تیرا میرا مول


[ سندھی افسانے کا اردُو ترجمہ ]

(تحریر: امر جلیل | ترجمہ: یاسر قاضی)

ہمارے اڑوس پڑوس والوں نے جب سے ڈِیپ فریزر خریدے ہیں، تب سے عید الاضحی کے موقع پر انہوں نے پابندی کے ساتھ ایک عدد جانور کی قربانی کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ عید سے کچھ دن قبل ان کا جذبہ دیدنی ہوتا ہے ؛ بلکہ رُوح پرور ہوتا ہے۔ اونٹ، بیل، گائے، بھینسیں، سانڈ، بکرے اور دُنبے خرید لاتے ہیں۔ جانوروں کو رنگ روپ اور مہندی لگا کر، زریوں والی جھالریں ڈال کر، اُن کے حُسن کو چار کے قریب چاند تو چپکا ہی دیتے ہیں۔

عید سے پہلے والی تمام راتیں ان جانوروں کے ساتھ خود سو کر گزارتے ہیں۔ اور جاگنے کا کام پڑوسیوں کے حوالے کر دیتے ہیں۔ طرح طرح کے جانور رات بھر بھانت بھانت کی بولیوں اور آوازوں سے کانوں کے پردوں کے ساتھ آسمان بھی پھاڑ دیتے ہیں۔ تھوڑی دیر کے لیے کسی ایسی جگہ کا ذرا تصوّر تو کر کے دیکھیں، جہاں بیک وقت اونٹ، گائے، بھینسیں، بیل، سانڈ، بکرے اور دُنبے موجود ہوں اور چیخ چیخ کر مشترکہ احتجاج کے لیے اپنی آوازیں بلند کر رہے ہوں!

ہم، یعنی میں اور میرا بھائی ”چینو“ ایسے ہی ایک عبرتناک محلے میں رہتے ہیں اور، سال میں ایک مرتبہ اس دہشتناک تجربے سے گزرتے ہیں۔

نیند نہ مجھے آ رہی تھی، اور نہ چینے کو۔ ہم دونوں ہی جاگ رہے تھے۔ صحن میں لیٹے ہوئے تھے۔ میں نے اپنی آنکھیں آسمان پہ ٹکا کے رکھی تھیں، اور چینو ”طلسمِ ہوشربا“ پڑھنے میں محو تھا، اور تقریباً ہوش سے نکلا جا رہا تھا۔

چینے نے کہا، ”بھائی، آج کل کے اخبارات میں سے اگر ڈاکوں، قتل، دہشتگردیوں اور دہشتگردی کی وارداتوں کے بعد ریوڑیاں بانٹنے کی خبریں یکجاء کر کے کتابی صورت میں شایع کی جائیں تو“ طلسم ہوشربا ”سے زیادہ ہوش اڑانے والی کتاب تیار ہو سکتی ہے! “

میں نے جواب دیا، ”تجھے ملازمت ولازمت تو ملنی ہے نہیں۔ تُو جب بڑا ہو جائے، تو یہ کام کرنا۔ “

چینے نے پوچھا، ”بھائی، جیل کے باہر کھڑے پولیس والے“ ولُّو ”کو بھی تو دہشتگردوں نے گولی مار کر مار دیا تھا ناں؟ “

میں نے فلک کی وُسعتوں سے اپنی آنکھیں ہٹا کر چینے کی طرف دیکھا۔ بولا، ”مجھے پتا ہے کہ اس کے بعد تُم کون سا سوال کرنے والے ہو۔ “

اس نے حیران ہو کر پوچھا، ”تمہیں کیسے پتا چلا کہ میں کون سا سوال کروں گا؟ “

میں نے جواب دیا، ”تم اور میں، کُوزہ گر کے گارے میں بُھولی ہوئی مٹّی سے بنے ہوئے انسان ہیں۔ ہم دونوں پاگل ہیں۔ “

ایسا لگا کہ چینے کو میری بات کا یقین نہیں ہوا۔ اس نے کہا، ”اچھا بھلا بتاؤ کہ میرا اگلا سوال کیا تھا؟ “

میں نے کہا، ”پہلے کوئی شرط تو رکھو۔ آج کل لوگ ثواب بھی انعام کے لالچ کے سوا نہیں کماتے۔ “

اس نے پوچھا، ”دس روپے والا ریفل ٹکٹ خریدا ہے کیا؟ “

میں نے کہا، ”ہاں، ایک ٹکٹ لیا ہے۔ “

پوچھا، ”کتنے انعام کے لالچ میں؟ “

میں نے کہا، ”بیس لاکھ۔ “

چینو اُٹھ کر بیٹھ گیا۔ بولا، ”ریفل والوں کا حساب ہے جُوئے کی طرح چانس پر۔ تم ایسا کرو۔ دہشتگردوں کے ہاتھوں گولیاں کھا کے مرجاؤ۔ تمہیں حکومت کی طرف سے ایک دم بِیس لاکھ مل جائیں گے۔ “ چینے کے مُنہ میں جو آیا، بولتا گیا؛ پر، جملہ بول چُکنے کے بعد ہی جیسے ساکت ہو گیا۔ پتھر بن گیا۔ ٹکٹکی باندھ کر میری جانب دیکھتا رہا۔ پھر، اچانک سے، اُچھل کر مجھ سے آ لپٹا۔

بمشکل چھ سات برس کا ہے۔ میری روح ہے وہ۔ کائنات میں سب سے زیادہ پیارا ہے مجھے۔ میرا چہرہ چُومتے ہوئے رو پڑا۔

”ارے پاگل! “ میں بولا، ”کیا ہوا؟ رو کیوں رہے ہو؟ “

میں نے اسے گلے لگایا۔

بولا، ”میں نے ایسا کیوں کہا، کیوں کہاں۔ “

”کیا ہو گیا پھر، اگر تم نے کہہ بھی دیا تو۔ “ میں اُسے پیار کرتے ہوئے بولا، ”مجھے اپنی قدر معلوم ہے چینے! میں اگر دہشتگردوں کے ہاتھوں مارا بھی گیا تو سرکار سے زیادہ سے زیادہ دس روپے ہی مل پائیں گے۔ یہی معاشرے میں میرا مول ہے۔ معاوضہ ہے۔ “

چینے نے پُوچھا، ”اور جیل کے باہر کھڑے پولیس والے“ ولُّو ”کی قدر کتنی ہے؟ جو دہشتگردوں کے ہاتھوں مارا گیا ہے۔ “

”کچھ یقین سے کہا نہیں جا سکتا چینے۔ “ میں بولا، ”آج کل سبزیوں اور مونگ پھلیوں کی قیمت لگ بھگ برابر ہے۔ دل کرے تو اسے ایک کروڑ روپے دے دیں گے۔ ورنہ اس کی بیوہ کو ایک تمغہ، ایک سَند، پانچ سو روپوں کا چیک اور اس کے پانچ سال کے بیٹے کو کانسٹیبل کے طور پر ملازمت دینے کا وعدہ۔ رہے نام اللہ کا! “

اُسی وقت دروازے پر دستک ہوئی۔ ایک بار، دوسری بار۔

چینے نے دوڑ لگا کر کھولنے کے لیے دروازے کی کنڈی میں ہاتھ ڈالا۔

میں نے چیخ کر بولا، ”دیکھنا چینے! کوئی دہشتگرد یا ڈاکو نہ ہو۔ “

چینے نے جواب دیا، ”کوئی بھی دہشتگرد ہم پر اپنی قیمتی گولی کیوں ضایع کرے گا، اور کوئی بھی ڈاکو ہمیں تاوان کے لیے اغوا نہیں کرے گا۔ غلطی سے اگر کسی نے اغوا کر بھی لیا، تو اُلٹا پیسے دے کر واپس چھوڑ جائے گا اور آئندہ کے لیے توبہ کر لے گا۔ “

چینے نے دروازہ کھول دیا۔

ایک بدحواس شخص ہانپتا کانپتا اندر چلا آیا، اور ہاتھ جوڑ کر گِڑگڑانے لگا،

”خدا کے واسطے مجھے پناہ دو۔ مُجھے چھپاؤ۔ وہ مُجھے مار دیں گے۔ “

چینے نے دروازہ اندر سے بند کر دیا۔

وہ احسانمند نظروں سے ہماری طرف دیکھنے لگا۔ ■


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments