آرٹس کونسل کراچی، انور مقصود سے کیا کام لے سکتی ہے


آرٹس کونسل کراچی کے لیے انور مقصود لازم و ملزوم ہیں۔ پہلے مقبول تھے، اب پاپولر ہیں۔ لوگ ان کا نام سن کر آتے ہیں۔ اور آرٹس کونسل کے ممبر بن جاتے ہیں، یہ کوئی چھوٹی بات نہیں لیکن انور مقصود کے ذریعے قوم جو کچھ حاصل کر رہی ہے۔ اس کی کچھ جھلکیاں۔

پچھلے دنوں ماہرہ خان اور انور مقصود کے مکالمے کے لیے آرٹس کونسل میں محفل سجائی گئی۔ انور مقصود کے علاوہ بہت سے فنکار، لکھاری تھے، جن کے ساتھ یہ مکالمہ بہترین ہو سکتا تھا۔ مگر قدرت نے کچھ کاموں کے لیے انور مقصود کو رکھ چھوڑا ہے۔ انور مقصود اور ماہرہ کے درمیان جو مکالمات ہوئے، ان میں سے چند ہم یہاں من و عن لکھ رہے ہیں۔

ستارہ اور مہرالنساء کا حوالہ دیتے ہوئے ماہرہ خان کہتی ہیں کہ ”وہاں دو مختلف عورتیں، مختلف شخصیات، وہاں جس طرح آپ نے لکھا، جس طرح ڈائریکٹ کیا گیا اس میں ہمیں کبھی نہیں لگا کہ دو عورتیں لڑ رہی ہیں۔ وہ ایک مقابلہ جو ہمارے خاندانوں میں ہوتا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں اسے آپ کے ڈرامے میں الگ طریقے سے دکھایا گیا، وہ ایک سناریو ہے۔ لیکن آج ہم دیکھتے ہیں کہ دو عورتیں لڑ رہی ہیں، چیخ رہی ہیں ایک دوسرے کو زہر دے رہی ہیں۔ میرا مطلب ہے وائے“۔

اب اس کے جواب میں کوئی بھی شخص ہو تا تو ڈراموں کے موضوعات اور خواتین کے لڑائی جھگڑوں پر بننے والے ڈراموں کے بارے میں رائے زنی کرتا۔ مگر انور مقصود جس عمر میں ہیں انہیں لگتا ہے، کہ قوم کو کسی بھی طریقے سے ہنسایا جائے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی اس عمر میں بھی آمدنی میں برکت ان کے جنبش لب اور خم ابرو پر ٹکی ہے سو سوال گندم جواب چنا کے مصداق انہیں قوم کو ہنساتے رہنے کے لیے سوال کوئی بھی ہو جواب وہی دینا ہے جو سوچے بیٹھے ہیں۔ اس عمر میں یاداشت کمزور ہو جاتی ہے۔ سوچ کر بولنے میں آسانی رہتی ہے۔

انور مقصود نے ایک سیکنڈ کچھ توقف کیا پھر کپکپاتے لب کھولے
”اب دو عورتیں ہیں مریم نواز، مریم اورنگ زیب“
حاضرین کی تالیاں۔ ماہرہ کی تالی
”نہیں میں ایک مثال دے رہا ہوں میں کیوں کہ ابھی۔ کیوں کہ مجھ پر پابندی ہے۔ سیاسی بات کرنے کی، میں نے ایک مثال دی ہے۔“
ماہرہ: نہیں یہ ایک بہت اچھی مثال ہے۔ بتائیں
انور مقصود: ”کیوں کہ حالات ایسے ہیں۔ جب حالات ٹھیک ہوجائیں گے انشااللہ“ ۔
تالیاں، قہقہے
”میں تو ایک مثال دی۔“
تالیاں، قہقہے

”کیوں کہ جب آپ نے کہا کہ زہر اگل رہی ہیں گالیاں دے رہی ہیں ایک دوسرے کو زہر دے رہی ہیں تو میں نے مثال دی۔ یہ تو ہر جگہ ہو تا ہے۔ اصلی زندگی میں بھی ہوتا ہے ایسا۔“

ہاہا ہا حاضرین کے قہقہے تالیاں۔ ہوٹنگ
”جب کہ دو لوگ ایکٹریس ہیں کیریکٹر ایکٹریس نہیں ہیں۔“
تالیاں، چیخیں

گفتگو کہ دوران انور مقصود نے رائے دی کہ ”مجھے لگتا ہے شادی بری ہے، تو فوراً نکل جا نا چاہیے، اسے طول نہیں دینا چاہیے۔ میاں بیوی میں اگر نہیں بن رہی تو جتنی جلدی ہو سکے الگ ہو جا نا چاہیے“ ۔

ماہرہ خان کو شاید انور مقصود سے کسی مناسب جملے کی توقع نہیں تھی ان کے کے چہرے پر تذبذب اور فکر چھا گئے۔

ہچکچاتے ہوئے بولیں : ”میں تھوڑی دیر اور آپ کے ساتھ وقت گزاروں گی تو مجھے سمجھ آ جائے گی، مجھے سمجھ نہیں آ رہا کہ کہاں آپ سارکیسٹک ہو رہے ہیں اور کہاں آپ سیریس۔ کیوں کہ اس وقت مجھے سمجھ نہیں آ رہا۔“
حاضرین کی تالیاں، ہنسی
نئیں میرا مطلب ہے۔
نئیں آپ سیریس ہیں۔
نہیں میں نے تو ایک سیدھی سی بات کی۔

ایک اور موقع پر ماہرہ خان شعیب منصور کی ڈرامے میں آفر کا ذکر کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ”میں نے انہیں معذرت کرتے ہوئے کہا۔ میرا نومولود بیٹا ہے۔ اس پر شعیب منصور نے کہا تو کیا ہوا تمہیں پتہ ہے کہ ہمارے زمانے میں بچے سیٹ پر ہوا کرتے تھے“ ۔

انور مقصود: ”اس زمانے میں وہ ڈائریکٹر بدمعاش ہوتے تھے۔ شعیب شریف آدمی تھے“ ۔
تالیاں، چیخیں
انور مقصود: ”اب تو تین ہی سیاسی جماعتیں ہیں۔ آپ کس کی طرف ہیں۔“
ماہرہ ہچکچاتی ہیں۔
انور مقصود: ”بول دیں کوئی بات نہیں۔ بالکل کہہ دیں“ ۔
ماہرہ: ”میں پٹھان کی طرف ہوں“
تالیاں، نعرے، چیخیں

ماہرہ خان ایک موقع پر اپنے ایک ڈرامے کا ذکر کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ” میں نے ایک پلے میں کام کیا جنرل نگار“

انور مقصود کے لب کپکپائے، مگر کچھ نہیں بولے
ماہرہ خان: ”آپ شاید جانتے ہوں۔“
انور مقصود کے انور مقصود کے لب کپکپائے، مگر بس اتنا کہہ پائے ”نہیں“
ماہرہ خان: ”مجھے فیلنگ آ رہی ہے کہ ایک کچھ آپ کے اندر سے نکلنے والا تھا جو آپ نے روک دیا“ ۔
انور مقصود: ”نئیں نہیں“

ماہرہ: ”مجھے آ رہی ہے فیلنگ۔ اتنا تو ہم بھی آپ کو جانتے ہیں“ ۔
انور مقصود: ”میں مرد ہوں، کیا نکلنے والا ہو سکتا ہے“ ۔
تالیاں، قہقہے، چیخیں
ماہرہ خان نے شرما کے اپنا چہرہ جھکا کے اپنی زلفوں سے منہ چھپا لیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments