شہریت کا قانون: انڈین نوجوان شہریت کے قانون کے خلاف کیسے مزاحمت کر رہے ہیں


احتجاج

Farhan Khan
ندیم اختر اور آمینہ ذکیہ اپنی شادی کے موقع پر شہریت کے قانون کے خلاف اپنا احتجاج ریکارڈ کراتے ہوئے

حالیہ ہفتوں میں ہزاروں مظاہرین نے نئے متعارف کرائے گئے شہریت کے متنازع قانون کے خلاف انڈیا کے مختلف شہروں میں مظاہرے کیے ہیں۔

اگرچہ قانون ساز کہتے ہیں کہ یہ انڈیا کے ہمسایہ ممالک سے آنے والی ستائی ہوئی مذہبی اقلیتوں کی مدد کے لیے بنایا گیا ہے لیکن اس میں مسلمانوں کو شامل نہ کرنے سے اس کے خلاف شدید ردِ عمل سامنے آیا ہے۔

ابھی تک ہونے والے مظاہروں میں 20 سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور مختلف علاقوں میں پولیس کی مظاہرین پر بربریت کی ویڈیوز بھی وائرل ہو گئی ہیں جس کی وجہ سے پورے ملک میں غم و غصہ پایا جاتا ہے۔

لیکن ملک کے مختلف حصوں میں پابندیوں اور انٹرنیٹ شٹ ڈاؤن کے باجود ہجوم پھر بھی جمع ہوتے ہیں۔

اس کی ایک وجہ رضا کاروں کی وہ فوج ہے جو پیچھے رہ کر اس تحریک کی حمایت کر رہی ہے۔ وہ ڈاکٹر، وکلا، فزیوتھراپسٹ اور آن لائن ایکٹیویسٹ ہیں۔

دلی کی ایک نوجوان تھراپسٹ نیہا تریپاتھی کہتی ہیں کہ ’ہم سب سڑکوں پر نہیں آ سکتے۔‘ نیہا مظاہرین کو مفت مدد فراہم کرتی ہیں۔

پوسٹر

Pearl D’Souza
ڈیزائنز اور آرٹسٹز پوسٹرز کے لیے تخلیقی مدد فراہم کرتے ہیں۔ یہ ان میں سے ایک پوسٹر ہے

انھوں نے اپنا ای میل ایڈرس اپنے انسٹاگرام پر ڈالنے کا فیصلہ کیا تاکہ وہ پریشان لوگوں کو مدد فراہم کر سکیں۔ وہ کہتی ہیں کہ یہ اپنا حصہ ڈالنے کا ان کا اپنا طریقہ ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’میں نے مظاہروں میں حصہ لینے کی کوشش کی لیکن سچ بتاؤں تو وہ بہت ڈراؤنا (تجربہ) تھا۔ میں بس ہر اس شخص کی مدد کرنا چاہتی ہوں جو اس خوف اور پریشانی سے گزر رہا ہے۔‘

ذہنی اور جسمانی صحت میں مدد

نیہا کی طرح کئی دوسرے بھی اس نئے قانون کے خلاف جدوجہد میں بغیر سڑکوں پہ آئے شریک ہو رہے ہیں۔

دلی میں مقیم انجلی سنگلا ایک سائیکوتھراپسٹ ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’میں مختلف شہروں سے ہو کر آئی ہوں اس لیے میں مظاہروں میں حصہ نہیں لے سکی۔ لیکن میں فون پر بہت سے لوگوں سے بات کر کے مدد فراہم کرتی رہی ہوں اور اپنی دیکھ بھال کی ضرورت پر زور دیتی رہی ہوں۔

احتجاج

Sangeetha Alwar
مس الوار بدامنی کے دور میں ذہنی صحت کی اہمیت پر زور دیتی ہیں

انسٹاگرام پر بہت خوبصورت خاکوں میں خود کی دیکھ بھال کے مشورے دیے گئے ہیں۔ ان میں سے ایک سنگیتھا الوار نے ڈیزاین کیا ہے جس میں بدامنی کے دنوں میں ذہنی صحت کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے۔

سنگیتھا کہتی ہیں کہ جب مظاہرے شروع ہوئے تو وہ کافی فکر مند تھیں اور انھیں لگا کہ ان میں مثبت طریقے سے اپنا حصہ ڈالنے کی ضرورت ہے۔ ان کی آرٹ میں بتایا گیا ہے کہ جب ایسا لگے کہ بہت ہو گیا ہے تو بریک لے لو۔ ان کی یہ سوچ بہت سے آن لائن یوزرز کی سوچ سے مطابقت رکھتی ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’اتنے بڑے قومی بحران کے سامنے کسی کی صحت پر بات کرنا ہو سکتا ہے کہ بہت ہی معمولی اور خود غرض لگے، لیکن یہ اہم ہے۔‘

کچھ ڈاکٹرز نے اس تحریک میں اپنے طریقے سے حصہ ڈالا ہے۔ وہ احتجاج کی جگہوں اور اپنے کلینکس میں مفت طبی مدد فراہم کر رہے ہیں۔

دلی میں مقیم ڈاکٹر احمد نے بی بی سی کو بتایا کہ کچھ مظاہروں کے دوران لوگوں نے اپنے آپ کو ایسے حالات میں پایا جہاں انھیں فوری طور پر طبی توجہ کی ضرورت تھی۔‘

’کمیونٹی کا ایک ممبر ہونے کی حیثیت سے جب بھی ضرورت پڑی میں نے بنیادی دیکھ بھال کی ذمہ داری سنبھال لی۔‘

اسی طرح کی لسٹ وکلا کی بھی ہے جو زیرِ حراست لوگوں کو مفت قانونی مشورے دیتے ہیں۔ ان میں سے کچھ آگہی کے لیے قانون اور اس کے اثرات کے متعلق آن لائن مواد بھی ڈال رہے ہیں۔

آرٹ کے ذریعے تحریک

قانون کی مخالفت کرنے والوں کے لیے انسٹاگرام ایک اہم آلہ بن گیا ہے۔

کئی اکاؤنٹ ملک میں مختلف حصوں میں ہونے والے مظاہروں کے متعلق اپ ڈیٹس فراہم کرنے کے علاوہ جسمانی حفاظت اور انٹرنیٹ شٹ ڈاؤن کے دوران منظم رہنے کی رہنمائی بھی دے رہے ہیں۔

کئی لوگ کچھ یونیورسٹیوں اور شمالی ریاست اترپردیش میں ہونے والی پولیس کی بربریت پر بھی روشنی ڈال رہے ہیں۔

پوسٹر

Shilo Shiv Suleman
اکثر پوسٹروں میں عورتوں کو سامنے رکھا گیا ہے

ڈیزائنرز نے بھی مظاہروں کے دوران استعمال کے لیے کاپی رائٹ فری پوسٹرز دیے ہیں۔

شلو شیو سلیمان جو کہ ایک ویژول آرٹسٹ ہیں اسی طرح کی ایک سیریز چلا رہے ہیں جس کا ٹائٹل ہے کہ ’ہم یہیں کے ہیں۔‘

ان میں سے ایک میں سب سے آگے ایک خاتون ہے اور اس پر لکھا ہے: ’مسلمانوں، آپ یہیں کے ہیں۔ آپ ہندو یہیں کے ہیں۔‘ اس کو ہزاروں لوگوں نے شیئر کیا اور اس کی پرنٹ کی ہوئی کاپیاں ملک کے مختلف حصوں میں مظاہروں میں لے جائے گئیں۔

شیلو کہتی ہیں کہ ان کا کام ہے کہ قومی خوف کے ان لمحات سے کوئی خوبصورت چیز بنانا۔ ’خوبصورتی خود ہی مزاحمت کی ایک طاقت بن جاتی ہے۔‘

کئی پوسٹر ان خواتین کی نمائندگی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جنھوں نے مختلف مظاہروں میں روایات کو چیلنج کیا ہے۔

ایک اور ویژول آرٹسٹ پرل ڈی سوزا کہتی ہیں کہ ’اس ملک میں خواتین پر ظلم و ستم کی ایک لمبی تاریخ ہے، ہماری آوازیں زیادہ تر اس پدر شاہی معاشرے میں دبا دی گئی ہیں لیکن اب اور نہیں۔‘

ایک گروپ نے گڈ مارننگ کی طرز کے واٹس ایپ پیغامات بھیجنے شروع کیے ہیں جس میں اس قانون کے خلاف نعرے لکھے ہوتے ہیں۔

وٹس ایپ پیغام

Instagram/@sodonechilling
گڈ مارننگ کی طرز کے وٹس ایپ پیغامات انڈینز میں بہت مقبول ہیں

اس کے خالق نے، جو اپنا نام نہیں بتانا چاہتے، بتایا کہ اس کا مقصد لوگوں میں شعور پیدا کرنا، اور تعصب، اسلاموفوبیا اور بے حسی کے خلاف کھڑے ہونا ہے جو ہمارے اپنے خاندانوں اور دوستوں میں بھی موجود ہے۔

’بے آوازوں کو آواز دینا‘

اختلافِ رائے اب شادیوں، گریجویشن کی تقاریب اور میوزک کنسرٹس تک پہنچ گیا ہے۔

ندیم اختر اور آمینہ ذکیہ کو دلی میں ان کے علاقے کے قریب ہی ہونے والے تشدد نے بہت متاثر کیا اور انھوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنی شادی میں شہریت میں ترمیم کے قانون کے مخالف پلے کارڈ اٹھا کر تصاویر بنائیں گے۔

دلہن کی بہن مریم ذکیہ نے بی بی سی کو بتایا کہ جامعہ یونیورسٹی میں پولیس اور طالب علموں کے درمیان پرتشدد جھڑپیں ان کی بہن کی شادی سے کچھ ہی دن پہلے ہوئی تھیں جنھوں نے ان کی خوشیوں پر پانی پھیر دیا۔

’ہمارا فوکس احتجاج کی طرف چلا گیا کیونکہ ہمیں انڈیا میں اپنے کثیر مدتی مستقبل کے متعلق زیادہ تشویش تھی۔‘

گریجویشن تقریب

Roumya Chandra
دیبسمیتا چوہدری نے اپنی گریجویشن کی تقریب میں شہریت کے ترمیم شدہ قانون کی کاپی پھاڑ دی

دیبسمیتا چوہدری نے، جو کہ جادوپور یونیورسٹی کی گولڈ میڈلسٹ ہیں، طلبہ اور اساتذہ کو اس وقت حیران کر دیا جب انھوں نے اپنی گریجویشن کی تقریب میں شہریت کے قانون کی کاپی سب کے سامنے پھاڑ دی۔

24 سالہ طالبہ نے کہا کہ انھوں ایک رات پہلے ہی ایسا کرنے کی ٹھان لی تھی لیکن انھوں نے اس کا ذکر کسی سے نہیں کیا۔

انھوں نے کہا کہ ’یہ قانون غیر آئینی اور انتہائی امتیازی سلوک پر مبنی ہے۔ اس کے بعد ہونے والے تشدد نے مجھے بہت پریشان کیا ہے۔ اگرچہ میں ایک شرمیلی لڑکی ہوں، لیکن پھر بھی مجھے ضروری لگا کہ میں بے آوازوں کے لیے آواز اٹھاؤں۔‘

جنوبی شہر چینئی میں لوگ ڈرائینگ کی ایک قدیم آرٹ ’کولام‘ کا استعمال کرتے ہوئے اپنے گھروں کے باہر مظاہرین سے یکجہتی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔

کولام ایک جیومیٹرک خط کی ڈرائنگ ہے جسے زمین پر چاولوں سے بنایا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ خوشحالی کی دیوی کو خوش آمدید کہنے اور نظر بد سے بچنے کے لیے بنائی جاتی ہے۔ لیکن حال ہی میں اس میں نئے قانون کے خلاف نعرے بھی لکھے ہوتے ہیں۔

ایسا کرنے پر کئی افراد پکڑے بھی جا چکے ہیں۔

لیکن اس کی مزاحمت اس لیے جاری ہے کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ قانون امتیازی ہے اور انڈیا کی 20 کروڑ مسلمان اقلیت کو پیچھے دکھیلنے کے ہندو قومی ایجنڈے کا ایک حصہ ہے۔

یہ احتجاج اب سڑکوں اور کیمپسس سے باہر نکل رہا ہے اور آہستہ آہستہ حکومت کو بھی اس کا احساس ہو رہا ہے۔

احتجاج

Grace Banu
لوگ مختلف طریقوں سے اس قانون کے خلاف اپنی ناراضی کا اظہار کر رہے ہیں

ان کے سوشل میڈیا فیڈز محتلف ویڈیوز پھیلا رہے ہیں، جن میں سے ایک میں اینیمیٹڈ مسلمان کردار ہیں جو نئے قانون کے خلاف ’فرضی‘ باتوں کو سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ اس بات پر ختم ہوتی ہے کہ ’ملک صرف اس وقت ہی ترقی کر سکتا ہے جب اس میں امن اور بھائی چارہ ہو گا۔‘

لیکن ہر کوئی اس سے مطمئن نہیں۔

ایک حالیہ میوزک کنسرٹ کے دوران شہریت کے قانون کے خلاف مظاہرہ کرنے والے ادتیہ جوشی کہتے ہیں کہ ’ہمارے پاس یہ سہولت نہیں کہ ہم غیر سیاسی ہو جائیں۔‘

’ہر عمر کے گروہ کے لوگ اس جبر کے خلاف لڑ رہے ہیں اور ہم سب کو ہی کسی طرح اس کا حصہ ہونا چاہیئے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp