جمہوریت کے جنازے میں شریک ہو کر ثوابِ دارین حاصل کریں


بل کا مسودہ تیار ہو چکا ہے۔ اب وسیع ترملکی مفاد میں آرمی چیف کی مدت میں کی جانے والی تین سال کی توسیع اور پھر تین سال کی توسیع اور توسیع در توسیع کو کوئی ”ملک دشمن“ کسی عدالت میں چیلنج نہیں کر سکے گا۔ اب کسی ”انڈین ایجنٹ“ کی یہ ہمت نہیں ہو گی کہ وہ آگے بڑھ کر یہ سوال کر سکے کہ ”صاحبو! کیا ہمارے ادارے اتنے بانجھ ہو چکے ہیں کہ ایک سربراہ کی مدتِ ملازمت ختم ہوجانے کے بعد دوسرا قائد تیار نہیں کرسکتے۔ ایک فرد واحد ہی کی قیادت کیوں ناگزیر ہو گئی ہے۔ تم سے تو شہد کی مکھی اچھی ہے جو نیا سپہ سالار نہیں بلکہ چند دنوں میں نئی ملکہ بھی پیدا کرلیتی ہے۔ کاش ہمارے اداروں کو بھی کوئی رائل جیلی مل جائے۔ کچھ قحط الرجال تو کم ہو۔ “

ریاست، آئین، جمہوریت، اداروں کے اختیار ات کی حدبندی اور حریت یہ سب تصوراتی اور معنوی چیزیں ہیں۔ ان کا کوئی ٹھوس مادی وجود نہیں جسے ختم کرنے کے لیے کلہاڑا چلانا پڑے یا کرین منگوانی پڑے۔ بلکہ اربابِ حکومت و سیاست کا طرزِ عمل ہی ان کی بقاء و فنا کا فیصلہ کرتا ہے۔ اور آج وہ فیصلہ ہو چکا ہے۔ ذرا سوچیے تو سہی شاہراہِ دستور پر بنی وہ عمارت جسے ہم پارلیمنٹ کہتے ہیں اس کی کیا وقعت باقی رہ گئی ہے؟

عدالتِ عظمی کے سامنے جو میزانِ عدل نصب ہے کیا وہ کسی کو منہ دکھانے کے لائق رہی ہے؟ میرا اور آپ کا ووٹ اور جمہوریت کے وہ پرفریب نعرے سب کے سب کتنی آسانی سے قضاء و قدر کی نذر ہو گئے۔ وہ ”عوامی نمائندے“ جن کی تین تین نسلیں جمہوریت کے نام پر روٹیاں بٹور رہی ہیں۔ جن کے عالی شان محلات کو میں نے اور آپ نے صرف اس وجہ سے استحکام بخشا ہوا ہے کہ وہ آمریت کے خلاف سینہ سپر کیے کھڑے رہیں گے وہ سب کتنی آسانی سے محاذ سے راہ فرار اختیار کر آئے۔ ہمیں ستر سال تک بہلاوا دینے والے خود چند لمحوں میں اپنی ناک اور دستار دونوں کسی کے قدموں میں ڈال کر آگئے :

میں نے اس کے سامنے پہلے تو خنجر رکھ دیا
پھر کلیجہ رکھ دیا دل رکھ دیا سر رکھ دیا

اصل میں بات یہ ہے کہ جب غیرت کفن اوڑھ لیتی ہے تو نظریات کوڑیوں کے دام بکنے لگتے ہیں۔ اپنے مفاد کے لیے تو لوگ بدن کے کپڑے تک بیچ دیتے ہیں جمہوریت تو پھر ایک چھت اور سائبان تھی۔ مگر مجھے ڈر اس بات ہے کہ آمریت کی دھوپ میں فکر کا پائیں باغ بھی جھلس جاتا ہے اور اس کی یخ بستہ ہواؤں سے سوچوں کے دریچے بھی منجمد ہو جاتے ہیں۔

آج ان تین چار نسلوں کے خواب چکنا چور ہو چکے ہیں جنہوں نے اس ملک میں سویلین بالادستی کا خواب دیکھا اور اس کی تعبیر کی خاطر ہزار کمزوریوں کے باوجود روایتی سیاست دانوں اور سیاسی جماعتوں کے وجود کو برداشت کیے رکھا۔ وہ خواب آج دار الحکومت کے گلی کوچوں میں پامال ہو چکا ہے اور جمہوریت کی قبائے عصمت تار تارہو گئی ہے۔ اگر مرحومہ جمہوریت کے پاس زبان ہوتی تو وہ فیض سے یہ لفظ ضرور مستعار لیتی:

جس دھجی کو گلیوں میں لیے پھرتے ہیں طفلاں
یہ میرا گریباں ہے کہ لشکر کا علم ہے

لیکن خدا کا شکر ہے کہ جمہوریت قوت گویائی پانے سے پہلے ہی دار فانی سے دار باقی کو کوچ کر گئی ورنہ عین ممکن تھا کہ پڑوسی ملک کی طرح ہمارے یہاں بھی فیض احمد فیض کے خلاف کمیٹی تشکیل دے دی جاتی، جو اس بات کی تحقیق کرتی کہ فیض کی شاعری میں کہاں کا کہاں کہاں ”ملک دشمن اثرات“ کا سراغ ملتا ہے۔ پھر ممکن ہے کہ آئندہ ایڈیشنوں میں ان غزلوں، قطعوں اور نظموں کو حذف کر دیا جاتا۔ ویسے بھی مشرف کیس کے فیصلے کے بعد سامنے آنے والے سرکاری و عسکری رد عمل، شجاع نواز کی کتاب کی تقریب رونمائی کی منسوخی اور کراچی میں عدیلہ سلیمان کی آرٹ نمائش پر پابندی کو دیکھنے کے بعد ہمیں اس بات کا یقین کر لینا چاہیے کہ اس ملک میں کاتب تقدیر کے قلم اور ایمپائر کی انگلی کے علاوہ ہر ہاتھ قلم کیا جاسکتا ہے اور ہر قلم و موقلم کو گردن زدنی ٹھہرایا جاسکتا ہے۔

کبھی کبھی میرا جی چاہتا ہے کہ اڑھائی ہزار سال قبل لکھی جانے والی اس تحریر کی جلی حروف میں کتابت کروا کے شاہراہ دستور سمیت دارالحکومت کی ہر اہم راہگزر پر اسے آویزاں کردیا جائے تاکہ اربابِ اختیار کو یاد دہانی رہے اور بوقت ضرورت کام آئے :

” ہمیں ہر ممکن اہتمام کرنا چاہیے کہ ہمارے مدد گار و محافظ جو عام شہریوں سے زیادہ قوی ہوں گے، کہیں ضرورت سے زیادہ قوی نہ ہو جائیں اور بجائے یار و مددگار کے مستبد و جابر کا کام نہ دیں۔ اس بارے میں بڑی احتیاط کی ضرورت ہے۔ صرف تعلیم ہی نہیں ان کی تمام املاک اس نوعیت کی ہونی چاہیں کہ نہ بحیثیت محافظ ان کی صلاحیتوں کو کم کریں اور نہ انہیں دوسرے شہریوں پر دست درازی کی ترغیب دیں۔ ۔ [وگرنہ] یہ محافظ نہ رہیں گے۔ بجائے معین و مددگار ہونے کے ظالم اور دشمن بن جائیں گے۔ یہ دوسروں سے نفرت کریں گے، اور دوسرے ان سے، یہ اوروں کے خلاف سازشیں کریں گے، اور دوسرے ان کے خلاف، خارجی دشمن سے زیادہ اندرونی مخالفتوں کے ڈر میں ان کی زندگی گزرے گی اور خود ان کی اور ان کی ریاست کی تباہی کا وقت قریب آجائے گا۔ ” (افلاطون: ریاست، مترجم: ڈاکٹر ذاکر حسین، مطبوعہ فکشن ہاؤس لاہور 2015 ء، صفحہ نمبر 152 و مابعد)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments