کیا یہاں صرف حکمران طبقہ بدعنوان ہے؟


کرپشن، کرپشن، کرپشن، کرپشن۔ یہ لفظ ہماری سماج میں ایک مانوس جانور کی طرح خاصا معروف ہوچکاہے۔ میرایقین ہے کہ اس ڈیجیٹل دور میں آج کل ملک کابچہ بچہ بھی اس سے واقف ہے۔ کیونکہ ایک تو یہاں کرپشن کا نہ ختم ہونے والاراج دہائیوں سے برقرارہے دوسرا یہ کہ ہمارے ہاں اس ناسورکاخاتمہ ہر سیاستدان کا انتخابی نعرہ ہوتاہے اگرچہ وہ خود ہی کرپٹ کیوں نہ ہو۔ افسوس مجھے اس بات کی ہے کہ کرپشن کی صحیح معنی سمجھنے سے ہماری اکثریت یاتوحقیقت میں قاصر ہے یا پھر جان بوجھ کر محدود پیرائے میں اس کامطلب لیاجا رہا ہے۔

مثلاًاس پر توسب لوگوں کا اجماع ہے کہ کرپشن بدعنوانی اور چوری کوکہاجاتاہے لیکن بہت کم لوگ اس بات پر متفق ہیں کہ کرپشن صرف اسلام آباد، کراچی، لاہور، پشاوراور کوئٹہ کے ایوانوں اور سیکرٹریٹس تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ خبیث دھندا سرگودھا، میانوالی، سکھر، مردان، اور ژوب وغیرہ میں بھی ہو رہا ہے۔ یعنی اس عمل میں محض وزیراعظم، صدر، وفاقی وزراء، گورنرز، فوجی اداروں کے لوگ، بیوروکریسی کے اعلیٰ افسر ز ملوث نہیں ہیں بلکہ اس میں ایک قاصد، سویپر، کلرک، جی وی ٹیچر، لکچرر، اسٹینو گرافر، عام وکیل، سیشن جج، ڈاکٹر، پولیس سپاہی حتی کہ خطیب، موذن، نان بائی، دکانداراورریڑھی بان بھی ملوث ہیں اورملوث ہوسکتے ہیں۔

اکاونٹنٹ جنرل آفس (اے جی افس) تووزیراعظم اور وفاقی سیکرٹریٹ نہیں ہے لیکن وہاں پر رشوت اداکیے بغیر اپناجائز کام نکالنا تقریباً امرِ محال سمجھاجاتا ہے۔ دوہفتے قبل ہفتے اس طالبعلم نے اپنے جی پی فنڈکی ڈھائی لاکھ رقم نکلوانے کا ارادہ کیا توژوب سے ویگن میں بیٹھ کر شام کو کوئٹہ پہنچا۔ اگلی صبح اپنے متعلقہ دستاویزات کی فائل سمیت اے جی آفس گیاتاکہ وہاں سے سلپ نکال سکوں۔ وہاں پر اپنے دوست (جو سینیئرآڈیٹرتھے ) کے پاس گیا۔

اللہ ان کا بھلا کرے، دو دن میں وہی مطلوبہ سلپ ان کے تعاون سے بغیر رشوت اداکیے مل گئی۔ بعدمیں ان سے آہستہ پوچھا ”یار! اگر آپ اس آفس میں نہ ہوتے تو مجھے اپنے اس جائزکام نکلوانے کے بدلے یہاں پر کتنی رشوت اداکرنی پڑتی۔ دوست نے بتایا :“ کم سے کم بیس ہزار روپے ”۔ ان کا یہ بھی کہناتھا کہ اگر آپ ژوب میں کچھ دلالوں کے ہتھے چڑھتے تو پھریہ تمہیں پچیس سے تیس ہزار میں پڑتاتھا۔ کوئٹہ سے ژوب واپسی ہوئی تواگلے روز تمام تر کوائف کے ساتھ ضلعی خزانہ آفس کا رخ کیا۔

وہاں پر بھی بہتوں نے بتایا کہ یہاں بھی رشوت کے بغیر کام نکالنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ خیر ایک اللہ والا یہاں بھی ملا جس نے بغیر رشوت کے مذکورہ رقم کا چیک تیار کرنے کا وعدہ کیا۔ آج بیس دن گزرگئے ہیں لیکن مجھے اپنی رقم کا چیک ابھی تک نہیں ملاہے۔ کیونکہ خزانہ افسر چھٹی پرکوئٹہ گئے ہوئے ہیں۔ میں ہرصبح مذکورہ دفتر کا چکر لگاتاہوں لیکن افسر صاحب کی غیرحاضری کی وجہ سے مجھ سمیت بے شمارلوگوں کے چیک وہاں پر پھنسے ہوئے ہیں۔

اب ہمیں کوئی سمجہا دے کہ کیا اے جی آفس میں ایک ملازم بے چارے ملازم سے اپنے پیسوں کے بدلے بیس، پچیس ہزار روپے لینا کرپشن نہیں ہے؟ کیا ضلعی خزانہ دفتر میں کسی بندے کا کام دو، تین، چار اور پانچ ہزار روپے رشوت کے بدلے نکالنا ایک ناجائزعمل اور بدعنوانی نہیں ہے؟ یہی حال ہمارے سب اداروں کاہے، آپ علاج کروانے کے لئے اسپتال توآپ جاسکتے ہیں لیکن وہاں پر تعینات ڈاکٹر سے چیک اپ کروانا یقینی نہیں ہے۔ چیک اپ آپ کی تب یقینی ہوسکتی ہے جب شام چار بجے آپ ڈاکٹرصاحب کے پرائیوٹ کلینک میں فیس سمیت جاوگے۔

تعلیمی نظام کولے لیں۔ اسکول کا ہر پانچواں چھٹا اورکالج کاہر ساتواں، آٹھواں استاد آپ کو گھوسٹ ملے گا۔ تنخواہ لینا تو اپنا اسلامی، انسانی اور اخلاقی حق سمجھاجاتاہے لیکن اسکول، کالج اور یونیورسٹی میں والدین کے امانت بچوں کو پڑھانا ہمارے اساتذہ کے لئے موت کی گھنٹی ہے۔ پولیس اہلکار کو تنخواہ ٹریفک سنبھالنے اور چور وں کوپکڑنے کی ملتی ہے لیکن یہ لوگ اس محکمے کو جوائن کرتے ہی ایک سال کے اندر خود پکے چور بن جاتے ہیں۔

ریڑھی بان کے بارے میں کرپشن کاگمان کرناتوبظاہر ایک گناہ سمجھاجاتاہے لیکن شہر کے چوراہوں اور مرکزی سڑکوں پر ریڑی لگاکر یہ لوگ بدترین کرپشن اورتجاوز کے مرتکب ہورہے ہیں۔ ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنر کاعہدہ کتنا پرکشش عہدہ ہوتاہے۔ ایک ڈپٹی کمشنر صاحب پورے ڈسٹرکٹ کا بادشاہ ہوتاہے لیکن مجھے کامل یقین ہے کہ کوئی اگراس طبقے کی کام چوری، مال چوری اورخیانت کی کہانیاں لکھنابیٹھ جائیں تو پوری کتابیں لکھنا بھی ناکافی پڑجائیں گی۔

ہمارے مذہبی طبقے کولے لیں۔ کوئی سوچ بھی نہیں سکتاکہ یہ لوگ بھی کرپشن کرسکیں گے لیکن ہمارے اس طبقے میں بھی کالی بھیڑیں تھوک کے حساب سے ملتی ہیں۔ چندسال پہلے راستے میں ایک نوجوان مولوی ملا۔ سے علیک سلیک کے بعد باتوں باتوں میں ان سے نوکری کے بارے میں پوچھا۔ فرمایا :فی الحال ایک دینی مدرسے میں تین چار کتابیں پڑھاتاہوں جبکہ اسلامیات لکچررشپ کے لئے اپلائی بھی کرچکاہوں، اللہ مالک ہے، انشائ اللہ کامیابی ملے گی۔

ساتھ ساتھ یہ بھی کہاکہ تعیناتی کے بعد ڈیوٹی ویسے بھی ہم نہیں دے سکتے۔ ان کی یہ بات سن کر مجھ سے بھی رہانہ گیا اور ان سے پوچھا:کیا بغیر ڈیوٹی دیے کسی ادارے سے مفت میں تنخواہ لینا جائز ہے؟ جواب دیا:یار! ویسے بھی یہاں پوچھنے والا کوئی نہیں ہے، قانون اور سسٹم دھڑام سے گر چکا ہے، سو ایسے میں سرکار ی خزانے سے مفت میں کچھ لیناکون سی بری بات ہے؟ اس ملک میں میں نے بے شمات ایسے اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیز کے ایسے اساتذہ دیکھے ہیں جو اپنے ادارے میں فرض ڈیوٹی کو جوتے کی نوک پر رکھ کرچلہ، چار مہینے اور پورا ایک سال تبلیغ پر نکل جاتے ہیں۔

یعنی ان کے مسلک میں سکول یاکالج میں ڈیوٹی نہ دینا کرپشن نہیں کیونکہ وہ تو اللہ کی راہ میں نکلاہوا ہے۔ الغرض بتانا یہ مقصود ہے کہ ہمارے معاشرے میں کرپشن، بدعنوانی، اقرباء پروری اور رشوت سے متعلق یہ غلط ہواچلی ہے کہ اس دھندے کا اگر ملک کا وزیراعظم، صدر، عسکری اداروں کے لوگ، وفاقی وزراء، گورنرز یا ایم این ایز وغیرہ ارتکاب کرتاہے تو کرپشن سمجھا جاتاہے لیکن یہی دھندا اگر نچلی سطح پر ہوتاہو تو پھر اسے ایک عام سی بات سمجھی جاتی ہے۔ کرپشن سے پاک وشفاف معاشرہ کی تشکیل کے لئے پہلے ہمیں اس غلط سوچ کا خاتمہ کرنا ہوگا اور پھر ادارہ جاتی اصلاحات پر فوکس کرنا ہو گا ورنہ خاکم بدہن ہمارا معاشرہ اس ناسور میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے سڑتا رہے گا۔ وماعلینا الا البلاغ،


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments