سوال کیوں نہیں مرتا؟ یہ بھی ایک سوال ہے
ہمارے پاس نہ کوئی میرزا ہیں نہ کوئی شیخ صاحب اس لیے خودکلامی سے کام چلا لیتے ہیں۔ خود ہی سوال داغتے ہیں، خود ہی جواب تراشتے ہیں اور بقول شفیق الرحمان بعد میں خود ہی کو گھرکتے ہیں کہ جواب کتنا غلط ہے۔ سردیوں کی دھوپ میں ایک عجیب آلسی پن ہے جو جسم کو ہلنے نہیں دیتا۔ جدھر سورج کا رخ ہوتا ہے، بس سورج مکھی کے پھول کی طرح ادھر کو ہی ایک سرکیڈین ردھم میں ہو جاتے ہیں۔ سوال اپنی جگہ خود رو ہے۔ کسی موسم کا محتاج بھی نہیں۔ اندر کی آب و ہوا موافق ہو تو ایک جنگل سا اگ آتا ہے۔ سردیوں کی دھوپ میں آنکھیں موندے اسی میں گشت کرتے ہیں۔ دھوپ ڈھلتی ہے تو اندر اٹھ آتے ہیں۔ جنگل بھی ساتھ ہی چلا آتا ہے۔
برسوں میں یہ سیکھ لیا ہے کہ جواب پانے کی تمنا عبث ہے۔ نطشے بھیا نے کہا تھا جو کیوں کی تلاش میں سرگرداں رہتا ہے وہ ہر ایک “کیسے” کو برداشت بھی کر لیتا ہے۔ ہمارا المیہ یہ نکلا کہ تلاش کی رائیگانی ایک دن آشکار ہو گئی۔ سب “کیسے” کیکٹس کے وہ کانٹے نکلے جو چبھتے تو ہیں پر ان کی رگیں کسی گلاب میں پیوست نہیں ہیں۔ برداشت کریں تو کب تک کریں۔ یہ اپنی جگہ ایک پیراڈاکس ہے کہ کیسے کریں۔
سنا تھا کہ محبت اندھی ہوتی ہے پر ہمارے یہاں محبت ایک آنکھ کھلی رکھ کر کی جاتی ہے۔ اس کھلی آنکھ کا کام صنف اور عقیدہ پرکھنا ہے۔ روز بھڑچونڈی، ننکانہ صاحب اور حیدرآباد میں کسی ہندو، سکھ یا عیسائی لڑکی کو ایک مسلمان سے ایسی محبت ہوتی ہے کہ وہ ماں باپ، گھر اور برادری کے ساتھ مذہب بھی تج دیتی ہے۔ سوچیے، ایسا کیوں ہے کہ کبھی کسی مسلمان لڑکی کو ہندو، عیسائی یا سکھ لڑکے سے محبت نہیں ہوئی۔ یہ محبت کی یک رویہ سڑک کیسے بنی اور اس پر ایک ہی عقیدے کی تختی کس نے لگائی۔
حریم شاہ کے بوڑھے باپ کے نسب اور آنسوؤں کی دہائی دینے والے صحافیوں نے یہ کیوں نہیں سوچا کہ مبشر لقمان صاحب، جناب فیاض الحسن چوہان، شیخ رشید یا چلیں وقار ذکا یا بھولا ریکارڈ کے کسی والی وارث کی بھی ایک ایسی ہی فریاد وائرل کی جائے۔ یہ اخلاق کا جنازہ ایک صنف سے ہی مخصوص کیوں ہے۔ موت جسم کی ہو یا روح کی، اس کی تذکیروتانیث میں تفریق کیسے ہوتی ہے۔
سو دفعہ ریپ ہونے والے بچے کی تصویر دیکھ کر گریبان اور دامن کی بحث کوئی کیسے کر سکتا ہے۔ مدرسے اور جامعہ کا موازنہ کیونکر ہوتا ہے۔ داڑھی کے دفاع کی ضرورت کیوں پڑتی ہے اور کلین شیو پر انگلی دھرنے کا راستہ کون سجھاتا ہے۔ پردے کی لایعنی تمثیلوں کا موسم اس معاملے میں کیوں لوٹ آتا ہے۔ گھر میں کھو جانے والی سوئی کو ہم بازار میں ڈھونڈنے کیا صرف اس لیے نکلتے ہیں کہ وہاں روشنی زیادہ ہے اور ہجوم بھی۔ سعی کرنا مقصود نہیں ہے، اس کی نمائش پیش نظر ہے۔ مرد کی وحشت پر بند باندھنے کی ترکیبیں سوجھتی ہیں پر اس وحشت کو فطری گرداننے والوں سے کوئی کچھ پوچھنے کا روادار نہیں ہے۔
یہ کیسی عدالت کا کیسا منصف ہے جو نیت پرکھنے کا دعویٰ ہی نہیں رکھتا، اس پر سزا سنانے کا اختیار بھی رکھتا ہے۔ یہ کیسا سماج ہے جہاں لب آزاد نہیں اور لب آزاد رکھنے کی بات کرنا بھی اختیار نہیں۔ اچھے سماج میں زندگی پر نظر ہوتی ہے، ہمارے سماج میں موت ارزاں ہے۔ ارزاں ہی نہیں، اس پر قانون کی مہر بھی ہے۔ اور سب اس میں خوش ہیں کہ عشق کی ایک ایسی تفہیم کر دی گئی ہے جو جان لیے بغیر ٹلتی نہیں ہے۔ اس تفہیم پر میں سوال نہیں اٹھاتا کہ سوال کرنا بھی اسی زمرے میں رکھ دیا گیا ہے جس میں جرم رکھا ہے۔ بس اپنی حیرت کی لاش کاندھے پر ڈالے کبھی کبھی شاہراہ دستور پر جا نکلتا ہے اور پھر اسے دفنانے کی جگہ نہ پا کر اسی طرح واپس لوٹ آتا ہوں
کچھ سوال چلا کر بھی کیے جائیں تو کوئی سنتا نہیں ہے۔ جن کے ہاتھوں میں عوام نے تقدیر کی تختی دینے کی چاہ رکھی تھی، وہ سب ایک کوہ ندا کی طرف ایک ہی روز مراجعت کرتے ہیں۔ وہ سب خواب جو اتنے دنوں میں فروخت ہوئے تھے، اب کوڑے دانوں میں پڑے ہیں۔ اب تو کباڑی بھی اندھے نہیں ہیں کہ انہیں یہ خواب ہی بیچ کر دو کوڑیاں کما لیں۔ سو ہر گھر کے باہر ڈھیر لگے ہیں جس سے صرف باس اٹھتی ہے۔ اس تعفن میں کوئی کیسے سانس لے، کیونکر لے، کب تک لے۔ پوچھنے کو تو یہ بھی ممکن ہے کہ سانس لینا کیا اب واقعی ضروری ہے۔
بس اسی خود کلامی میں سوالوں سے جھونجتے ایک اور دن گزرتا ہے۔ رات ہوتی ہے تو اپنے آپ سے پوچھ لیتا ہوں “کل کیا کرو گے؟”۔ جواب نہیں ملتا۔ میں وہ شب گزیدہ ہوں جو آنکھ بند کرنے سے اس لیے ڈرتا ہے کہ خواب میں بھی فرار کا دروازہ کبھی کھلا نہیں ملتا اور آنکھ کھولنے سے اس لیے ڈرتا ہے کہ صبح دم سرہانے پھر وہی سوال کھڑے ملتے ہیں جن سے لڑنے کی اب ہمت باقی نہیں رہی۔ آپ ہی بتائیے کہ کیا کیا جائے؟
- ست رنگی جھیل کے کنارے سے - 03/01/2024
- میں ڈوب رہا ہوں، ابھی ڈوبا تو نہیں ہوں - 14/08/2023
- کیا تم مقتدرہ سے زیادہ جانتے ہو - 04/07/2023
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).