آرمی ایکٹ پر حکومت اپوزیشن اتحاد: جمہوری جدوجہد کا سیاہ باب


تحریک انصاف کی حکومت نئے پاکستان میں پرانے پاکستان کی اینٹوں کے ساتھ ایک ایسی عمارت تعمیر کرنے کا کارنامہ سرانجام دے رہی ہے جس کے بعد فوج کے تسلط کو جمہوریت اور آرمی چیف کی مرضی و منشا کو قومی مفاد قرار دینا ہی دراصل حب الوطنی اور جمہوریت کی سرفرازی کہا جائے گا۔ یہ فرمان پارلیمنٹ سے منظوری کے بعد پاکستانی عوام کا مقدر کہلائے گا۔ سوال تو صرف اتنا ہے کہ جوتوں میں دال بانٹتی اور ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالتی سیاسی پارٹیوں کی مبلغ جمہوری استعداد، اگر صرف ایک آرمی چیف کی توسیع کے سوال پر سربسجود ہونا ہی ہے تو یہ لوگ، عوام کے حقوق اور ان کی آزادی کی بات کس منہ سے کر سکتے ہیں۔

جمعہ کو آرمی ایکٹ میں جو ترمیم کی جائے گی وہ وزیر اعظم کے اختیار، سپریم کورٹ کا اپنی ’حدود سے تجاوز‘ یا پارلیمنٹ کی بالادستی کا معاملہ نہیں ہے۔ حکمران جماعت کا ’معتوب‘ اپوزیشن پارٹیوں کے ساتھ مل کر اتفاق رائے سے آرمی ایکٹ میں ترمیم کرنے کا مقصد صرف یہ ہوگا کہ فوج صرف اسی وقت ’بااختیار‘ نہیں ہوتی جب اس کا کوئی جرنیل زمام حکومت اپنے ہاتھ میں لے کر خود اپنے آپ کو ہی توسیع پر توسیع دے کر قوم پر احسان عظیم کرنے کا کارنامہ سرانجام دیتا ہے۔ ملک میں اگر سیاسی و جمہوری حکومت بھی کام کر رہی ہو اور پارلیمنٹ میں ایسی اپوزیشن جماعتیں موجود ہوں جو اس حکومت کو ’سیلیکٹڈ‘ اور دھاندلی شدہ انتخاب کی پیداوار کہنے پر اصرار کرتی ہوں۔ اس صورت میں بھی کوئی شمشیر بردار اگر اپنے کسی نامکمل خواب کی تعبیر یا ذاتی خواہش کی تکمیل کے لئے مقررہ مدت سے زیادہ فوج کی کمان اپنے ہاتھ میں رکھنے کی ضرورت محسوس کرے گا تو ملک کی سب سیاسی جماعتیں سر کے بل اس خواہش کو پورا کرنے پر آمادہ ہوں گی۔ ملک کی تمام بڑی سیاسی پارٹیوں نے گزشتہ چوبیس گھنٹے کے دوران قومی مفاد، سیاسی ہم آہنگی یا قوم کو انتشار سے بچانے کے ’مقدس‘ فریضہ کی انجام دہی کے نام پر عوامی مفادات کے خلاف جو گٹھ جوڑ کیا ہے، وہ اس ملک کی جمہوری جد و جہد میں سیاہ باب کے طور پر لکھا اور پڑھا جائے گا۔

یہ دعویٰ کرنا کہ معاملہ صرف ایک فرد کے عہدے کی مدت میں توسیع کا تھا یا یہ کہ فوج کے بارے میں فیصلے کرتے ہوئے پارٹی سیاسی مفادات کو بالائے طاق رکھ دینا چاہئے، دراصل خود کو دھوکہ دینے اور عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش ہے۔ اس وقت ملک میں جمہوری اختیار اور پارلیمنٹ کی خود مختاری کا معاملہ دراصل بنیادی حیثیت و اہمیت رکھتا ہے۔ مسلم لیگ نے ’ووٹ کو عزت دو‘ کے نعرے کے ذریعے وقت کی اس ضرورت کو نمایاں کیا اور پیپلز پارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری ’سیلکٹڈ ‘ وزیر اعظم کا الزام لگاتے ہوئے یہ بتانے کی کوشش کرتے رہے ہیں کہ معاملہ عمران خان کے طرز عمل یا تحریک انصاف حکومت کے نا مناسب فیصلوں اور ناکامیوں سے زیادہ جمہوری اختیار پر عسکری تسلط کی بابت ہے۔ صد افسوس جب ان دعوؤں کے امتحان کا وقت آیا تو مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی سچائی کی ایک آنچ کا مقابلہ کرنے کا حوصلہ بھی نہ کرسکیں۔ آرمی ایکٹ میں ترمیم منظور کرنے کی ’سازش‘ میں شامل ہونے کے بعد یہ دونوں بڑی پارٹیاں یہ کہنے کی جرات نہیں کرسکتیں کہ وہ خود تحریک انصاف سے زیادہ عوام دوست ہیں یا ان کے جذبات کی ترجمان ہیں۔ تینوں بڑی پارٹیوں نے عوامی حکمرانی کی جنگ لڑنے سے پہلے ہارنے کا اعلان کیا ہے۔

جنرل قمر جاوید باجوہ کو توسیع دینے کا معاملہ ایک فرد کی صلاحیت یا ایک حکومتی شعبے کی ضرورت و اہمیت کی بابت نہیں ہے۔ کسی بھی صورت میں کوئی ایک فرد کسی شعبے یا ادارے کے لئے ناگزیر نہیں ہو سکتا۔ جنرل باجوہ کی صلاحیت یا ان کی شخصی خوبیاں اس وقت زیر بحث نہیں ہیں۔ یہ بھی موضوع بحث نہیں تھا کہ فوج کے قائد کا انتخاب کرتے ہوئے وزیر اعظم یا حکومت کو کن اصولوں کو پیش نظر رکھنا چاہئے۔ اس وقت اس اصول سے بحث مطلوب تھی کہ عمران خان کیوں جنرل باجوہ کو ہی مزید تین برس کے لئے آرمی چیف بنانا چاہتے تھے۔ اور یہ مقصد حاصل کرنے کے لئے کیوں گزشتہ دو ماہ سے فوج اور اس کے سربراہ کی پوزیشن کو ناپسندیدہ مباحث کا موضوع بنانا ضروری سمجھا گیا ہے۔ اگر ملک کی فوج کے سربراہ کی تقرری یا توسیع کا معاملہ اس قدر اہم قومی مسئلہ تھا تو پارلیمنٹ میں اس پر بحث کروانے اور فراخدلانہ ڈائیلاگ کے ذریعے عوام کو اعتماد میں لینے کا اہتمام کیوں نہیں کیا گیا۔

اپوزیشن جماعتوں نے جولائی 2018 کے انتخابات اور عمران خان کے وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد سے اس حکومت کو نامزد اور ناپسندیدہ قرار دینے کی مہم شروع کی ہوئی تھی۔ تحریک انصاف کی پے در پے سیاسی و انتظامی ناکامیوں اور معاشی کوتاہیوں کی وجہ سے بھی یہ واضح ہونا شروع ہوگیا تھا کہ ملک کی حکومت کسی ایک سیاسی ایجنڈا کے تحت کام نہیں کررہی بلکہ تضادات کا مجموعہ ہے۔ بعض اوقات تو یوں لگتا ہے کہ خود وزیر اعظم کو بھی معلوم نہیں ہوتا کہ کس پالیسی پر عمل کرنا ہے۔ وہ چابی سے چلنے والے ایک روبوٹ کی طرح کام کرتے ہیں۔ جب کہا گیا سعودی عرب روانہ ہوگئے اور جب ضرورت محسوس ہوئی تو عالمی لیڈروں سے کئے ہوئے وعدوں سے منحرف ہو گئے۔ کبھی وزیر اعظم اچانک دوروں پر روانہ ہوتا ہے اور اسے قومی مفاد قرار دیا جاتا ہے اور کبھی دوسرے ملکوں کے لیڈر اچانک پاکستان کو شرف میزبانی بخشتے ہیں اور اسے ہی پاکستانی عوام کا اعزاز اور مفاد کہا جاتا ہے۔ گزشتہ ہفتہ کے دوران سعودی وزیر خارجہ کا اچانک دورہ اور آج متحدہ عرب امارات کے ولی عہد کی پاکستان تشریف آوری کا معاملہ اس کی روشن مثالیں ہے۔

اب کسی کو اس بارے میں شبہ نہیں ہونا چاہئے تحریک انصاف نے بدعنوانی کے خاتمے اور بلا تخصیص احتساب کے جس ایجنڈے پر حکومت کا آغاز کیا تھا وہ ایک گھٹیا اور آزمودہ سیاسی ہتھکنڈے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔ قیام پاکستان کے بعد اور قائداعظم محمد علی جناح کی رحلت کے بعد سے غیر منتخب اسٹبلشمنٹ نے جب بھی ملک کا انتظام منتخب سیاسی نمائیندوں سے ہتھیانے کی منصوبہ بندی کی تو احتساب اور بدعنوانی کو ہی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا تھا۔ اسٹبلشمنٹ ہی دراصل ملک میں کرپشن کے فروغ اور احیا کا سبب بنی ہے۔

اس کا آغاز قیام پاکستان کے بعد متروکہ املاک کی لوٹ مار، ناجائز قبضوں اور الاٹمنٹ میں دھاندلیوں سے ہؤا تھا۔ اس کے بعد سماج کا ہر شعبہ آہستہ آہستہ قانونی طریقہ کار کی بجائے مفاد پرستی اور اقربا پروری کا شکار ہونا شروع ہو گیا۔ اب یہ زہر معاشرے میں اوپر سے نیچے تک سرایت کر چکا ہے۔ اسی لئے جب بھی کوئی بدعنوانی ختم کرنے کی بات کرتے ہوئے سیاست دانوں کو مطعون کرتا ہے تو واہ واہ کرنے والوں کا ایک گروہ اسے میسر آ جاتا ہے۔ اس شور وشغب میں کوئی یہ جاننے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا کہ کرپشن کیسے ختم کی جا سکتی ہے۔ چند افراد پر الزام دھرنے سے سیاسی بدنیتی کے کسی ایجنڈے کو تو پورا کیا جاسکتا ہے لیکن سماجی اصلاح کے کسی مؤثر پروگرام کو شروع نہیں کیا جا سکتا۔

اب تحریک انصاف، مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی جب ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر پارلیمنٹ پر عسکری بالادستی کے اصول کو قانونی حیثیت دیں گی تو یہ اس ملک میں سیاسی کرپشن کی بدترین مثال ہوگی۔ احتساب آرڈی ننس میں ترمیم کے ذریعے عمران خان ’بلا تخصیص احتساب‘ کے نعرے کو پہلے ہی دفن کر چکے ہیں۔ اب وہ خود اور ان کے معاونین تقریروں اور پریس کانفرنسوں میں نیب کو بے اختیار کرنے والے آرڈی ننس کو بہترین قومی مفاد کا نام دینے اور معاشی احیا کا واحد راستہ بتانے کا عذر تراش رہے ہیں۔ لیکن دراصل یہ فیصلہ بھی یہی واضح کرتا ہے کہ عمران خان کے نعرے جھوٹے تھے۔ ان کا زمینی حقائق سے کوئی تعلق تھا اور نہ ہی عمران خان کسی اصلاحی ایجنڈے کے ساتھ اقتدار کی جد و جہد کرتے رہے تھے۔ ان کا ایجنڈا بھی وہی تھا جو دوسری بڑی پارٹیوں کا رہا ہے کہ کسی بھی قیمت پر اقتدار تک رسائی حاصل کی جائے۔ اس کے لئے وہ عوام کے حقوق کا نعرہ بلند کرتے ہیں لیکن فوجی قیادت کی خوشامد کرتے ہوئے اس کی سرپرستی کے خواہاں ہوتے ہیں۔ اب یہ سارے مفاد پرست مل کر آرمی ایکٹ میں ترمیم کریں گے اور حسرت بھری امید کے ساتھ جنرل باجوہ کی طرف دیکھیں گے کہ ’لیجئے صاحب ہم نے حق نمک ادا کیا، اب آپ بھی ہمارے مفاد کا خیال رکھیں‘۔

پاکستان کو معاشی انحطاط، بنیادی سہولتوں کی عدم فراہمی، ماحولیاتی تباہ کاری، پانی کی قلت، آبادی میں اضافہ، انتہا پسندی، مذہبی منافرت، بھارتی جارحیت، عالمی سفارتی تنہائی اور دیگر سنگین مسائل کا سامنا ہے۔ ملک کے سارے چھوٹے صوبے سیاسی فیصلوں، معاشی ترجیحات، اور انتظامی اختیار پر پنجاب کے تسلط سے بیزار ہیں۔ لیکن ملک کی دونوں بڑی اپوزیشن جماعتیں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی، حکمران جماعت کے ساتھ مل کر فوج کے سربراہ کے عہدے کی مدت میں توسیع کو اہم ترین مسئلہ قرار دینے میں ایک قالب دو جان ہو رہی ہیں۔ ایک جمہوری ملک میں آرمی چیف کے عہدے کو ہی سب سے بڑا قومی مسئلہ بنانے والے دراصل عوام کو بالعموم اور چھوٹے صوبوں کے لوگوں کو بالخصوص مایوس کرنے کا سبب بنے ہیں۔

جمعہ 3 جنوری کا دن پاکستان میں جمہوری جد و جہد پر سنگین وار کی حیثیت اختیار کرنے والا ہے۔ اپوزیشن نے پارلیمانی بالادستی کی جنگ لڑنے کی بجائے ہتھیار پھینک کر عوامی خواہشات کا خون کیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2767 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments