برطانیہ کے ساحل: موسمِ سرما کی دل موہ لینے والی ڈرامائی خاموشی


فوٹوگرافر کوئنٹِن لیک برطانوی ساحلِ سمندر کے گرد چکر لگانے کی اپنی خواہش کو پورا کرنے کے بہت قریب ہیں۔

گذشتہ پانچ برس سے چلٹنھم کے رہائشی کوئنٹن چھوٹے چھوٹے حصوں میں پیدل سفر کر رہے ہیں۔ انھیں امید ہے کہ وہ اگلے موسمِ گرما تک اپنا سفر مکمل کر لیں گے۔

وہ راستے میں تصاویر کھینچتے ہیں اور ان تصاویر کے پرنٹ کو بیچ کر اپنے منصوبے کے اخراجات پورے کر رہے ہیں۔

ان کے مطابق ‘موسمِ سرما سال کا سب سے خوبصورت وقت ہے’۔

کوئنٹِن کہتے ہیں کہ سال کے اس وقت ان کا روزمرہ کا معمول کچھ یوں ہوتا ہے کہ وہ سورج طلوع ہونے سے پہلے چلنا شروع کرتے ہیں اور سورج ڈھلنے کے کچھ دیر بعد ہی رکتے ہیں تاکہ انھیں ‘سورج طلوع و غروب ہونے کے مناظر اور چاند ستاروں کو نکلتے دیکھنے کا موقع ملے۔’

وہ کہتے ہیں ‘ان واقعات کا خاموش ڈرامہ اس وقت بڑھ جاتا ہے جب ان کا عکس سمندر پر پڑتا ہے اور میں اکثر چاند کا لہروں پر گہرا اثر دیکھتا اور محسوس کرتا ہوں۔’

کوئنٹِن نے اپنا لمبا پیدل سفر سنہ 2015 میں لندن سے شروع کیا اور وہ امید کرتے ہیں کہ یہ سفر جون 2020 میں اپنے اختتام کو پہنچے گا۔

ان کے مطابق اس منصوبے کا مقصد فنکارانہ ہے۔

میں چاہتا ہوں کہ برطانوی لینڈ سکیپ کی پراسراریت اور خوبصورتی کو بہتر انداز میں سمجھوں اور اسے فوٹوگرافی کے ذریعے (لوگوں کو) دکھاؤں۔’

جب کوئنٹِن پیدل نہیں چل رہے ہوتے تو وہ چلٹِنھم میں اپنے گھر لوٹ کر بطور ’آرکیٹیکچرل فوٹوگرافر‘ کام کرتے ہیں۔

وہ ہر دن 25 سے 40 کلومیٹر پیدل چلتے ہیں اور تقریباً تین گھنٹوں تک تصاویر اتارتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے ‘میرے ساتھ کوئی ٹیم نہیں ہے اور سکاٹ لینڈ کا زیادہ تر ساحلی علاقہ سڑکوں اور دیگر سہولیات سے دور ہے تو میں اکثر کیمپنگ کرتا ہوں۔’

‘ٹینٹ کے ساتھ میں کھانا، ایندھن اور بیٹریاں بھی لے کر جاتا ہوں تاکہ پانچ دنوں تک کہیں رہ سکوں جس کی وجہ سے میرے کندھوں پر 20 کلوگرام وزن لدا ہوا ہوتا ہے۔’

وہ کہتے ہیں ‘میں فیری (کشتی) کے ذریعے سفر نہیں کرتا بلکہ پہلے پُل سے دریا پار کر لیتا ہوں۔’

‘انگلینڈ اور ویلز میں پیدل چلنے کے لیے راستے بنے ہوئے ہوتے ہیں لیکن سکاٹ لینڈ میں بات ہی الگ ہے۔ پیدل چلنے کے لیے راستے نہیں ہیں اور شمال مغرب کے پہاڑی علاقے ناہموار اور دور دراز ہیں۔’

وہ کوشش کرتے ہیں کہ محفوظ رہتے ہوئے ساحل سے جتنا ہو سکے، قریب رہیں۔

وہ ایک دو ماہ کے لیے گھر لوٹنے سے پہلے اکثر چھ ہفتوں تک پیدل چلتے ہیں۔

اب تک پیدل چلتے ہوئے انھیں دو بار چوٹ لگی ہے، ایک بار پاؤں کے پٹھے میں اور دوسری بار گھٹنے میں۔ دونوں مرتبہ انھیں صحت مند ہونے میں دو ماہ کا وقت لگا۔

وہ کہتے ہیں کہ سردیوں میں زیادہ فاصلے تک چلتے ہوئے ذہن کی توجہ مرکوز ہو جاتی ہے تو انھیں کافی اچھا لگتا ہے۔

‘چونکہ دن میں زیادہ وقت کے لیے روشنی نہیں ہوتی تو فاصلہ طے کرنے کے لیے طلوعِ آفتاب سے غروبِ آفتاب تک چلنا پڑتا ہے۔’

‘سردیوں میں سورج کی روشنی کی طاقت کم اور پھیلاؤ زیادہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے ہائی ٹونل رینج تصویر کشی کے لیے نایاب چیلینجز اور مواقع پیدا کرتی ہے۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32287 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp