آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کی مدتِ ملازمت میں توسیع: حکومت کی جانب سے سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد بھی اور اس کی مخالفت بھی


جنرل قمر جاوید باجوہ

وفاقی حکومت نے پاکستان کی بری فوج کے سربراہ قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے حوالے سے عدالت عظمیٰ کے 28 نومبر کے فیصلے پر حکم امتناع جاری کرنے کی درخواست کی ہے۔

نئی حکومتی درخواست آنے کے بعد عوامی حلقوں میں یہ بحث زور پکڑ گئی ہے کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے معاملے پر حکومت ایک ہی وقت میں دو متضاد اقدامات کیوں کر رہی ہے۔ ایک جانب سپریم کورٹ کے مشروط توسیع کے فیصلے کے خلاف نظر ثانی اور حکم امتناع کی درخواستیں دائر ہو چکی ہیں مگر دوسری جانب فیصلے کی روشنی میں قانون سازی کے لیے بھی تگ و دو ہو رہی ہے۔

جمعرات کو دائر ہونے والی درخواست کے ذریعے سپریم کورٹ سے استدعا کی گئی ہے کہ وہ اپنے ابتدائی فیصلے کو اس وقت تک معطل رکھنے کا حکم دے جب تک حکومت کی جانب سے اسی حوالے سے کی جانے والی حکومتی نظر ثانی اپیل پر فیصلہ نہیں آ جاتا۔

یہ بھی پڑھیے

جنرل قمر جاوید باجوہ ’کھلے ڈلے اور بے تکلف فوجی‘

آرمی چیف کی مدتِ ملازمت:فیصلے پر نظرثانی کی اپیل

آرمی چیف کے عہدے کی دوڑ سے کون کون باہر ہوا؟

’چھ ماہ میں قانون سازی نہ ہوئی تو فوج کا نیا سربراہ آئے گا‘

یاد رہے کہ 28 نومبر سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے آرمی چیف جنرل قمر باجوہ کی مدت ملازمت میں چھ ماہ کی توسیع کی منظوری دیتے ہوئے حکومت کو حکم دیا تھا کہ وہ آرمی چیف کی توسیع یا دوبارہ تقرری کے حوالے سے پارلیمان کے ذریعے قانون سازی کرے۔

اس فیصلے کے خلاف وفاقی حکومت نے 26 دسمبر کو نظر ثانی کی اپیل دائر کرتے ہوئے سپریم کورٹ سے استدعا کی تھی کہ وہ اپنے 26 نومبر کے فیصلے کو کالعدم قرار دے کیونکہ اس میں اہم آئینی اور قانونی نکات کو مدِنظر نہیں رکھا گیا۔

دوسری جانب وفاقی حکومت سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں اس حوالے سے قانون سازی کے لیے کوششوں میں بھی مصروف ہے اور بدھ کے روز وفاقی کابینہ نے آرمی چیف کی مدتِ ملازمت میں توسیع سے متعلق آرمی ایکٹ 1952 میں ترامیم کے مسودے کی منظوری بھی دی تھی۔

سپریم کورٹ

سپریم کورٹ سے استدعا کی گئی ہے کہ وہ اپنے ابتدائی فیصلے کو اس وقت تک معطل رکھنے کا حکم دے جب تک حکومت کی نظر ثانی اپیل پر فیصلہ نہیں آ جاتا

امید کی جا رہی ہے کہ پارلیمان میں حزب اختلاف کی جماعتوں سے مشاورت مکمل کرنے کے بعد حکومت اس حوالے سے مسودہ قانون کل (جمعہ) پارلیمان کی منظوری کے لیے پیش کرے گی۔

حکومتی کی قانونی ٹیم کے ایک رکن نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ درحقیقت حکومت کو حکم امتناع کی درخواست اسی وقت کر دینی چاہیے تھی جس روز نظر ثانی کی اپیل دائر کی گئی تھی۔ ’نظر ثانی کی اپیل دائر کرتے وقت عموماً خلاف آنے والے فیصلے پر حکم امتناع کی درخواست بھی جمع کروائی جاتی ہے۔ حکم امتناع کی درخواست کرنا کوئی بڑی یا انہونی بات نہیں ہے بلکہ روٹین کی کارروائی ہے۔‘

حکومت کی اس معاملے پر حکمت عملی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے سینیئر صحافی اور تجزیہ کار ضیاالدین کا کہنا ہے کہ اس بات کا امکان ہو سکتا ہے کہ حکومت کے قانونی مشیران کی رائے اس معاملے پر منقسم یا ایک دوسرے سے مختلف ہو سکتی ہے۔

’ایک ہی وقت میں مخالف سمت میں الگ الگ کوشش کرنے کی حکومتی پالیسی سے لگتا ہے کہ قانونی ٹیم کے بڑوں میں ذہنی ہم آہنگی نہیں ہے۔ شاید بڑی وجہ یہ ہو کہ ایک ہی معاملے پر الگ الگ قانونی رائے مل رہی ہے اور فیصلے ہو رہے ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ شاید حکومت کے ذہن میں یہ بات بھی ہو کہ نظر ثانی کی اپیل پر عدالتی کارروائی اور فیصلہ اتنا طویل عرصے پر محیط نہ ہو جائے کہ فیصلہ خلاف آنے کی صورت میں قانون سازی مکمل کرنے کے عمل کا وقت ہی نہ بچے اور چھ ماہ ایسے ہی گزر جائیں۔

’حکومت کے ذہن میں یہ بھی ہو سکتا ہے کہ قانون سازی کے لیے زیادہ وقت درکار ہو سکتا ہے کیونکہ حزب اختلاف کی جماعتیں مطلوبہ قانون سازی کو سینیٹ میں اپنی اکثریت کے بل پر مسترد نہیں تو تاخیر کا شکار ضرور کر سکتی ہیں۔‘

ضیا الدین نے کہا کہ ان کے مطابق حزب اختلاف کی جماعتیں اس قانون سازی کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنیں گی اور بغیر کوئی رخنہ ڈالے اسے باآسانی پارلیمان سے منظور کروا دیں گی۔ ’اس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ اپوزیشن فوج سے پنگا بالکل نہیں لینا چاہے گی۔‘

فروغ نسیم

’ایک ہی وقت میں مخالف سمت میں الگ الگ کوشش کرنے کی حکومتی پالیسی سے لگتا ہے کہ قانونی ٹیم کے بڑوں میں ذہنی ہم آہنگی نہیں ہے‘ (فائل فوٹو)

پاکستان تحریک انصاف کے رہنما سینیٹر فیصل جاوید نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ دونوں جانب بیک وقت کوشش کرنے کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ قانونی ٹیم یا پارٹی کی رائے اس حوالے سے منقسم ہے۔

’جہاں تک قانون سازی کی بات ہے اس کے احکامات سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں حکومت کو دیے ہیں۔ قانون سازی کا عمل اس لیے شروع کر دیا ہے کیونکہ سپریم کورٹ کا فیصلہ ’ٹائم باؤنڈ‘ ہے اور ایک مقررہ وقت میں یہ کام مکمل کرنا ضروری ہے۔ اگر ہم نہیں کرتے تو یہ توہین عدالت کے زمرے میں آ سکتی ہے۔‘

فیصل جاوید کا کہنا تھا کہ نظر ثانی کی درخواست پر شنوائی کب شروع ہوتی ہے اور فیصلہ کب آتا یہ کسی کو معلوم نہیں ہے۔ ’اس بات کے پیشِ نظر ہم نے دونوں کام، نظر ثانی کی اپیل اور قانون سازی کا کام شروع کر دیا ہے تاکہ حکومتی حکم نامے کی حکم عدولی بھی نہ ہو اور کام بھی جاری رہے۔‘

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ قانونی ماہرین اس حکومتی تدبیر کی تعریف یہ کہتے ہوئے کر رہے ہیں کہ حکومت نے نظر ثانی کی اپیل بھی فائل کی ہے مگر وقت کے مطابق اس پر عمل بھی کیا جا رہا ہے۔

انھوں نے کہا اگر یہ فیصلہ ’ٹائم باؤنڈ‘ نہ ہوتے تو شاید ہم آرام سے بیٹھ کر نظر ثانی کی اپیل پر فیصلہ آنے کا انتظار کرتے مگر ایسا نہیں اسی لیے قانون سازی کے آپشن پر بھی کام شروع کر دیا گیا ہے۔

فیصل جاوید کا کہنا تھا کہ ’نظر ثانی کی اپیل پر کچھ بھی فیصلہ آ سکتا ہے اور اس بات کو بھی مدنظر رکھا جا رہا ہے۔‘ انھوں نے کہا کہ اس معاملے پر پارٹی، وفاقی کابینہ اور قانونی ٹیم میں مکمل ہم آہنگی اور اتفاق ہے۔

بعد ازاں اسلام آباد میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان کا کہنا تھا کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا معاملہ قومی سلامتی اور دفاع سے جڑے معاملہ ہے جسے سیاست سے پاک رکھنا چاہیے اور پاکستان میں ایسے معاملات کو سیاست زدہ کرنے کا عمل ختم ہونا چاہیے۔

انھوں نے کہا کہ اس معاملے کو پارلیمان میں لایا گیا ہے اور پارلیمان اپنا آئینی اور قانونی حق استعمال کرتے ہوئے اس معاملے کو ہمیشہ کے لیے سیٹل کر دے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32540 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp