی مہمانِ خاص اور مہمانِ اعزاز کی نشست پر بیٹھنے کا خواہش مند تھا مگر آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ وقاص نے صدارت سے لے کر مہمان تک کی تمام نشستوں پہ نوجوانوں کو بٹھایا اور انہیں اعتماد دیا کہ ”نسلِ نو مستقبل آپ کا ہے“۔ میں اگرچہ اس کامیاب اور اہم ترین پروگرام کا حصہ نہیں بنا سکا مگر مجھے پورا یقین ہے کہ اس نسلِ نو کانفرنس کی گونج بھی سرحد پار سنائی دی ہوگی۔

میں پورے وثوق سے کہتا ہوں کہ اگر نسلِ نو کا یہ قافلہ اسی طرح محنت اور عزم و ہمت کے ساتھ رواں دواں رہا تو آنے والا وقت ہر اس نئے تخلیق کار ہے جس کے پاس شعر ہے، شعر سے بڑی کوئی طاقت نہیں۔ جس کے پاس شعر ہوگے اسے سوشل میڈیا نہ بھی میسر آئے، اسے بیوروکریٹ دوست نہ بھی میسر آئیں، اسے ادبی بابے نہ بھی میسر آئیں تو وہ زندہ رہتا ہے اور زندہ رہے گا۔ ادارہ ”سخن“ نے مجھ سمیت درجنوں نئے لکھنے والوں کو اعتماد دیا، انہیں اس بات کا احساس دلایا کہ آپ اکیلے نہیں بلکہ ایک جہان آپ کے ساتھ ہے، ادارہ سخن اور اس کی ٹیم آپ کے ساتھ ہے۔

میں ہمیشہ ان ریٹائرڈ ادبی بابوں سے کہا کرتا ہوں کہ خدارا اب آپ کو یہ تسلیم کر لینا چاہیے کہ ”جوانوں کو پیروں کا استاد کر“۔ جوانوں کو تسلیم کر لینے میں کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ آپ اپنی زندگی گزار چکے ہیں، جتنی عزت اور شہرت کے آپ حق دار تھے وہ آپ کو مل گئی سو آپ مسند خالی کر دیں اور اپنے بچوں کو بٹھائیں اور خود بطور سامع اپنا کردار ادا کریں تاکہ نسلِ نو آپ کے مرنے کے بعد بھی آپ کے گیت گائے ورنہ جیسے آپ اکیسویں صدی میں بھی سولہویں صدی کی حکومت چاہتے ہیں تو یہ ایک ناممکن کام ہے اور اس کام میں بہرحال خسارہ ہی آپ کا مقدر ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments