پناہ گاہیں: سخت سردی میں لاہور کے بے گھر افراد کہاں جائیں؟


پناہ گاہ

لاہور سمیت پاکستان کے کئی شہروں میں سردی کی شدت میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے جس کے بعد وزیر اعظم عمران خان نے ایک ٹویٹ کے ذریعے خصوصی ہدایات جاری کی ہیں کہ کوئی بھی شخص سردی میں کھلے آسمان تلے نہ سوئے۔

اس سے قبل 2018 میں وزیر اعظم عمران خان نے بےگھر افراد کے لیے پناہ گاہیں تعمیر کرنے کا اعلان کیا تھا اور نومبر میں لاہور ریلوے اسٹیشن کے سامنے پہلی پناہ گاہ کی سنگ بیناد رکھی۔

لاہور کے پانچ مختلف مقامات: ٹھوکر نیاز بیگ، داتا دربار، شاہدرہ، لاری آڈا اور ریلوے اسٹیشن پر پناہ گاہیں قائم کی گئی ہیں جن میں کُل 750 افراد کی رہنے کی گنجائش موجود ہے۔

لیکن لاہور سے تعلق رکھنے والے بے گھر افراد نے بی بی سی کو بتایا کہ ان پناہ گاہوں میں انھیں رہنے کی اجازت نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ پاکستان کا دل کہلانے والے شہر میں آج بھی کئی سو افراد روزانہ کھلے آسمان تلے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

شیلٹر ہوم: داتا کی نگری میں بھی خواتین سڑک پر سونے پر مجبور

صحت کارڈ کا اعلان، آٹھ کروڑ غریبوں کا مفت علاج

تحریکِ انصاف: پہلے سال کی بڑی کامیابیاں اور ناکامیاں

پناہ گاہ یا مسافر خانہ؟

رواں سال کے اعداد و شمار کے مطابق لاہور میں قائم پانچ پناہ گاہوں میں تقریبا ایک لاکھ سے زائد افراد نے قیام کیا۔ لیکن جب ہم نے ان میں ایک کا دورہ کیا تو وہاں درجنوں افراد پناہ گاہ کے باہر فٹ پاتھ پر بیٹھے نظر آئے۔

https://twitter.com/UsmanAKBuzdar/status/1198151343413899264

جب ان سے دریافت کیا گیا کہ وہ پناہ گاہ کے اندر کیوں نہیں گئے تو انھوں نے بتایا کہ چونکہ وہ لاہور اور اس کے مضافات کے رہائشی ہیں، اسی لیے انھیں پناہ گاہ میں رکنے کی اجازت نہیں ہے۔

لاہور کی پناہ گاہوں میں قیام کرنے کے حوالے سے بنائے گئے قوائد و ضوابط کے مطابق کوئی بھی ایسا شخص پناہ گاہ میں نہیں ٹھہر سکتا جس کے قومی شناختی کارڈ پر لاہور کے کسی بھی علاقے کا پتہ لکھا ہو اور صرف شہر سے باہر سے آنے والے افراد کو ہی پناہ گاہ میں رہنے کی اجازت دی جاتی ہے۔ سیکرٹری سوشل ویلفیئر زاہد سلیم گوندل اور پناہ گاہ کے انچارج عارف صدیقی نے بھی اس بات کی تصدیق کی۔

زاہد سلیم گوندل کا کہنا تھا: ’ہمیں وزیر اعظم عمران خان نے سردی کی شدت کے باعث خصوصی ہدایات جاری کی ہیں کہ اس سردی میں کوئی بھی شخص باہر ٹھنڈ میں نہ سوئے۔ اس کے بعد ہم نے تقریباً 1000 افراد کی نشاندہی کی اور انھیں پناہ گاہوں میں منتقل کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ ضلعی انتظامیہ خود اس معاملے کو دیکھ رہی ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے دیگر شہروں میں بھی عارضی پناہ گاہیں قائم کی ہیں۔

لاہور ریلوے سٹیشن پر واقع پناہ گاہ کے انچارج عارف صدیقی نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اکثر لوگ ایسے بھی آتے ہیں جو بیرون ملک پرواز کے لیے لاہور آتے ہیں لیکن انھیں پناہ گاہ میں جگہ دینی پڑتی ہے ’کیونکہ قوانین کے مطابق وہ مسافر ہیں اور ہم انھیں رکھنے کے پابند ہیں۔‘

پناہ گاہ

دوسری جانب مزمل نامی ایک بے گھر شخص نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ کافی عرصے سے لاہور کی سخت سردی میں بھی داتا دربار کے باہر فٹ پاتھ پر رہ رہے ہیں کیونکہ ان کے پاس قومی شناختی کارڈ نہیں ہے۔ مزمل کے مطابق خاندان والوں نے انھیں گھر سے نکال دیا تھا۔

داتا دربار پناہ گاہ کے باہر موجود لاہور کے ایک نواحی گاؤں سے تعلق رکھنے والے ایک مزدور نے بتایا کہ وہ نوکری کے غرض سے شہر آتے ہیں لیکن انھیں گھر جاتے جاتے رات ہو جاتی ہے۔

’سردی کے موسم میں دھند کے باعث اکثر مجھے شہر میں ہی رکنا پڑ جاتا ہے کیونکہ ہمارا علاقہ رات کے وقت محفوظ نہیں ہے۔ پناہ گاہ کی انتظامیہ ہمیں یہاں نہیں رہنے دیتی کیونکہ میرے شناختی کارڈ پر لاہور لکھا ہے۔ تاہم ایک دو ماہ قبل میں یہاں رکا تھا اور مجھے اندر آنے کی اجازت بھی مل گئی تھی۔‘

عارف صدیقی کے مطابق وہ ایسے کیسز میں خصوصی انتظامات کر کے لاہور کے رہائشیوں کو بھی پناہ گاہ میں رکھ لیتے ہیں۔ شام چھ بجے لوگوں کی انٹری کی جاتی ہے اور انھیں دو وقت کا کھانا بھی فراہم کیا جاتا ہے۔ تاہم کسی بھی شخص کو پناہ گاہ میں تین دن سے زیادہ گزارنے کی اجازت نہیں ہے۔

لاہور میں ریکارڈ سردی

پچھلے کئی دن سے لاہور شہر شدید سردی کی لپیٹ میں ہے اور کم سے کم درجہ حرارت 2 ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ محکمہ موسمیات کے چیف میٹرلوجسٹ مہر صاحبزاد خان نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئی بتایا کہ اس سال شدید سردی کے باعث کئی سالوں کے ریکارڈ ٹوٹ گئے ہیں تاہم موسم میں غیر معمولی تبدیلی کلائمیٹ چینج کی وجہ ہے جس کی وجہ سے ایسی صورت حال لاہور سمیت دنیا بھر میں دیکھنے میں آ رہی ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا ’اگر ہم ریکارڈ دیکھیں تو جنوری کے مہینے میں دسمبر سے زیادہ سردی پڑتی ہے۔ اس لیے میرے خیال میں لاہور میں سردی کی شدت میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے اور آئندہ ہفتے بارش کے بھی امکانات ہیں اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ پارہ منفی میں چلا جائے۔‘

’شہریوں کو چاہیے کہ وہ غیر ضروری طور پر گھروں سے نکلنے سے گریز کریں اور سردی کی شدت سے بچنے کے لیے گرم کپڑوں کا استعمال کریں۔‘

لاہور میں سردی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے پناہ گاہ انچارج کا کہنا تھا ’سردی سے بچنے کے لیے ہم ہر آنے والے شخص کو ایک کمبل اور ایک رضائی دیتے ہیں لیکن پناہ گاہ میں ہیٹر نہ ہونے کے باعث لوگ سردی محسوس کرتے ہیں جبکہ یہاں گرم پانی کے انتظام کے لیے گیزر بھی نہیں لگائے گئے ہیں۔‘

پناہ گاہ میں خواتین نہیں رہ سکتیں

لاہور کی پانچ پناہ گاہوں میں 115 خواتین کے رہنے کی گنجائش بنائی گئی تھی۔ چار پناہ گاہوں (ٹھوکر نیاز پناہ گاہ، شاہدرہ پناہ گاہ، لاری آڈا پناہ گاہ اور ریلوے اسٹیشن پناہ گاہ) میں 20، 20 خواتین قیام کر سکتی تھیں جبکہ داتا دربار پناہ گاہ میں 35 خواتین کے رہنے کا بندوبست کیا گیا تھا۔

لیکن خواتین کو ان پناہ گاہوں میں پناہ لینے کی جگہ نہیں مل رہی ہے۔

پناہ گاہ

رحیم یار خان سے تعلق رکھنے والی نورین نامی بے گھر خاتون نے بی بی سی بات کرتے ہوئے بتایا کہ ان کے بچوں نے ان پر تشدد کرکے گھر سے نکال دیا ہے اور اب ان کے پاس رہنے کو کوئی ٹھکانہ نہیں ہے اس لیے وہ داتا دربار پر ہی رہتی ہیں۔

ان کا کہنا تھا ’میں کئی مرتبہ پناہ گاہ گئی ہوں لیکن انتظامیہ ہر مرتبہ یہ کہہ کر مجھے رکھنے سے انکار کر دیتی ہے کہ ہمارے پاس جگہ نہیں ہے۔‘

انھوں نے مزید کہا ’اس سخت سردی میں باہر رہنا بہت مشکل ہے ایسی پناہ گاہ سے بہتر فٹ پاتھ ہے جہاں لوگ آتے جاتے کھانا بھی دے جاتے ہیں اور سردی سے بچنے کے لیے کمبل بھی۔‘

ہم نے اس بات کی تصدیق کے لیے پناہ گاہ انچارج عارف سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا ’اس بات میں صداقت ہے کہ ہم خواتین کو نہیں رکھ رہے۔ جس کی وجہ پناہ گاہ میں کسی ایک بھی خاتون سٹاف کا نہ ہونا ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا ’خاتون سیکورٹی گارڈ اور وارڈن کے بغیر کسی بھی خاتون کو رکھنا مناسب نہیں ہے کیونکہ ان کی حفاظت اولین ترجیح ہے اور اس کے علاوہ کئی ایسے مسائل ہوتے ہیں جو خواتین مرد سٹاف سے شئیر نہیں کر سکتی ہیں۔‘

سیکرٹری سوشل ویلفئیر زاہد سلیم گوندل نے اس حوالے سے بات کرتے ہوئے بتایا ’ابھی تک خاتون سٹاف کی بھرتیاں چند وجوہات کی بنا پر تاخیر کا شکار ہیں جس کی وجہ سے یہ مسائل ہیں تاہم ہم نے اپنے آفس سے ایک ایک فیل میل سٹاف پناہگاہوں میں عارضی طور پر تعینات کر دی ہیں۔‘

دوسری جانب پناہ گاہوں کے عملے کے مطابق عارضی طور تعینات کی جانے والی خواتین سراپا احتجاج ہیں۔

سردی کے باعث پناہ گاہوں کی پالیسی میں عارضی تبدیل

سیکرٹری سوشل ولفئیر زاہد سلیم گوندل کا کہنا تھا ’پناہ گاہ میں رہنے کے لیے قومی شناختی کارڈ کا ہونا ضروری ہے تاہم پناہ گاہ کا مطلب یہ تھا کہ مستحق افراد جو لاہور شہر میں کسی کام سے آتے ہیں اور ان کے پاس اگر رہنے کی جگہ نہیں ہے تو ان کو یہ جگہ فراہم کی جائے۔ لیکن اب اس پالیسی میں یہ تبدیلی لائی گئی ہے کہ سردی میں موجود ہر شخص کو یہاں رہنے کی اجازت دی جائے گی چاہے اس کا تعلق لاہور شہر ہی سے کیوں نہ ہو۔‘

انچارج پناہ گاہ ریلوے اسٹیشن کا کہنا یھا ’ہم نے زیادہ سے زیادہ لوگ پناہ گاہ میں رکھنے کے لیے زمین پر گدے بھی ڈالے ہیں اس کے علاوہ ہمارے پاس ڈبل ڈیکر بیڈ بھی موجود ہیں جس کے بعد یہاں تقریبا 216 افراد کی گنجائش بنا دی گئی ہے۔ تاہم دو دن سے شیلٹر ہوم کی گاڑی شہر میں روزانہ جاتی ہے تاکہ ہم بے گھر افراد کو یہاں لے کر آ سکیں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا ’کئی ایسے لوگ بھی ہیں جو ہمارے زور لگانے کے باوجود بھی باہر ہی رہ رہے ہیں ان میں ایک بڑی تعداد نشے کے آدی افراد اور مانگنے والوں کی ہے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32298 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp