کراچی: سینکڑوں پاکستانی ہندوؤں کی استھیاں ہریدوار جانے کی منتظر


استیاں

ڈاکٹر شریواستو چاولا کا خاندان گھر کے بڑے کمرے میں ان کی بھابھی آشا چاولہ کی بڑی سی پھولوں کے ہار سے سجی تصویر کے سامنے پرارتھنا (دعا) کے لیے جمع تھا۔

آشا کی اچانک موت نے پورے خاندان کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔

آشا کی جڑواں بیٹیوں سمیت چند اور بچے بھی وہاں موجود تھے۔ اہل خانہ نے دعا اور آرتی کی اور سب لوگ ادھر ادھر ہو گئے۔

یہ بھی پڑھیے

انڈیا کے میڈیکل ویزے پاکستانی مریضوں کی امید

اسلام آباد میں شمشان گھاٹ کے لیے زمین الاٹ

پشاور: ہندو مردے جلانے کے بجائے دفنانے لگے

استیاں

آشا چاولہ

ڈاکٹر شریواستو چاولا صوبہ سندھ کے ضلع کشمور سے تعلق رکھتے ہیں لیکن ان کا خاندان گذشتہ دو دہائیوں سے کراچی میں آباد ہے جہاں وہ ایک کامیاب کاروبار چلا رہے ہیں۔

ڈاکٹر شریواستو بتاتے ہیں ’پچھلے دو سالوں میں ہم نے تین بار ویزا کے لیے درخواست دی ہے لیکن انڈین حکام نے ہماری درخواست مسترد کردی‘

استیاں

ڈاکٹر شریواستو

یہ خاندان آشا کی آخری رسومات کے لیے ہریدوار کا سفر کرنا چاہتا ہے تاکہ اس کی روح کو سکون حاصل ہو تاہم ویزا کے مسائل کے باعث وہ ابھی تک ایسا نہیں کر پائے۔

ڈاکٹر شریواستو کہتے ہیں کہ انھیں ویزا مسترد کرنے کی کوئی وجہ نہیں بتائی گئی۔

استیاں

’ہم نے ویزا کی درخواست کے ساتھ ان کا ڈیتھ سرٹیفکیٹ بھی جمع کروایا اور انھیں بتایا کہ ہم ان کی راکھ انڈیا لے جانا چاہتے ہیں۔ ہم نے رسومات کروانے والے پنڈت کا تعارفی کارڈ بھی جمع کروایا تھا۔ لیکن انھوں نے ہمیں دوبارہ درخواست جمع کروانے کے لیے کہا۔‘

آشا چاولا کی طرح سینکڑوں پاکستانی ہندوؤں کی استھیاں گنگا جانے کے منتظر ہیں۔ آخری رسومات کے لیے انڈین ویزا کا حصول ہمیشہ سے ہی مشکل تھا لیکن پلوامہ واقعے نے اہل خانہ کے لیے اپنے پیاروں کی آخری خواہش کو پورا کرنا ناممکن بنا دیا ہے۔

ڈاکٹر شریواستو کے مطابق سینکڑوں ہندوؤں کی استھیاں پاکستان کے مختلف مندروں میں محفوظ ہیں۔

استیاں

کراچی کے شمشان گھاٹ سے چند میل دور محمد پرویز صفائی میں مصروف ہیں۔ وہ مسلمان ہیں لیکن ان کا خاندان کئی نسلوں سے اس جگہ کی دیکھ بھال کر رہا ہے۔

وہ ایک کمرے کا تالا کھول کر اندر داخل ہوئے۔ ان کے ہاتھوں میں لوبان کی لاٹھی تھی۔

استیاں

محمد پرویز

کمرے کے اندر چاروں طرف الماریاں بنی ہوئی تھیں اور ان شلفیوں پر کپڑوں میں لپٹے درجنوں چھوٹے چھوٹے برتن رکھے تھے جن پر نام اور تاریخیں درج تھیں۔

یہ ان ہندوؤں کی استھیاں ہیں جن کی آخری خواہش یہ تھی کہ ان کی راکھ کو گنگا میں بہایا جائے۔

پرویز نے الماریوں کو صاف کیا، لوبان والی لاٹھی جلا دی اور کچھ لمحوں کے لیے وہیں خاموشی سے کھڑے رہے۔

استیاں

پرویز کہتے ہیں ’ان دنوں ویزا حاصل کرنا بہت مشکل ہے، لوگ بہت پریشان ہیں اسی لیے وہ اپنے پیاروں کی استھیاں یہاں جمع کرا جاتے ہیں۔‘

تقریباً دو سو ہندوؤں کے خاندانوں کے پیاروں کی استھیاں یہاں اس امید پر رکھیں ہیں کہ وہ ایک دن ہریدوار پہنچ سکیں گی۔

پرویز کہتے ہیں ’ان میں سے چند لوگ پندرہ دن یا مہینے میں ایک بار آ جاتے ہیں۔ وہ مجھ سے درخواست کرتے ہیں کہ ہمارے پیاروں کی راکھ کا خیال رکھیں اور وعدہ کرتے ہیں کہ ویزا ملتے ہی وہ انھیں لے جائیں گے۔‘

استیاں

کراچی کے شمشان گھاٹ کا چیمبر جہاں راکھ کو ذخیرہ کیا جا رہا ہے، کچھ سال پہلے یہاں عارضی کمرے تھے۔

نگرانی کرنے والوں کا کہنا ہے کہ ماضی میں زیادہ بارشوں کے باعث کئی ہندوؤں کی استھیاں ضائع ہوگئیں۔

کارروباری شخصیت سنی گھنشیام کمیونٹی کارکن ہیں۔ وہ کہتے ہیں ’اپنے پیاروں کی آخری خواہش پوری کرنا پاکستانی ہندوؤں کا بنیادی حق ہے۔‘

استیاں

سنی گانشام

’مذہب سیاست اور تقسیم سے زیادہ اہم ہے اور مجھے لگتا ہے کہ آخری رسومات کے لیے ہندوؤں کے دریائے گنگا جانے میں کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہئے، یہ ان کا بنیادی مذہبی حق ہے جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔‘

استیاں

سنی گھنشیام اس معاملے کو انڈین ہائی کمشن تک لے جانا چاہتے ہیں۔

’میں انڈین ہائی کمیشن سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ پاکستانی ہندوؤں کے لیے ویزا کے عمل کو زیادہ آسان بنائیں، بلکہ اس مقصد کے لیے انھیں ایک علیحدہ ویزا کیٹیگری تشکیل دینی چاہیے۔‘

وہ کہتے ہیں ’جن ہندوؤں کے خاندان سرحد پار رہتے ہیں ان کے لیے یہ آسان ہے کیونکہ اس طرح ویزا ملنے کے امکانات بہتر ہوتے ہیں۔ پاکستانی ہندو بھی یاترا کے لیے ہندوستان جا سکتے ہیں۔‘

کوئی نہیں جانتا ہے کہ کتنے ہندوؤں کی راکھ ہریدوار جانے کی منتظر ہے۔ سنی گھنشیام کا ماننا ہے کہ یہ تعداد ہزاروں میں ہے۔

استیاں

انڈین ہائی کمیشن اس کی تردید کرتا ہے۔ بی بی سی کے ساتھ شیئر کیے گئے ایک بیان میں ان کا کہنا تھا ’انڈین ہائی کمشن ان افراد کے لیے ویزا درخواستوں کی فعال سہولت فراہم کرتا ہے جو اپنے خاندان کے افراد کی آخری رسومات ادا کرنے کے لیے ہریدوار کا سفر کرنا چاہتے ہیں۔‘

تاہم ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کی ویزا درخواستوں کے ساتھ مطلوبہ دستاویزات منسلک کرنا ہوں گی۔

بیان کے مطابق ’جو شخص انڈیا جا کر اپنے خاندان کے کسی فرد کی آخری رسومات ادا کرنا چاہتا ہے اسے مرنے والے کے ڈیتھ سرٹیفکیٹ کے ساتھ اپنے نادرا کارڈ کی کاپی، بجلی یا گیس کے بل کی کاپی اور پولیو سرٹیفکیٹ جمع کرانا ہوگا۔‘

استیاں

ڈاکٹر شریواستو کا کہنا ہے کہ انھوں نے اپنی درخواست کے ساتھ تمام مطلوبہ دستاویزات منسلک کیں لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔

’میرے خاندان کو سکون کی ضرورت ہے اور یہ تب تک ممکن نہیں جب تک آشا کی راکھ گنگا میں بہا نہیں دیتے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32540 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp