انڈیا کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش میں مسلمان دہشت زدہ کیوں ہیں؟


کانپور میں پولیس سی اے اے کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں سے نمٹتے ہوئے دیکھی جا سکتی ہے

انڈیا میں شہریت کے متنازع قانون کے خلاف جاری احتجاجی مظاہروں میں ریاست اترپردیش سب سے زیادہ متاثرہ ہوئی ہے۔ ریاست میں 20 دسمبر سے شروع ہونے والے مظاہروں میں اب تک کم سے کم 19 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ بی بی سی کے وکاس پانڈے نے ریاست میں بہت سے علاقوں کا دورہ کیا اور یہ جاننے کی کوشش کی وہاں اس قدر وسیع پیمانے پر پرتشدد مظاہرے کیوں ہوئے۔

کانپور کے بابوپوروا کی انتہائی تنگ گلیوں سے گزرتا ہوا میں محمد شریف کے پاس پہنچا۔

وہ ٹِن کی چھت والے اپنے چھوٹے سے مکان کے باہر بیٹھے ہوئے تھے۔ مکان میں ایک ہی کمرہ تھا جو دن میں باورچی خانہ اور رات میں سونے کا کمرہ بن جاتا ہے۔ وہ اٹھتے ہیں، مجھ سے گلے ملتے ہیں اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگتے ہیں۔

اپنے آنسو روکتے ہوئے وہ کہتے ہیں: ‘میرا سب کچھ لٹ گیا۔ اب جینے کی کوئی چاہ نہیں ہے۔ میرے بچے کی کیا غلطی تھی؟ آخر پولیس نے اسے کیوں گولی مار دی؟’

ان کے 30 سالہ بیٹے محمد رئیس کی گولی لگنے کے تین دنوں بعد 23 دسمبر کو موت ہو گئی۔

انھوں نے کہا: ‘میرا بیٹا تو احتجاج بھی نہیں کر رہا تھا۔ وہ تو گلیوں میں پھیرے لگاتا تھا اور وہ بس اس وقت وہاں تھا۔ لیکن اگر وہ مظاہرہ بھی کر رہا تھا تو کیا اس کو مر جانا چاہیے تھا؟

‘کیا وہ اس لیے مارا گیا کہ ہم مسلمان ہیں؟ کیا ہم اس ملک کے شہری نہیں ہیں؟ میں یہ سوال مرتے دم تک پوچھتا رہوں گا۔’

جس مظاہرے میں رئیس کو گولی ماری گئی وہ ملک کی غریب ترین ریاستوں میں سے ایک اترپردیش میں شہریت کے ترمیمی قانون کے خلاف (سی اے اے) درجنوں مقامات پر ہونے والے مظاہروں میں سے ایک تھا۔ بعض مظاہرے پرتشدد ہو گئے جس میں مظاہرین نے پولیس پر پتھر پھینکے۔

صرف اترپردیش میں کم از کم 50 پولیس اہلکار زخمی ہوئے ہیں لیکن پولیس پر بھی سی اے اے کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں پر حد سے زیادہ قوت کے استعمال کے الزامات لگائے جا رہے ہیں۔

انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے آنے والی غیر مسلم اقلیتوں کو سہولت دینے والا یہ قانون مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک والا ہے۔ لیکن وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امت شاہ سمیت حکومت کی دلیل ہے کہ یہ مسلمانوں کے خلاف نہیں ہے۔

اترپردیش کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ

اترپردیش کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ نے تشدد کی مذمت کی ہے

لیکن اترپردیش میں جہاں چار کروڑ مسلمان آباد ہیں وہاں مظاہرے جاری ہیں۔

ریاست کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے کہا ہے کہ جن لوگوں نے سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا ہے ان سے ‘انتقام’ لیا جائے گا اور ‘سرکاری املاک کے ہرجانے کے طور پر ان کی جائیداد کی قرقی کی جائے گی۔’

پولیس نے ان کے حکم پر عمل کیا ہے اور ‘مطلوب’ افراد کی نشاندہی کے بعد، جن میں زیادہ تر مسلمان ہیں، ان کے پوسٹر پورے کانپور میں چسپاں کروا دیے ہیں۔

اس سے مسلم برادری میں خوف کا ماحول ہے۔ بابوپروا میں میری چند خواتین سے ملاقات ہوئی جنھوں نے کہا کہ ان کے دس سال کے بچے اور شوہر نے گرفتاری اور اذیت کے خوف سے دوسرے شہروں کو جانے کا فیصلہ کیا ہے۔

اس خوف میں مزید اضافہ نیشنل رجسٹر آف سٹیزن (این آر سی) کے وجود سے پیدا ہوا ہے۔

جلی بسیں

یوگی آدتیہ ناتھ نے کہا کہ سرکاری املاک کا ہرجانہ وصول کیا جائے گا

کانپور میں مسلمانوں کے ایک رہنما نصیرالدین نے وضاحت کی کہ ‘این آر سی میں لوگوں کو یہ ثابت کرنا ہوگا کہ وہ انڈیا کے شہری ہیں۔ خیال کریں کہ ایک ہندو خاندان اور ایک مسلم خاندان دونوں شہریت ثابت کرنے میں ناکام ہو جاتے ہیں تو اول الذکر سی اے اے کے تحت شہریت حاصل کر لے گا لیکن مسلم خاندان کو اس کی شہریت سے محروم کر دیا جائے گا۔’

حکومت کا کہنا ہے کہ اس کا این آر سی جلدی لانے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے تاہم مسلم برادری کو خوف ہے کہ جب ان سے شہریت ثابت کرنے کے لیے کہا جائے گا تو شاید وہ شہریت ثابت نہ کر سکیں۔

نصیرالدین مزید کہتے ہیں کہ ریاست کے مسلمان اس لیے مزید خوفزدہ ہیں کہ وہ حکمراں جماعت بی جے پی پر بھروسہ نہیں کرتے۔

ایک خاتون نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر کہا: ہمارا قصور کیا ہے؟ یہ ایک جمہوری ملک ہے اور ہم جس چیز سے اتفاق نہیں رکھتے اس کے خلاف ہمیں احتجاج کرنے کا حق حاصل ہے۔ لیکن ہمارے محافظ ہی ہمارے شکاری بن بیٹھے ہیں۔ اب ہم کہاں جائیں؟’

جب ہم دوسری گلی میں پہنچے تو وہاں بھی ویسا ہی منظر تھا۔ مرد اور بچے بہت کم تھے جبکہ خواتین گروہ میں نظر آئیں۔ ایسا لگتا تھا کہ وہ اس بات کی منتظر تھیں کہ ان سے کوئی سوال کرے۔

ایک خاتون نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر آگے آ کر کہا: ‘پولیس والے ہمارے علاقے میں رات کو آئے اور کہا کہ وہ سارے مردوں کو گرفتار کر لیں گے۔ انھوں نے ہم سے کہا کہ ان کی شناخت کریں جو مظاہرے کر رہے تھے۔’

مسلمانوں میں یوگی آدتیہ ناتھ کے مسلم مخالف سابقہ بیان کی وجہ سے بھی خوف ہے جس میں انھوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کی طرح مسلمانوں کے سفر پر پابندی کی بات کہی ہے اور مسلمانوں پر یہ الزام لگایا کہ وہ زبردستی ہندو خواتین کو مسلمان بناتے ہیں اور بالی وڈ سٹار شاہ رخ خان کا پاکستان کے جنگجو حافظ سعید سے موازنہ بھی کیا تھا۔

فساد کش فورس

Anshul Verma

بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ اترپردیش کے وزیر اعلیٰ مسٹر مودی کے ‘طاقتور ہندو قوم پرستی’ کے نظریے پر عمل پیرا ہیں۔

نصیر الدین کا کہنا ہے کہ ‘اترپردیش اس نظریے کی اہم تجربہ گاہ بن گئی ہے۔’

ریاست بھر میں ہزاروں لوگوں کو جن میں سے بیشتر مسلمان ہیں حراست میں لے لیا گيا ہے جبکہ بہت دنوں تک مختلف اضلاع میں انٹرنیٹ کی سہولیات معطل رہیں۔ بہت سے سرکردہ رضاکاروں کو، جن میں سابق پولیس سربراہ بھی شامل ہیں، حراست میں لے لیا گيا ہے۔

پولیس پر مسلمانوں کو دھمکیاں دینے کے بھی الزامات ہیں۔ کانپور کی ویڈیو فوٹیج میں پولیس کو مبینہ طور مسلمانوں کے علاقوں میں دیررات کاروں اور گھروں میں توڑ پھوڑ کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔ میرے ساتھیوں نے اسی طرح کے واقعات کی دوسرے علاقوں میں ہونے کی خبر دی ہے۔

بی بی سی کی نامہ نگار یوگیتا لیمائے کو بتایا گیا کہ پولیس نے کانپور سے تقریبا 580 کلو میٹر کے فاصلے پر مظفرنگر میں مختلف مقامات پر مسلمانوں کے گھروں میں توڑ پھوڑ کی ہے۔ ایک گھر میں انھوں نے مبینہ طور پر ٹی وی، فرج، اور کچن کے برتن سمیت سبھی کچھ توڑ پھوڑ ڈالا۔

انھوں نے خبر دی ہے کہ ‘میں نے ایسے مردوں اور بچوں سے بھی ملاقات کی جنھوں نے بتایا کہ انھیں حراست میں لیا گیا اور مارا پیٹا گیا۔’

بی بی سی ہندی کے زبیر احمد نے مغربی اترپردیش کے علاقوں میرٹھ اور بجنور سے بھی پولیس کی مبینہ زیادتیوں کی خبر دی ہے۔

ان علاقوں میں کم از کم آٹھ افراد گولی لگنے سے ہلاک ہو گئے۔ ان کے لواحقین کا کہنا ہے کہ وہ پولیس کی گولی سے ہلاک ہوئے ہیں جبکہ پولیس ان الزامات کی تردید کرتی ہے۔

جب آپ یہ کہانیاں سنتے ہیں تو اس میں ایک سلسلہ نظر آتا ہے کہ رات کے وقت مسلمانوں کے علاقے میں گھروں اور کاروں کی توڑ پھور اور پھر حراست۔

لیکن ریاست کے اعلیٰ پولیس اہلکار جن پر امن و امان قائم رکھنے کی ذمہ داری ہے وہ ان سے انکار کرتے ہیں۔

پی وی راماشاستری نے بی بی سی کو بتایا کہ جو سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے کے ذمہ دار ہیں ڈیجیٹل شواہد کی بنیاد پر ان کی شناخت کی جا رہی ہے اور انھیں گرفتار کیا جا رہا ہے۔

جب میں نے ان سے پوچھا کہ پولیس ویڈیوز کی بنیاد پر اس قدر تیزی سے کارروائی کیوں کر رہی ہے جبکہ اپنے افسران کے خلاف کچھ نہیں کر رہی ہے تو انھوں نے کہا کہ کوئی بھی ‘الزامات لگانے کے لیے آزاد ہے۔’

انھوں نے اس بات سے بھی انکار کیا کہ پولیس نے کسی پراپرٹی کو نقصان پہنچایا ہے۔ جب ہم نے انھیں مبینہ واقعے کی فوٹیج دکھائی تو مسٹر راماشاستری نے کہا کہ ‘کہیں سے صرف ایک ویڈیو پوسٹ کیے جانے سے بات پوری نہیں ہوتی۔’

انھوں نے اس بات سے بھی انکار کیا کہ ریاست میں مظاہرے کے دوران 19 میں سے کسی بھی ہلاکت کے لیے پولیس ذمہ دار نہیں ہے۔

لیکن سماجی کارکن سمیہ رعنا کا کہنا ہے کہ پولیس اس الزام پر غور کرنا پڑے گا۔

انھوں نے کہا: ‘تشدد حل نہیں ہے لیکن اس کا اطلاق دونوں جانب پر ہوتا ہے۔ پولیس کو ان کے خلاف کاروائی کرنا چاہیے جو تشدد میں شامل ہوتے ہیں لیکن کیا مظاہرین پر گولی چلانا ہی واحد راستہ ہے؟

‘اتنے سارے لوگ ہلاک ہو گئے۔ ایک منصفانہ جانچ کا ہمارا مطالبہ ہے۔’

ہم نے بعض پولیس والوں سے وہاں بات کی جنھوں نے کہا کہ وہ بہت زیادہ دباؤ میں کام کر رہے ہیں۔ ایک نے شناخت نہ ظاہر کیے جانے کی شرط پر کہا انھیں ‘مظاہروں کو کسی بھی صورت کنٹرول کرنے کا’ حکم دیا گیا تھا۔

انھوں نے کہا: ‘ہمیں لاٹھی چارج اور آنسو گیس چھوڑنے تھے۔ اپنے ہی شہری کے خلاف طاقت کا استعمال کرنا آسان نہیں ہوتا۔ لیکن آپ سمجھ سکتے ہیں پولیس والے بیچ میں پھنسے ہوئے ہیں۔’

دریں اثنا سیاسی جماعتوں نے ایک دوسرے پر مظاہرہ کرنے کے الزمات عائد کیے ہیں۔

ریاست میں برسراقتدار بی جے پی کا کہنا ہے کہ مظاہرے اس لیے پر تشدد ہوگئے کہ ‘نوجوان مسلمانوں کو حزب اختلاف نے گمراہ کیا۔’

بی جے پی کے ریاستی سربراہ سوتنتر دیو سنگھ

بی جے پی کے ریاستی سربراہ سوتنتر دیو سنگھ نے حزب اختلاف پر الزمات لگائے ہیں

بی جے پی کے ریاستی سطح کے صدر سوتنتر دیو سنگھ نے بی بی سی کو بتایا: ‘تین سال قبل جب سے ہم اقتدار میں آئے ہیں ہم نے امن و امان قائم رکھا ہے۔ پرتشدد واقعات سیاست کی وجہ سے ہوئے۔ سماجوادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی نے لوگوں کو سی اے اے پر گمراہ کیا ہے۔ انھوں نے ان مظاہروں کا منصوبہ بنایا اور اسے بھڑکایا ہے۔’

انھوں نے مزید کہا: ‘سی اے اے مسلمانوں کے خلاف نہیں ہے اور درحقیقت کسی بھی مذہب کے خلاف نہیں ہے۔ ہماری حکومت سب کے لیے بلا تفریق مذہب و ذات کام کرتی ہے۔ ہمیں تنقید کا استقبال کرتے ہیں لیکن کسی کو بھی سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے کا حق نہیں ہے۔’

لیکن جو لوگ مارے گئے تقریباً سب مسلمان تھے۔ اس بات پر مسٹر سنگھ نے کہا کہ کوئی بھی موت افسوسناک ہے لیکن ریاست میں جو کچھ بھی ہوا حزب اختلاف اس کے لیے ذمہ دار ہے۔

سماجوادی پارٹی کے رہنما اور ریاست کے سابق وزیر اعلی اکھلیش یادو نے ان تمام الزمات کو مسترد کرتے ہوئے کہا: ‘الزامات لگانا آسان ہے۔ مظاہرے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ بی جے پی ریاست میں امن قائم رکھنے میں ناکام رہی ہے۔ وہ بے روزگاری اور معیشت کی سست رفتاری سے توجہ ہٹانے کے لیے سی اے اے لے کر آئے ہیں۔ وہ ریاست کو مذہبی بنیادوں پر تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔

سابق وزیر اعلی اکھلیش یادو نے کہا ہے کہ حکومت امن و امان قائم رکھنے میں ناکام رہی ہے

سابق وزیر اعلی اکھلیش یادو نے کہا ہے کہ حکومت امن و امان قائم رکھنے میں ناکام رہی ہے

‘وزیر اعلی اور ان کا ہندوتوا ایجنڈا ان حالات کے لیے ذمہ دار ہے۔ جس طرح سے پولیس نے عمل کیا ہے وہ ہر کسی کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ یہ اب سیاست کی بات ہی نہیں۔ یہاں تو بنیادی انسانی حقوق کی پامالی ہو رہی ہے اور یہ ریاست اور ملک دونوں کے لیے خطرناک ہے۔’

سول سوسائٹی کے ارکان کا کہنا ہے کہ تمام سٹیک ہولڈر ایک دوسرے پر الزام لگانے پر لگے ہیں لیکن کوئی بھی جواب دینا نہیں چاہتا۔

سمیہ رعنا نے کہا: ‘سچ تو یہ ہے کہ انڈیا کی سب سے بڑی ریاست میں 19 افراد مارے گئے ہیں۔ کسی کو تو ان کے اہل خانہ کو جواب دینا ہوگا۔ ہم جمہوری ملک ہیں اور مظاہرے کی قیمت موت نہیں ہو سکتی۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32496 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp