بٹگرام میں زیادتی کے بعد طالب علم کی خود کشی: دو ملزمان کو عدالت نے جرمانے اور قید کی سزا سنا دی


صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع بٹگرام میں نوعمر لڑکے سے مبینہ جنسی زیادتی اور اس کے بعد متاثرہ لڑکے کی خود کشی کے واقعے میں ملوث دو مرکزی ملزمان کو مقامی عدالت نے سات، سات سال قید، دیت اور جرمانے کی سزائیں سنائی ہیں۔

فیصلہ بٹگرام میں واقع ماڈل کورٹ کی ایڈیشنل سیشن جج کرن ناز نے سنایا۔ تاہم محمد عدنان کے اہل خانہ کے وکیل کے مطابق ملزمان پر جنسی زیادتی کا مقدمہ ثابت نہیں ہو سکا ہے۔

یاد رہے کہ صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع بٹگرام کے علاقے شانگلی بالا سے تعلق رکھنے والے نویں جماعت کے طالب علم محمد عدنان نے گذشتہ سال مارچ میں مبینہ طور پر جنسی زیادتی کا نشانہ بننے کے بعد تصاویر اور ویڈیو کی صورت میں ہونے والی بلیک میلنگ کے ڈر سے خودکشی کر لی تھی۔

محمد عدنان کی پھندے سے لٹکی لاش 14 مارچ کو ملی تھی جس کے بعد پولیس اور اہلیان علاقہ نے ملزمان کو 25 مارچ کو شناخت کر کے قانون کے حوالے کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

’کاش عدنان مجھے یا خاندان کے کسی بڑے کو بتا دیتا‘

جنسی زیادتی: پشاور کے سکول پرنسپل کو 105 سال قید

چھ ماہ میں ملک میں’بچوں کے ریپ اور قتل کے 768 واقعات‘

عدالتی فیصلے کے ایک دن بعد محمد عدنان کے خاندان کے وکیل فقیر محمد نے بی بی سی کو بتایا کہ قانون کے تحت قتل بالسبب ثابت ہوا ہے جس پر عدالت نے ملزمان کو سات، سات سال قید، 23، 23 لاکھ روپے دیت اور دو، دو لاکھ روپے جرمانے کی سزائیں سنائی ہیں۔

انھوں نے کہا کہ پاکستان پینل کوڈ کے سیکشن 322 کے تحت دیت کی سزا سنائی گئی ہے۔

انھوں نے کہا کہ اس واقعے میں جنسی زیادتی سے متعلق سیکشن 377 بھی شامل تھی لیکن زیادہ وقت گزر جانے کی وجہ سے میڈیکل رپورٹ میں یہ ثابت نہیں ہو سکا تھا۔ جنسی زیادتی کا مقدمہ ثابت ہونے کی صورت میں زیادہ سے زیادہ سزا عمر قید تک کی ہے۔

انھوں نے بتایا کہ دیت اور جرمانے کی سزا ملزمان یا اگر والدین پر ان کا انحصار ہے تو والدین کی مالی حیثیت کو دیکھتے ہوئے سنائی جاتی ہے۔

وکیل فقیر محمد نے بتایا کہ مجرمان محمد عامر اور محمد انس نے ایسے محرکات اختیار کیے تھے اور ایسے اسباب پیدا کیے تھے جس سے محمد عدنان خود کشی کرنے پر مجبور ہوا تھا۔

محمد عدنان کے ایک قریبی رشتہ دار نے بتایا کہ محمد عدان کی والدہ اور دیگر رشتہ دار عدالت کے فیصلے سے مطمئن ہیں۔محمد عدنان کے دو بھائی اور تین بہنیں ہیں۔ عدنان کے والد کینسر کی وجہ سے پہلے ہی انتقال کر چکے تھے۔

اس مقدمے میں ملزمان کے وکیل سردار شاہ ایڈووکیٹ نے بی بی سی کو بتایا کہ ملزمان اس سزا کے خلاف اپیل ضرور کریں گے۔

مقدمے کا پس منظر

محمد عدنان کے چچا محمد اسحاق نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ 14 مارچ کی شام کو جب عدنان کا پتا نہیں چل رہا تھا تو ہم سب لوگ پریشان ہوئے اور پورے علاقے میں تلاش شروع کر دی، کئی گھنٹے تک عدنان کو تلاش کرتے رہے مگر رات گئے جب اس کے گھر کے اوپر والے حصے میں گئے تو اس کی لاش پنکھے سے لٹکی ہوئی تھی۔ اس موقع پر گھر میں کہرام مچ گیا تھا۔ اس کی لاش کو فوراً بٹگرام ہسپتال پہنچایا گیا۔

’اس موقعے پر مجھے تو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ عدنان کی خود کشی کی کیا وجہ ہو سکتی ہے۔ مگر اس کے ہم عمر کزن، دوست اور رشتہ داروں نے بتانا شروع کیا کہ کچھ عرصہ سے عدنان بہت پریشان رہتا تھا۔ جس پر مجھے شک ہوا اور میں نے ان سے تفصیلی بات کی تو پتا چلا کہ علاقے کے کچھ لوگوں کے پاس عدنان کی برہنہ تصاویر وغیرہ موجود ہیں۔ یہ صورتحال میرے لیے کسی طرح بھی قابل قبول نہیں تھی۔‘

محمد اسحاق کا کہنا تھا کہ انھوں نے عدنان کی موت کا باقاعدہ مقدمہ درج کروایا اور تدفین کے بعد عدنان کو پیش آنے واقعات کی تفتیش شروع کی تو ایک ایک کر کے کڑیاں ملنا شروع ہو گئیں۔ ’پتا چلا کہ گرفتار ملزمان نے عدنان کی تصاویر لینے کے بعد کچھ اور لوگوں کو بھی بھیجی تھیں۔‘

’جن لوگوں کو وہ تصاویر بھیجی گئی تھیں انھوں نے بھی عدنان کو بلیک میل کرنا شروع کردیا تھا۔ بے عزتی، خوف، ڈر، شرم کی بنا پر شاید عدنان کے پاس خودکشی کے علاوہ کوئی اور راستہ باقی نہیں بچا تھا۔‘

محمد اسحاق کہتے ہیں کہ کاش عدنان مجھے یا خاندان کے کسی اور بزرگ کو اس سے متعلق کچھ بھی بتا دیتا تو ہم اس معاملے کو فی الفور حل کر دیتے تو شاید یہ نوبت نہ آتی۔

محمد اسحاق کا کہنا تھا کہ پولیس نے ہم سے اس سارے واقعے میں بہت تعاون کیا۔ عدنان کی خودکشی اور پوسٹ مارٹم رپورٹ پر پولیس کو بھی شک ہو گیا تھا کہ معاملہ کچھ اور ہے۔ ’ہمیں جو بھی کڑی ملتی تھی وہ پولیس کو فراہم کرتے تھے اور پولیس اس پر مزید تفتیش کرتی تھی۔‘

محمد عدنان کے ایک کزن نے بی بی سی کو بتایا کہ جس روز محمد عدنان نے خود کشی کی تھی اس روز اس نے غیر معمولی طور پر اپنے والد کی قبر پر کئی گھنٹے گزارے تھے۔ ‘میرا اس دوران دو مرتبہ قبرستان کے علاقے سے گزر ہوا تو میں نے دیکھا کہ وہ اپنے والد کی قبر کے سرہانے پر بیٹھا تھا اور کچھ پڑھ رہا تھا۔ میں سمجھا کہ وہ تلاوت کررہا ہوگا۔’

’دوسری مرتبہ بھی جب اسی طرح دیکھا تو اس سے پوچھا کہ کیا بات ہے تو عدنان کا کہنا تھا کچھ نہیں بس ویسے ہی بیٹھا ہوں، گھر جاتا ہوں۔ رات کو پتا چلا کہ خودکشی کر لی ہے۔ شاید والد کی قبر پر بیٹھ کر اس نے خود پر گزرنے والے حالات بیان کیے ہوں۔ پتا نہیں وہ وہاں پر کیا کیا کرتا رہا اور اس پر کیا گزرتی رہی تھی۔‘

پاکستان میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی

بچوں کے خلاف جنسی زیادتی پر کام کرنے والے ادارے ساحل کے مطابق پاکستان میں ہر سال بچوں سے زیاتی کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔

سال 2017 کی رپورٹ کے مطابق ہر سال نو واقعات کسی نہ کسی طرح رپورٹ ہوئے ہیں جبکہ سال 2018 کے پہلے چھ ماہ میں یہ تعداد بڑھ کر 12 ہو چکی تھی۔ واضح رہے کہ یہ وہ واقعات ہیںجو کہ رپورٹ ہوئے ہیں۔

ساحل کے قانونی مشیر امیتاز سومرو ایڈووکیٹ نے بی بی سی کو بتایا کہ سنہ 2009 سے لے کر اب تک ساحل کے پاس تقریباً 240 ایسے مقدمات موجود ہیں جن پر وہ متاثرین کو قانونی مدد فراہم کر رہے ہیں مگرابھی تک صرف 65 مقدمات کے فیصلے ہو چکے ہیں۔

ان کے مطابق ایسے واقعات بڑھنے کی ذمہ داری کسی ایک نہیں بلکہ مختلف عوامل پر عائد ہوتی ہے۔ جس میں سب سے پہلے تو متاثرہ بچے کا خاندان طویل عدالتی سسٹم سے اکتا کر راہ فرار اختیار کرتا ہے۔

’میرے مشاہدے میں پانچ سو مقدمات ایسے ہوں گے جن میں متاثرہ خاندان کے لواحقین نے راضی نامے کیے۔ اور اگر عدالتوں نے راضی نامے تسلیم نہیں کیے تو ثبوتوں کو عدالتوں میں چھپایا گیا جس بنا پر ملزمان بری اور رہا ہوتے ہیں۔‘

پشاور میں انسانی حقوق کے ممتاز کارکن قمر نسیم نے بی بی سی کو بتایا کہ بچوں اور بچیوں سے زیادتی کے واقعات تو پہلے بھی ہوتے تھے مگر اب ایک جو موبائل سے ویڈیو اور تصاویر بنا کر بلیک میل کرنے کے واقعات میں انتہائی اضافہ ہوچکا ہے۔

‘خود تصور کریں پہلے بچے کو زیادتی کا نشانہ بنانا اور پھر مستقل بلیک میل کرنے کے لیے تصاویراور ویڈیو بنا لیں، اپنے دوستوں کو بھی بھیج دیں اور یہ سب مل کر ان کو بلیک میل کریں۔ وہ کس دردرناک عذاب کا سامنا کرتے ہوں گے یہ کوئی اور تصور بھی نہیں کرسکتا ہے۔’

قمر نسیم کے مطابق پورے ملک اور صوبہ خیبر پختونخوا میں ایسے واقعات بہت بڑھ رہے ہیں۔ سوات، اٹک اور اب بٹگرام والا واقعہ تو رپورٹ ہوچکا ہے مگر کئی ایسے واقعات ہوں گے جو رپورٹ ہی نہیں ہوئے ہوں گے اور پتا نہیں متاثرہ بچے، بچیاں کس دردناک عذاب سے گزر رہے ہوں گے۔ اس معاملے سے نمٹنے کے لیے حکومت، ریاستی اداروں اور معاشرے کو مل کر سوچنا ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp