امریکہ کے شام، عراق میں ملیشیا گروہ کے اڈوں پر حملے


عراق

رواں ماہ ایک امریکی کانٹریکٹر کی ہلاکت کے جواب میں امریکہ نے عراق اور شام میں ملیشیا گروہ کتائب حزب اللہ کے اڈوں پر حملے کیے ہیں۔

امریکہ کی جانب سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ حملے كتائب حزب الله کی اسلحے کے ذخیروں اور دیگر اہم نظم و نسق کے مقامات کو نشانہ بنانے کے لیے کیے گئے۔

خیال رہے کہ امریکہ کتائب حزب اللہ کو ایک دہشتگرد تنظیم قرار دے چکا ہے۔

اتوار کے روز عراق میں ہونے والے فضائی حملے شام کی سرحد کے نزدیک واقع مشرقی ضلع القائم کے قریب ہوئے۔

مزید پڑھیے

امریکہ، ایران اور خلیج: آگے کیا ہو سکتا ہے؟

امریکہ، ایران تعلقات میں کشیدگی کا نیا دور؟

کیا ایران پڑوسی ملک عراق میں میزائل ذخیرہ کر رہا ہے؟

یاد رہے کہ 27 دسمبر کو کرکوک میں ایک فوجی اڈے پر راکٹ حملے کے نتیجے میں ایک امریکی کنٹریکٹر ہلاک اور متعدد امریکی فوجی اور عراقی حکام زخمی ہوئے تھے۔

عراقی سکیورٹی اور ملیشیا ذرائع نے خبر رساں ایجنسی رائٹرز کو بتایا کہ تین فضائی حملوں کے نتیجے میں کم از کم 18 ملیشیا جنگجو مارے گئے جبکہ 50 سے زائد زخمی ہوئے۔

پینٹاگان کے ترجمان جاناتھان ہافمین کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا کہ یہ ’دفاعی حملے‘ کتائب حزب اللہ کے اتحادی افواج پر حالیہ حملوں کے باعث کیے گئے ہیں۔

https://twitter.com/ChiefPentSpox/status/1211352212309495814

انھوں نے دعویٰ کیا کہ ان فضائی حملوں میں کتائب حزب اللہ کی پانچ تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا جن میں سے تین عراق جبکہ دو شام میں تھیں۔

ہافمین نے کہا کہ ’اگر ایران اور اس کے حمایت یافتہ گروہ کتائب حزب اللہ کو مزید امریکی دفاعی حملوں سے بچنا ہے تو اسے امریکی اور اتحادی افواج پر حملے روکنے ہوں گے۔‘

عراق

ٹرمپ انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ ایران کے لیے قدس فورس دراصل مشرقِ وسطی میں امریکہ کی جانب سے دہشتگرد قرار دی گئی تنظیموں کی ‘امداد اور افزائش’ کا کام کرتی ہے

کتائب حزب اللہ کیا ہے؟

کتائب حزب اللہ ایک شیعہ مسلمان میلیشیا گروہ ہے جس کی بنیاد سنہ 2007 میں ڈلی تھی۔ امریکہ کا دعویٰ ہے کہ اس گروہ کو ایران کی حمایت حاصل ہے۔

امریکہ کے مطابق کتائب حزب اللہ کا ایران کی قدس فورس کے ساتھ گہرے روابط ہیں اور اسے ایران سے مسلسل امداد ملتی رہی ہے جو اس نے امریکی اتحاد پر حملوں میں استعمال کی ہے۔

ٹرمپ انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ ایران کے لیے قدس فورس دراصل مشرقِ وسطی میں امریکہ کی جانب سے دہشتگرد قرار دی گئی تنظیموں کی ’امداد اور افزائش‘ کا کام کرتی ہے۔

ان کے مطابق ایران لبنان کی حزب اللہ اور فلسطینی اسلامی جہاد سمیت دیگر تنظیموں کو مالی امداد، تربیت، اسلحہ اور سازوسامان فراہم کرتا ہے۔

عراق

حالیہ مظاہروں کے دوران ان مظاہرین نے ایرانی قونسلیٹ کی متعدد عمارتوں کو نذر آتش بھی کیا ہے

ایران عراق میں ایسا کیا کر رہا ہے؟

سنہ 2003 میں امریکہ کی سربراہی میں عراقی صدر صدام حسین کا تختہ الٹا دیا گیا تھا۔ اس وقت سے ایران کا عراق کے داخلی امور میں اثرورسوخ بڑھ رہا ہے۔

خیال کیا جاتا ہے کہ ایران کے عراقی حکمران طبقے سے تعلق رکھنے والے شیعہ سیاست دانوں سے قریبی روابط ہیں۔ اس کے علاوہ ایران نے عراقی پوپولر موبیلائزیشن نامی نیم فوجی دستوں کی بھی حمایت کر رکھی جس میں اکثریت شیعہ ملیشیا کی ہے۔

عراق میں مظاہرین ایران پر الزام عائد کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ وہ عراق میں بحران اور بدعنوانی کا ذمہ دار ہے۔ حالیہ مظاہروں کے دوران ان مظاہرین نے ایرانی قونسلیٹ کی متعدد عمارتوں کو نذر آتش بھی کیا ہے۔

رواں ماہ کے آغاز میں امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے عراق میں ہونے والے متعدد حملوں کی ذمہ داری ایران کی حمایت آفتہ فورسز پر عائد کی۔

انھوں نے خبردار کیا تھا کہ امریکہ ایران یا اس کے حمایت یافتہ گروہوں کی جانب سے کسی بھی ایسے حملے کا ’فیصلہ کن جواب دے گا‘ جس میں امریکہ یا اس کے اتحادی متاثر ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32558 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp