عورتیں برابری چاہتی ہیں یا ترجیحی سلوک؟


مہک فاطمہ

\"mehek-fatima\"حال ہی میں ایک صحافی خاتون کو ایک سپاہی کی طرف سے تپھڑ رسید کیے جانے والے واقع پر بہت سے لوگوں کی رائے پڑھنے اور سننے کو ملی۔ دو قسم کی رائے پائی جا رہی ہے جس میں کچھ کا تو خیال ہے کہ سپاہی کی طرف سے کیے جانے والا عمل انتہائی غیر اخلاقی ہے۔ جب کہ دوسری طرف لوگ خاتون صحافی کے اشتعال انگیز رویے پر بھی تنقید کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

مجھے سمجھ یہ نہیں آ رہی کے اس معاملے کو حقوقِ نسواں سے کیونکر جوڑا جا رہا ہے؟
دراصل عورت کو معاشرے میں کیا مقام دینا ہے یہ فلسفہ ہمیشہ تضاد کا شکار رہا ہے۔ یعنی ہم اب تک یہ طے نہیں کر پائے کے عورت کو برابری چاہیے یا ترجیحی سلوک۔

عورتوں میں تو اس کا رجحان ہمیشہ سے رہا ہے کے وہ لبرل ہوتے ہوئے بھی بہت سے معاملات میں اپنے عورت ہونے سے فیض یاب ہونے کی خواہشمند نظر آتی ہیں۔ برابری کے نعرے بلند کر کے \’لیڈیز فرسٹ\’ جیسے جملے پوری زندگی دہراتی ہیں! یہ واقع اور اس کے متعلق اب تک پڑھے جانے والی تمام تحریروں کو بھی میں نے اسی کنفیوزن میں مبتلا دیکھا ہے۔۔

اگر عورت کو کم تر سمجھنا معاشرے کے لیے لعنت ہے تو عورت کو برتر سمجھ کو مرد کو نیچا دکھانا کیسے اخلاقیات کا حصہ ہو سکتا ہے۔۔

ویڈیو کے مطابق گارڈ نے خاتون صحافی کی ٹیم کو نادرا آفس پر لگی قطار کی شوٹنگ سے روکا اور ان سے برے طریقے سے پیش آیا جس پر صحافی خاتون کا سارا فوکس اس پر منتقل ہو گیا اور اس نے اس کے برے رویے کے جواب میں برے رویے کو ہی اپنایا!

اس کو زبردستی کیمرے کی طرف لانا، اس کی وردی کھینچنا، پیچھا کرنا، ڈٹ کے آگے کھڑے ہونا ذاتی حملے کرنا اور زبردستی اس کا موقف لینے کی کوشش کرنا کسی بھی طرح صحافت کے ایتھکس یا اخلاقیات میں نہیں آتا۔

رپورٹنگ ہمارے ہاں یوں بھی دن بدن بدمعاشی کا شعبہ بنتا جا رہا ہے۔ صحافت آپ کو کسی بھی طرح یہ حق نہیں دیتی کے آپ کسی کے بھی گریبان میں ہاتھ ڈالیں اور پھر کیا صحافت کا سارا زور ایک گارڈ پر ہی نکلنا تھا؟

اب سوال یہ ہے کہ اگر اس سپاہی کا عمل قابلِ مذمت ہے تو پھر آپ صرف ریٹنگ کی لالچ میں کیے جانے والے اِس رپورٹر کے عمل کو کس طرح درست قرار دے سکتے ہیں؟

ایک بمشکل میٹرک پاس سپاہی جو کہ سارا دن خوار ہونے کے بعد اپنی ڈیوٹی سر انجام دے رہا ہے اور ایک پڑھی لکھی اور صحافت جیسے شعبے سے تعلق رکھنے والی خاتون سے آپ کس طرح ایک جیسے اخلاقی رویے کی توقع کر سکتے ہیں؟

میں اس سپاہی کے عمل کو کسی بھی طرح صحیح نہیں کہہ رہی مگر نیوٹن کا تیسرا قانون کہتا ہے کہ ہر عمل کا ایک ردعمل ہوتا ہے۔

کیا تذلیل صرف عورت کی ہوتی، مرد کی نہیں؟ کیا عورت کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ عورت ہونے کے ناتے کسی کی بھی تذلیل کر دے اور اس کے جواب میں کسی قسم کا ردِ عمل نہ دیا جائے کیونکہ وہ ایک عورت ہے۔ کیا اسے کسی بھی طرح درست قرار دیا جا سکتا ہے کہ عورت صرف اس لیے ایک مرد کو زلیل کر سکتی ہے کیونکہ وہ عورت ہے؟ اور مرد صرف اس لیے چُپ رہے کیونکہ وہ مرد ہے؟

دراصل ہماری ذہنیت اس طرح کی ہو چکی ہے کہ عورت ہمارے لیے ہمیشہ مظلوم کا روپ دھار لیتی ہے۔ ہمارے ذہن اس قدر یک رنگ ہو گئے ہیں کے ہم مرد عورت کے ہر قسم کے تنازع پر عورت کو مظلوم اور مرد کو جابر ہی جاننے کے عادی ہوگئے ہیں! جب کہ فیصلہ چاہے سپاہی کو مظلوم کہے یا صحافی خاتون کو مگر اس کو مکلمل طور پہ غیر جانبدار ہونا چاہیے!  اگر ایک معاشرہ مرد کے لیے کچھ حدود قائم کر کے عورت کو اس کے حقوق دلانے میں پیش پیش ہے تو ایک عورت کی حدود طے کرنے میں کیا برائی ہے؟ اگر معاشرے سے مردانہ حاکمیت کو ختم کرنا ضروری ہے تو عورت کی حاکمیت کی بھی کوئی جگہ نہیں ہونا چاہیے۔ بےشک ایک غیر جانبدار معاشرہ ہی ترقی پسند معاشرہ ہوتا ہے!

آخر میں ایک اور سوال۔ یہی تھپڑ اگر ایک مرد کو پڑا ہوتا تو کیا تب بھی اتنا ہی واویلا مچایا جاتا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments