کشمیر پر مہاتیر محمد کا بیان: انڈیا ملائیشین پام آئل کا بائیکاٹ کب تک جاری رکھ سکتا ہے؟


ملائیشیا میں پام آئل کی صنعت غیر متوقع طور پر تنازعہ کشمیر کا شکار ہو گئی ہے۔

گذشتہ برس ستمبر کے آواخر سے انڈیا اور ملائیشیا کے تعلقات اس وقت سرد مہری کا شکار ہو گئے تھے جب ملائیشیا کے صدر مہاتیر محمد کا یہ بیان سامنے آیا کہ انڈیا نے ہمالیائی خطے (کشمیر) پر ’حملہ اور قبضہ‘ کیا ہے۔

یاد رہے کہ اگست 2019 میں انڈیا نے اپنے زیرِ انتظام کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کا اعلان کیا تھا اور اس وقت ذرائع مواصلات پر لگائی گئی قدغنوں کا سلسلہ چاہ ماہ سے زائد وقت گزرنے کے باوجود اب بھی جاری ہے۔

مہاتیر محمد کا یہ بیان نئی دہلی کو پسند نہ آیا اور ردِعمل میں انڈیا میں نباتاتی تیل درآمد کرنے والے کاروباری حضرات کو کہا گیا کہ وہ کشمیر کے معاملے پر ’اظہار یکجہتی‘ کرتے ہوئے ملائیشیا سے پام آئل خریدنے سے گریز کریں۔

ملائیشین صدر نے اس اقدام کو ’تجارتی جنگ‘ جیسا قرار دیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

اقوام متحدہ کی انڈیا کو تنبیہہ

کشمیری ٹرک ڈرائیوروں کا روزگار خطرے میں

’کشمیر کی تحریک پہلی ترجیح، تجارت دوسرے نمبر پر‘

ملائیشیا کی زرعی برآمدات میں پام آئل کی فروخت ایک بڑا حصہ ہے۔ پام آئل دنیا بھر میں بڑے پیمانے پر استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ نہ صرف کھانا پکانے کے لیے استعمال ہوتا ہے بلکہ اسے بائیو فیولز، فوری تیار ہونے والے نوڈلز، پیزا اور لپ سٹک کی تیاری میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔

پام آئل: انڈیا کی ناختم ہونے والی بھوک

دنیا بھر میں انڈیا خوردنی تیل کا سب سے بڑا درآمد کنندہ ہے اور خوردنی تیل کی ضروریات پوری کرنے کے لیے انڈیا کا زیادہ تر انحصار ملائیشیا اور انڈونیشیا پر ہے۔ انڈیا سالانہ نو ملین ٹن سے زیادہ پام آئل درآمد کرتا ہے۔

پام آئل

ملائیشیا کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ برس جنوری سے اکتوبر کے درمیان انڈیا ملائیشین پام آئل خریدنے والا سب سے بڑا ملک تھا اور اس عرصے میں انڈیا نے ملائیشیا سے چار ملین ٹن پام آئل خریدا تھا۔

تاہم مہاتیر محمد کے بیانات سامنے آنے کے بعد انڈیا میں پام آئل سے متعلقہ ایسوسی ایشن (ایس ای اے آئی) کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر بی وی مہتا نے کہا ہے کہ احتیاطی تدبیر کے طور پر پام آئل درآمد کرنے والی ایسوسی ایشن کے زیادہ تر ممبران نے اپنا فوکس تبدیل کیا ہے اور اب وہ ملائیشیا کے بجائے انڈونیشیا سے خریداری کر رہے ہیں۔

بی بی سی مانیٹرنگ سے گفتگو میں انھوں نے بتایا کہ ’ہمیں خدشہ ہے کہ انڈیا اور ملائیشیا کے درمیان کشیدہ صورتحال کی وجہ سے انڈین حکومت شاید ٹیرف یا نان ٹیرف کی مد میں پابندیاں عائد کرے۔ ہم نہیں چاہتے تھے کہ ہم دو طرفہ جھڑپ کا شکار بنیں۔‘

حالیہ تجارتی اعداد و شمار سے یہ پتا چلتا ہے کہ ملائیشین پام آئل کی درآمد میں کمی کی پس پردہ وجوہات اور بھی ہو سکتی ہیں جیسا کہ درآمدی ٹیکس میں اضافہ وغیرہ۔

ملائیشیا میں اس صنعت سے وابستہ ماہرین کا کہنا ہے کہ انڈیا میں پام آئل کی درآمد ستمبر 2019 سے اکتوبر 2019 کے دوران 310,648 ٹن سے کم ہو کر 219,956 ٹن رہ گئی تھی۔ یہ کمی جاری رہی اور نومبر 2019 تک یہ 142,696 ٹن رہ گئی ہے۔

ملائیشیا میں انڈیا کے سفیر مریدل کمار نے اس بات کی تردید کی ہے کہ انڈیا نے ملائیشیا سے پام آئل کی خریداری کا بائیکاٹ کر دیا ہے۔ 11 دسمبر کو اپنے ایک بیان میں ان کا کہنا تھا کہ ’یہ پام آئل ایسوسی ایشن نے کیا ہے انڈین حکومت نے نہیں۔ آپ کہتے ہیں کہ پام آئل پر تنازع ہے، مجھے تو ایسا کوئی تنازع نظر نہیں آتا۔‘

تاہم انڈیا کے سابق سفیر وشنو پرکاش کہتے ہیں کہ ’اگر کوئی قوم اپنے مذموم مقاصد کے تحت انڈیا کو نشانہ بنانے کا فیصلہ کرتی ہے تو پھر اسے اس کی قیمت بھی ادا کرنی پڑے گی۔‘

بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ایسے نہیں چل سکتا۔ ’ایسا ممکن نہیں کہ (دو طرفہ) تعلقات کے ایک رخ کو دوسرے سے الگ کیا جائے۔‘

چند تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یہ ویسا ہی ہتھکنڈہ ہے جیسا چین اپنے مخالفین کے خلاف استعمال کرتا ہے اور جہاں تجارت کو انتقامی کارروائی کا ہتھیار سمجھا جاتا ہے۔

جندل سکول آف انٹرنیشنل افیئرز میں پروفیسر سری رام چاؤلیا نے بی بی سی سے گفتگو میں کہا کہ انڈیا کی مارکیٹ کا بڑا سائز اس کی طاقت ہے اور (انڈیا کے وزیراعظم) مودی چاہتے ہیں کہ اسے (طاقت) استعمال میں لاتے ہوئے ان ممالک کو سبق سکھایا جائے جنھوں نے سٹریٹیجک سطح پر انڈیا کو چیلنج کیا۔

وہ کہتے ہیں کہ یہ خارجہ تعلقات میں معاشی اور سیاسی مقاصد کے درمیان ایک تعلق کی قسم ہے جسے انڈیا نے پہلے کبھی ظاہر نہیں کیا تھا۔

مہاتیر محمد نے کہا کیا تھا؟

مہاتیر محمد نے گذشتہ برس ستمبر میں اقوام متحدہ میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’جموں و کشمیر پر اقوام متحدہ کی قرارداد کے باوجود ملک (کشمیر) پر حملہ اور قبضہ کیا گیا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’شاید اس کی کچھ وجوہات ہو سکتی ہیں مگر پھر بھی یہ غلط ہے۔ مسئلے کا پرامن انداز میں حل ہونا ضروری ہے۔ انڈیا کو اس مسئلے کے حل کے لیے پاکستان کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اقوام متحدہ کو نظر انداز کرنے سے دیگر فورمز پر بھی اقوام متحدہ اور قانون کی پاسداری نظر انداز ہو گی۔‘

انڈیا نے مہاتیر محمد کے اس بیان کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ یہ حقائق پر مبنی نہیں اور پھر میڈیا پر یہ افواہیں گردش کرنے لگیں کہ انڈین حکومت سخت کارروائی کا سوچ رہی ہے۔

مہاتیر محمد

ملائیشیا کے وزیر اعظم نے انڈیا میں شہریت کے نئے قانون پر تشویش کا اظہار کیا ہے

کیا ملائیشیا پریشان ہے؟

ملائیشیا میں لاکھوں کاشتکاروں کا پام آئل کی برآمدات پر انحصار ہے۔ ملائیشیا کی حکومت نے تسلیم کیا ہے کہ انڈین حکومت نے پام آئل ایکسپورٹرز کو ملائیشیا سے پام آئل درآمد نہ کرنے کا مشورہ ملائیشیا کے لیے ایک جھٹکا تھا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ انڈیا کی طرف سے ملائیشیا سے پام آئل نہ خریدنے سے وقتی طور تو پر ملائیشیا کے لیے پریشانی ہو گی لیکن طویل عرصے کے لیے یہ بڑا مسئلہ نہیں ہو گا۔

یونیورسٹی آف تسمانیا کے ایشیا انسٹیوٹ کے ڈائریکٹر جیمز چن نے بی بی سی کو بتایا ہے ’ملائیشیا کے لیے انڈیا جیسے بڑے گاہک کا فوری نعم البدل ڈھونڈنا مشکل ہو گا۔‘

ماہرین کے خیال میں ملائیشیا کے لیے پام آئل کےخریدار ڈھونڈنا بہت بڑا مسئلہ نہیں گا۔

انڈیا کے ایک سابق سفیر پرکاش کہتے ہیں کہ دونوں ملکوں نے اپنے تعلقات استوار کرنے میں بہت توانائی اور وقت صرف کیا ہے اور یہ ایک بہت معمولی سا مسئلہ ہے جو بہت جلد ٹھیک ہو جائے گا۔

ملائیشیا کے ہاپ سینگ کنسولیڈیٹڈ گروپ سے تعلق رکھنے والے ایڈورڈ منگ لو کا کہنا ہے کہ انڈیا بہت جلد ملائیشیا کے پاس واپس آ جائے گا کیونکہ وہ زیادہ عرصے تک مہنگا پام آئل نہیں خرید پائے گا۔

البتہ مہاتیر محمد نے یہ کہا ہے کہ انڈیا نے ملائیشیا کا بائیکاٹ شروع کیا ہے جسے سفارت کاری کے ذریعے حل کرنا ہو گا۔

ملائیشیا اب افریقہ میں پام آئل کے نئے خریدار ڈھونڈنے کی کوشش کر رہا ہے۔ انڈیا کے علاوہ یورپی یونین نے بھی ماحولیات کو بچانے کے لیے ملائیشیا سے اگلے دس برسوں میں پام آئل کی درآمد ختم کرنے کے منصوبے کا اعلان کیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32552 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp