جنسی تشدد اور آزادیٔ صحافت، دو الگ الگ معاملات ہیں!


پاکستان کے باصلاحیت فلم ساز جامی آزاد نے ملک کے سب سے طاقت ور میڈیا ہاؤس کے مالک پر سنگین الزام عائد کرتے ہوئے بظاہر اپنا کیریئر داؤ پر لگادیا ہے۔

جامی 1998 ء میں امریکہ سے فلم سازی میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد وطن واپس لوٹے۔ مستقبل پر نظریں جمائے نوخیزتخلیق کارکوایک ’میڈیا ٹائیکون‘ کی عقابی نظروں نے بھانپا تو نوجوان جامی کو بہت جلد اس با اثر شخص کی قربت دستیاب ہو گئی۔ ایک معروف عالمی ویب سائٹ کے مطابق کچھ ہی سالوں میں جامی آزاد نے پاکستان میں فلم سازی کے منظر نامہ کوبدل کر رکھ دیا۔ بڑے بڑے فنکار ان کی میوزک ویڈیوز میں شامل اور ملٹی نیشنل کمپنیاں ان سے کمرشل اشتہارات بنوانے کے لئے بے چین نظر آنے لگے۔ آزاد فلم کمپنی کے بینر تلے جامی نے متعدد فلمیں بھی بنائیں جن میں ’Moor‘ اُن مٹھی بھر پاکستانی فلموں میں سے ایک ہے کہ جنہیں آسکر ایوارڈ زکے لئے نامزد کیا گیا ہو۔

اکتوبر 2017 ء میں ایک طاقتور ہالی ووڈ فلمساز پر عائد کیے گئے جنسی ہراسانی و جبری زیادتی کے الزاما ت کے نتیجے میں ’می ٹو‘ (#Metoo) کے ہیش ٹیگ سے ایک تحریک کا آغاز ہوا کہ جس میں اس شوبز ٹائیکون کے ہاتھوں جنسی ہراسانی کا شکار ہونے والی خواتین نے یکے بعد دیگرے منظرعام پر آتے ہوئے اپنے ساتھ ماضی میں بیتے بھیانک واقعات کو طشت از بام کرنا شروع کیا۔ کیے گئے انکشافات کے مطابق مذکورہ بالا طاقت ور فلم پروڈیوسر، متاثرہ خواتین کو اپنے ہوٹل کے کمرے میں بلاتا کہ جہاں پلکوں پر خواب سجائے نوخیز خواتین خود کو ایک دوراہے پر کھڑا پاتیں۔

جنسی زیادتی کا شکار ہونے والوں میں اکثریت ان خواتین کی ہے جو اس دور میں تواپنے پیشہ ورانہ کیریئر کے ابتدائی سالوں اورجدوجہد کے مراحل میں تھیں، مگر آج عالمی شہرت کی حامل اور شوبزکے آسمان پر درخشاں ستاروں کی مانند چمکتی ہیں۔ انہی میں سے کئی ایک نے بالآخراپنی شہرت اور وقار کو داؤ پر لگا کر اپنے سینوں میں دبے زخموں کو کھرچ کھرچ کر اپنے شکاری کا مکروہ چہرہ بے نقاب کرنے کی ٹھانی۔ کچھ ہی عرصے میں ’می ٹو‘ کے اس طوفان نے گویا دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ کئی کامیاب افراد نے اپنے اپنے دل چاک کیے اور کئی مہان بت بلندیوں سے گر کر پاش پاش ہوئے۔

پاکستان میں فلم ساز جامی ان چند معروف شخصیات میں سے ہیں کہ جو جنسِ مخالف سے تعلق رکھنے کے باوجود ”می ٹو“ ہیش ٹیگ کے تحت جنسی ہراسانی کا شکار ہونے والی خواتین کے ساتھ کھڑے نظر آئے۔ چنانچہ فروری 2019 ء میں جب گلوکارہ میشاشفیع نے اپنے ساتھی فنکار علی ظفر پر جنسی ہراسانی کا الزام عائد کیا تو الزامات کی صداقت سے قطع نظرجامی آزاد ان کے پرجوش حامی کے طور پر سامنے آئے۔

اکتوبر 2019 ء میں جامی نے می ٹو ہیش ٹیگ کے مخالفین کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے ایک ٹویٹ کے ذریعے ایسے عناصرکے بے حد طاقت ور ہونے کا اظہار کیا۔ یکے بعد دیگرے ٹویٹس کے اس سلسلے میں جامی نے بالآخر لرزا دینے والا انکشاف کیا کہ 13 سال قبل وہ خود بھی ’میڈیا سے متعلق ایک طاقتور شخص‘ کی جانب سے کی گئی جبری جنسی زیادتی کا شکار ہوئے تھے۔ بظاہرشدید کرب کے عالم میں کیے گئے اس اعتراف کے باوجود جامی اس ’طاقتور شخص‘ کے چہرے سے نقاب سرکانے کا حوصلہ پیدا نہ کر سکے۔ جامی کو جہاں اس شخص کے طاقتور ہونے کا ادراک تھا تو وہیں یہ خدشہ بھی تھا کہ ان کے اپنے احباب بھی شایدان کی اس بات پر اعتبار نہیں کریں گے۔

’می ٹو‘ تحریک اب تک زیادتی کا شکار ہونے والی خواتین کے گرد گھوم رہی تھی۔ کسی مرد کی طرف سے مظلومیت کا ایسا دعویٰ یقیناً چونکا دینے والا معاملہ تھا۔ آخرایک مرد، دوسرے تنومند مرد کو جبری جنسیت یا ’ریپ‘ کا شکار کیسے بناسکتا ہے؟ اگرچہ طاقت کی مختلف جہتوں کا ادراک ہوتو اس سوال کے جواب کا حصول ناممکن نہیں۔

حال ہی میں جامی نے بہرحال خود کو مبینہ جبری جنسیت کا شکار بنانے والے ’طاقتور شخص‘ کا نام لے ہی لیا ہے۔

ڈان اخبار کے موجودہ سی ای او، حمید ہارون صاحب کو وہ اخبار وراثت میں ملا کہ جس کا اجراء خود بانی پاکستان نے اپنے ایک مخلص ساتھی کی رفاقت میں کیا۔ اخبارنے اپنی حیثیت منوائی۔ اگرچہ میری یہ سوچی سمجھی رائے ہے کہ حالیہ سالوں کے دوران حمید ہارون صاحب کی قیادت میں اخبار اپنی معروف و متوازن ایڈیٹوریل پالیسی سے ہٹ کر بظاہر ہر اس ادارے، پارٹی، گروہ یا فرد کے ساتھ کھڑا نظر آتا ہے کہ جو کسی بھی وجہ سے سکیورٹی اداروں سے مخاصمت رکھتا ہو۔ تاہم یہ اخبار کے ایک قدیم قاری کا تاثر ہے کہ جس سے بہرحال اختلاف ممکن ہے۔

یوں تو میں عشروں سے ڈان کا باقاعدگی سے خریدار ہوں کہ جس کے حصول میں ما سوائے دور دراز علاقوں کے، کبھی دشواری پیش نہیں آئی۔ تاہم جناب حمید ہارون گزشتہ کچھ سالوں سے تسلسل کے ساتھ سیکیورٹی اداروں پر پرچے کی ترسیل میں رکاوٹ ڈالنے کا الزام دھرتے چلے آ رہے ہیں۔ یقیناً ان کے پاس کچھ معلومات ہوں گی کہ جن سے میں بے خبر ہوں۔ یوں بھی ’ڈان‘ کے اس الزام کا جواب متعلقہ ادارے ہی دے سکتے ہیں۔ تاہم اندریں حالات ذاتی وضاحت قرینِ انصاف سمجھتا ہوں۔ سال 2012 ء سے 2014 ء کے درمیان کوئٹہ اور سال 2014 سے لے کر 2017 ء تک جی ایچ کیو میں تعیناتی کے دوران مجھے میرے دفتر اور گھر پر ڈان کی کاپی بلا کسی روک ٹوک کے موصول ہوتی رہی ہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد گزشتہ ڈھائی سال سے میں ایک خالصتاً عسکری کالونی میں رہائش پذیر ہوں اور کسی ایک دن بھی میرے ہاکر نے اس بناء پر مجھے اخبار کی ترسیل سے معذوری ظاہر نہیں کی کہ اسے کسی قدغن کا سامنا رہا ہو۔

دنیا میں کئی معروف شخصیات ہیں کہ جو ہمہ وقت ایک سے بڑھ کر ایک دلکش پری چہرہ کی دستیابی کے باوجود ہم جنس پرستی کو ترجیح دینے کے لئے جانی جاتی ہیں۔ ایسی ہی کئی ایک طاقتور و نامور شخصیات کے ہاتھوں، جدوجہد کے ابتدائی دور میں ہاتھ پاؤں مارتے مرد وزن کا معاشی، معاشرتی اور جنسی استحصال بھی کوئی اچھنبے کی بات نہیں۔ لہٰذا میرے لئے جامی کے الزامات کی ہرگز کوئی اہمیت نہ ہوتی اگر اس میں حمید ہارون صاحب کا ذکر نہ ہوتا کہ وہ ایک ایسے اخبار کے مالک ہیں کہ جو اعلی انسانی اقدار، طاقتوروں کے احتساب اور انسانی حقوق کا علمبردار ہے۔ میں اس موضوع پر قطعاً لکھنے میں وقت صرف نہ کرتا کہ اگر حمید ہارون صاحب اپنے خلاف جامی آزاد کے عائد کردہ الزام کوبعض ’ریاستی اور معاشرتی حلقوں‘ کی ’سازش‘ قرار دے کر حقارت سے مسترد نہ کر دیتے۔

حمید ہارون صاحب کے مطابق اس ’سازش‘ کا مقصد ان کے اخبار اور بالآخر آزادی صحافت کا گلا گھوٹنا ہے۔ لندن برج دھماکے میں ملوث برطانوی نژاد ملزم کا تعلق بلا تاخیرپاکستان سے جوڑنے کے خلاف ڈان اخبار کے دفتر کے سامنے جو مظاہرہ کیا گیا، حمید ہارون اس مظاہرے کا تعلق بھی جامی آزاد کے ٹویٹ سے جوڑتے ہیں۔ یہ سوال کہ جامی آزاد کے پائے کا تخلیق کاراپنے پورے کیرئیر کو داؤ پر لگا تے ہوئے اس ’گہری سازش‘ کا حصہ کیوں کر اور کس قیمت پر بنا، بہرحال اس کا جواب خود جامی صاحب ہی دے سکتے ہیں۔

آج بھی مجھے جامی آزاد کے الزام کی صداقت سے متعلق کوئی دلچسپی نہیں۔ مجھے اس امرکے قوی امکان سے بھی کوئی سروکار نہیں کہ یہ معاملہ وقت کی سرد تہوں کے نیچے دب کر رہ جائے گا۔ میں یہ جاننے کے لئے بھی متجسس نہیں ہوں کہ اب جامی آزاد کے تخلیقی کیرئیر کا کیا ہو گا۔ تاہم ان سطور کے قلم بند کرنے کے پیچھے میرا بنیادی مقصد، ڈان اخبار کے ایک پرانے قاری کی حیثیت سے حمید ہارون صاحب سے محض یہ التجا کرنا ہے کہ اگر ہو سکے تو مذکورہ معاملے سے آزادی صحافت اور اپنی ذات کو الگ الگ رکھتے ہوئے نبردآزما ہونے کی کوشش فرمائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments