معجزوں کی کشتی: شمالی کوریا کے 14 ہزار مہاجروں کی زندگیاں بچانے والے امریکی بحری جہاز کی کہانی


تقریباً 70 سال قبل امریکہ کا ایک کارگو بحری جہاز جب اپنے اکلوتے سفر پر شمالی کوریا کی بندرگاہ پر پہنچا تو اس نے 14 ہزار تارکینِ وطن کو سوار کر لیا۔ یہ اسی سفر کی کہانی ہے اور ان لوگوں کی جنھوں نے اس ’معجزوں کی کشتی‘ پر سفر کیا تھا۔

سنہ 1950 میں یہ کرسمس کا دن تھا اور یہ کوئی معمولی کرسمس نہیں تھی۔

14 ہزار کوریائی مہاجر اس بحری جہاز پر بمشکل سفر کر رہے تھے۔ یہ لوگ چینی افواج کی پیش قدمی سے بچ کر بھاگ رہے تھے۔

بحری جہاز پر کھڑے ہونے کی بھی جگہ نہیں تھی۔ اور نہ ہی سفر کرنے والوں کی طبی امداد کے لیے کوئی سامان موجود تھا۔

واقعے کے 69 برس بعد لی جوئنگ پل بتاتے ہیں کہ ’میری ایمبلیکل کارڈ (بچے کو ماں سے ملانے والی نس) کاٹنے کے لیے دائی کو اپنے دانت استعمال کرنا پڑے تھے۔

یہ بھی پڑھیے

کوریاؤں میں امن تو انڈیا پاکستان میں کیوں نہیں؟

شمالی کوریا کا منحرف فوجی جنوبی کوریا پہنچ گیا

شمالی کوریا سے خطرہ، جنوبی کوریا میں امریکی دفاعی نظام

جب فوجیوں کو ’بے حس‘ کر دیا گیا

’لوگ کہتے ہیں کہ میرا زندہ رہنا ایک کرسمس کے معجزے جیسا ہے۔‘

اس موسم سرما کے دوران لی ’ایس ایس میریڈتھ وکٹری‘ نامی اس بحری جہاز پر پیدا ہونے والے پانچویں بچے تھے۔ یہ کوریائی جنگ کے تاریک ترین دن تھے۔

بحری جہاز نے اپنے تین روزہ سفر کے دوران ہزاروں زندگیاں بچائیں۔ ان میں موجودہ جنوبی کوریا کے صدر مون جے اور ان کے والدین بھی شامل ہیں۔

اسی وجہ سے اس کارگو جہاز کا نام ’معجزوں کی کشتی‘ پڑ گیا تھا۔

مہاجروں کا انخلا

دسمبر 1950 کے دوران اقوام متحدہ کے دستوں کے ایک لاکھ فوجی جنوبی کوریا کی بندرگاہ ہنگنام پر پھنس گئے تھے۔ چینی افواج نے ان پر چوشن کی جنگ میں سبقت حاصل کر لی تھی اور وہ خوش قسمت تھے کہ پہاڑوں پر زندہ پہنچ پائے تھے۔

ان کا مقابلہ اپنے سے چار گنا بڑی فوج سے ہوا تھا لیکن اب بچنے کا صرف ایک طریقہ تھا یعنی سمندر کا راستہ۔ تاہم ان کے پاس اس کے لیے بہت کم وقت تھا کیونکہ چینی افواج آگے بڑھ رہی تھیں۔

لیکن یہ دستے اکیلے نہیں تھے۔ اس سرد ساحل پر جنوبی کوریا سے تعلق رکھنے والے ہزاروں تارکین وطن بھی پہنچ گئے تھے۔ ان میں سے کئی افراد برف میں اپنے بچوں سمیت میلوں چلنے کے بعد یہاں اس امید پر آئے تھے کہ ان کی زندگیاں بچ جائیں گی۔

یہ لوگ تھکاوٹ اور سرد موسم سے متاثر تھے لیکن اس کے باوجود بے تاب تھے۔

ایس ایس میریڈتھ وکٹری بھی ان 100 امریکی جہازوں میں شامل تھا جو ہنگنام آ رہے تھے تاکہ فوجی دستوں، ان کے سامان اور اسلحے کو جنوبی کوریا کی بوسن اور گائجے کے جزیروں پر واقع بندرگاہوں پر پہنچایا جا سکے۔

تارکین وطن کو بچانا ان کے منصوبے کا حصہ نہیں تھا۔

امریکی بحری فوج کے کرنل ایڈورڈ فورنی ان لوگوں میں شامل تھے جنھوں نے اس کام کو مشن کا حصہ بنانے کی کوشش کی۔ ان کا پوتا نیڈ سیول میں رہتا ہے۔

بحری فوج کے ریٹائرڈ افسر نیڈ کہتے ہیں ’اگر آپ جنگ جیتنا چاہتے ہیں تو آپ کا کام عام لوگوں کو بچانا نہیں ہوتا۔‘

’یہ اچھا کام ہے لیکن فوج کی اولین ترجیح ہوتی ہے۔‘ تاہم اس دن ’یہ کسی طرح ممکن ہو گیا۔‘

’ہنگنام میں ان لوگوں نے فرشتوں کی بات سنی اور میرے نزدیک انھوں نے مشکل حالات میں صحیح وجوہات کو مدنظر رکھتے ہوئے اچھا قدم لیا۔‘

تمام لوگوں کو جہاز میں بٹھانے میں کئی دن لگ گئے۔ مہاجر ساحل پر قطار لگائے کھڑے تھے اور امید کے ساتھ اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے۔

ان میں 17 سالہ ہان بوبائی بھی اپنی والدہ کے ساتھ کھڑی تھیں۔

وہ کہتی ہیں ’یہ زندگی اور موت کا سوال تھا۔ ہم نے بس یہی سوچا کہ ہمیں اس کشتی پر سوار ہونا ہے ورنہ ہم مر جائیں گے۔

’ہمیں یہ نہیں معلوم تھا کہ جہاز کہاں جا رہا ہے۔ اور اس سے کوئی فرق نہیں پڑنا تھا۔ ہمیں صرف یہ پتا تھا کہ اگر جہاز پر پہنچ گئے تو شاید زندہ بچ جائیں گے۔‘

تاہم ان کے لیے اپنا آبائی گاؤں چھوڑنا کافی مشکل تھا۔

’ساحل کو اپنے سے دور جاتا دیکھ کر میرا جوان دل غمگین ہو گیا تھا۔ میں نے سوچا کہ اب میں یہاں سے دور جا رہی ہوں۔‘

کم از کم اتنا کہا جا سکتا ہے کہ ان بحری جہازوں پر حالات کافی مشکل تھے۔ مہاجروں کو گاڑیوں، سامان اور اسلحے کے ڈبوں میں گھسایا گیا تھا۔

یہاں کوئی خوراک یا پانی نہیں تھا۔ سب سے بڑے بحری جہاز ایس ایس میریڈتھ وکٹری کو عملے کے زیادہ سے زیادہ 60 افراد لے جانے کے لیے بنایا گیا تھا۔ لیکن اب اس میں 14 ہزار افراد اور کارگو کا سامان تھا۔

ہان ایک چھوٹی سی کشتی پر سوار تھیں اور ان کے اوپر کوئی چھت نہیں تھی۔ ان کی والدہ کے پاس ایک کمبل تھا اور اس کے علاوہ اور کچھ نہیں۔

’میری والدہ، چھوٹی بہن اور میں ایک ساتھ چپک گئے تھے۔ جہاز پر بہت لوگ تھے۔ ہم سب پھنسے ہوئے تھے۔‘

’سمندر کی لہروں کا پانی میرے اوپر آ رہا تھا اور میری والدہ پریشان تھیں کہ ہم سب ڈوب کر سمندری بھوت پریت میں تبدیل ہو جائیں گے۔‘

جہاز پر سفر کرنے والوں میں کسی کی ہلاکت نہیں ہوئی۔ دو لاکھ افراد میں سے تمام لوگ جنوبی کوریا پہنچ گئے تھے۔ ان میں سے آدھے تارکین وطن اور آدھے فوجی تھے جو زندہ زمین پر پہنچے تھے۔

یہ امریکی تاریخ میں جنگ کے دوران اس نوعیت کا سب سے بڑا مشن تھا جس میں افواج کی مدد سے سمندر کے ذریعے عام لوگوں کا انخلا ممکن ہو سکا۔

ایس ایس میریڈتھ وکٹری اپنے سفر کے بعد گائجے کی بندرگاہ پہنچ گیا اور یہاں اس پر پانچ مزید لوگ سوار ہو گئے۔

امریکی عملے کو کسی کوریائی باشندے کا نام معلوم نہیں تھا۔ وہ بچوں کو کمچی کہتے تھے۔ لی کا نام ’پانچواں کمچی‘ تھا۔

لی کہتے ہیں کہ ’پہلے مجھے یہ بالکل پسند نہیں آیا۔ پانچواں کمچی کیوں؟ میرا اپنا نام ہے۔ لیکن جب میں نے باریکی سے سوچا تو مجھے یہ اتنا برا نہیں لگا۔ میں اس شخص کا شکریہ ادا کرتا ہوں جس نے مجھے یہ نام دیا۔‘

لی اب بھی گائجے پر رہتے ہیں جہاں میریڈتھ وکٹری 70 سال قبل آ کر کھڑا ہوا تھا۔ وہ جانوروں کے ڈاکٹر بن گئے تھے اور ان کے بزنس کارڈ پر اب بھی ان کا نام ’پانچواں کمچی‘ درج ہے۔

وہ ہنگنام کے انخلا کی کہانی کو اب بھی زندہ رکھتے ہیں اور ان کی ملاقات میریڈتھ وکٹری کے سابق عملے کے کچھ افراد سے بھی ہوئی ہے۔ ان میں وہ شخص شامل ہے جس نے پیدائش میں ان کی والدہ کی مدد کی تھی۔

وہ گائجے میں اس کے لیے ایک یادگار تعمیر کرنا چاہتے ہیں۔

بچنے والوں کی نئی زندگی

یہ کسی کو بھی نہیں معلوم کہ دوسرے، تیسرے اور چوتھے کمچی بچے کدھر ہیں اور ان کے ساتھ کیا ہوا۔

پہلے کمچی، جسے سون یانگ ینگ کے نام سے جانا جاتا ہے، کے والدین نے ہنگنام میں ایسا فیصلہ کیا جس کے بعد وہ اپنی باقی کی زندگی افسوس میں مبتلا رہے۔

اکثر تارکین وطن نے سوچا تھا کہ وہ محض چند دن کے لیے دور رہیں گے یا زیادہ سے زیادہ کچھ ہفتوں کے لیے۔ ان کا خیال تھا کہ وہ واپس جا سکیں گے لیکن ان میں سے کوئی بھی واپس نہ جا سکا۔

سون یانگ ینگ کے والدین کے اس وقت دو بچے تھے، نو سالہ تائے ینگ اور پانچ سالہ ینگوک۔ یہاں بہت سردی تھی اور بندرگاہ پر ہنگامہ برپا تھا۔

سون کے والد نے اپنی حاملہ اہلیہ کو دیکھا اور سوچا کہ انھیں جہاز پر سوار ہونا ہے۔ انھوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے دونوں بچوں کو ان کے ایک رشتے دار کے پاس رہنے کے لیے چھوڑ دیں گے اور یہ تسلی دی کہ وہ شمالی کوریا جلد واپس آ جائیں گے۔

انھوں نے اس کے بعد ایک دوسرے کو نہیں دیکھا۔ جب جنگ رکی اور جنگ بندی پر دستخط ہوئے تو کوریا کے دو ٹکڑے ہو چکے تھے۔ کوریا کے دونوں حصے آج بھی جنگ کے دھارے پر ہیں۔

سال ہا سال تک سون کی والدہ اپنے خاوند سے کہتی رہیں کہ انھیں ان کے بچوں کے پاس واپس لے جائیں لیکن انھیں معلوم تھا کہ وہ جو مانگ رہی ہیں یہ ناممکن ہے۔

ہر صبح وہ چاولوں اور مقدس پانی کا ایک پیالہ حاصل کرتی تھیں اور یہ دعا کرتی تھیں کہ ان کے بچے لوٹ آئیں۔

سون کہتے ہیں ’ایک تقسیم شدہ خاندان کو کتنا درد اور غم رہتا ہے، میں اس کی زندہ مثال ہوں۔‘

’میرے خاندان کو دو ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا گیا تھا۔ اب میرے اپنے بچے اور نواسے ہیں اور میں ہر دن کام سے گھر واپس آنے کے بعد اس بات کی تسلی کرتا ہوں کہ وہ ٹھیک ہیں۔‘

’میں اب بھی یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ایک بچہ کس طرح اتنا خوش قسمت تھا کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ رہ گیا جبکہ دوسرے بچے جو انھی والدین کی اولاد تھے وہ بچھڑ گئے اور انھیں اتنی مشکلات سے گزرنا پڑا۔‘

’وہ اسی امید میں رہے ہوں گے کہ ان کے ماں باپ واپس لوٹ آئیں گے۔‘

سون نے انٹرنیشنل ریڈ کراس میں بھی اپنی درخواست جمع کرائی ہے تاکہ وہ اپنے بہن بھائی سے ایک خاص ملاقات کر سکیں۔ شمالی کوریا نے تقسیم شدہ خاندانوں کی ان ملاقاتوں کی منظوری دی ہوئی ہے۔

وہ یہ بتاتے ہوئے اپنے آنسو نہیں روک پاتے کہ ان کی خواہش ہے کہ کوریا متحد ہو جائے گا تاکہ وہ اپنے بچھڑے بہن بھائی کو دوبارہ دیکھ سکیں۔

وہ کہتے ہیں ’جب تک وہ زندہ ہیں میں ان کی تلاش جاری رکھوں گا۔‘

وہ اپنی ایک تصویر دکھاتے ہیں جس میں بچپن میں انھوں نے ایک نوٹ پکڑا ہوا ہے جس پر ہاتھ کی لکھائی موجود ہے۔ ان کے والد کے دیے ہوئے اس نوٹ میں لکھا ہے کہ ’اس تصویر کی دیکھ بھال کرنا جب تک اپنے بڑے بھائی تائی ینگ سے نہیں ملتے۔‘

ہنگنام کے انخلا سے بچنے والے ایسے تقریباً 10 لاکھ افراد ہیں جو جنوبی کوریا اور دنیا بھر میں مقیم ہیں۔ یہ زندہ بچنے کی کہانی ہے لیکن اس میں ان لوگوں کے لیے غم موجود ہے جو پیچھے رہ گئے تھے۔

لی جوئنگ پل

لی جوئنگ پل یا ’پانچویں کمچی‘ آج کچھ ایسے دکھتے ہیں

کرسمس کی وہ شام جب امریکی جہاز ہنگنام سے آخری مرتبہ چلا تو ریئر ایڈمرل جیمز ڈوئل نے اپنی دوربین سے دیکھا کہ اتنے ہی تارکین وطن ساحل سمندر پر ہیں جتنوں کو امریکہ نے انخلا میں بچایا۔ یہ کہنا ہے نیڈ فورنی کا جو اس انخلا پر ایک کتاب لکھ رہے ہیں۔

لیکن امریکہ نے کہا ہے کہ ان کے پاس اور کوئی راستہ نہیں۔ انھیں بندرگاہ کو دھماکے سے اڑانا پڑا تاکہ چینی فوج کوئی باقی سامان یا اثاثے حاصل نہ کر سکے۔

ہان نے کشتی کے اوپر سے بندرگاہ کو دیکھا اور اسے ’آگ کا سمندر‘ قرار دیا۔ دھماکے کے کچھ دیر بعد چینی افواج گاؤں میں گھس آئی۔

وہ کہتی ہیں کہ ’بندرگاہ پر کئی لوگ انتظار کر رہے تھے۔ کئی لوگ تو کشتی پر سوار نہ ہو سکے۔‘

’کئی لوگ انتظار کرتے کرتے چلے گئے۔ میرے دل کو تکلیف پہنچتی ہے۔ وہ توپیں اور بمباری۔ جنگیں نہیں ہونی چاہیئیں۔ جنگیں نہیں ہونی چاہیئیں۔‘

سون کو اب بھی امید ہے ان کا خاندان زندہ ہے کیونکہ وہ خود بھی تو ’معجزوں کی کشتی‘ سے بچ کر یہاں پہنچے تھے۔ اب انھیں صرف ایک معجزے کی خواہش ہے اور وہ اپنے بھائی اور بہن کے لیے یہ پیغام رکھتے ہیں:

’ہمارے والدین جب تک زندہ رہے آپ کو یاد کرتے رہے۔ اب وہ جنت میں ہیں اور اس کے باوجود وہ آپ کی تلاش میں ہیں۔ مجھے امید ہے کہ مستقبل قریب میں ہمارا یہ خواب پورا ہو گا۔ میں پُرامید ہوں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp