اردو زبان اور ملکی ترقی


اردو زبان اور ملکی ترقی لازم وملزوم ہے کسی بھی ملک کی ترقی کا دارومدار اس کی مادری زبان پر ہوتا ہے دنیا کا ہر ملک اپنی قومی زبان کا احترام کرتے ہوئے اسے سرکاری حیثیت دیتا ہے اور اس کا تعلیمی نصاب اور سرکاری ریکارڈ بھی ان کی اپنی مادری و قومی زبان میں پرنٹ کیا جاتا ہے تاکہ شہریوں کو پڑھنے اور سمجھنے میں آسانی ہو۔ معروف لائبریریوں میں آج بھی دنیا کی قدیم ترین زبانوں پر مشتمل مجموعات موجود ہیں جنہیں اس دور کی قوموں نے اپنی شان سمجھتے ہوئے محفوظ کیا۔

تاہم بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتاہے کہ پاکستان میں ایسا نہیں۔ ہماری غلامانہ سوچ کی عکاسی ہوتی ہے۔ دوسری طرف ملک میں دیگر کئی زبانیں بھی بولی جاتی ہیں جنہیں سرکاری سطح پر قبول نہیں کیا جاتا۔ پاکستان کا تعلیمی نصاب اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں پڑھایا جاتا ہے۔ سرکاری سطح پر قومی زبانوں میں پڑھایا جاتا ہے۔ سرکاری سطح پر قومی زبان کی پزیرائی نہ ہونے کے باعث ہماری قوم احساس کم تری کا شکار ہے۔ ایک خاص طبقہ اردو بولنے کو اچھا نہیں سمجھتا اور انگریزی بولنے میں فخر محسوس کرتا ہے۔

متوسط طبقہ اسے اپنی احساس محرومی سمجھتے ہوئے خاص طبقے کی پیروی کرتے ہوئے انگریزی بولنے کو ترجیح دیتا ہے۔ اور دیکھا دیکھی یہ بیماری پھیلتی جا رہی ہے۔ اس وقت قومی زبان سرکاری سرپرستی سے محروم ہے جس کی وجہ ہم خود ہی ہیں۔ ہم نے انگریزی زبان کو ہی سرکاری زبان سمجھ لیا ہے۔ آج کسی کو اردو نہیں آتی وہ فخر سے بتاتا ہے جبکہ انگریزی زبان کا نہ آنا شرمندگی کی بات سمجھی جاتی ہے حا لا نکہ اردو زبان عالمی زبان ہے اور یہ دنیا کی کئی جامعات میں پڑھائی جا رہی ہے۔جن میں چین، ترکی، جرمنی، اور بھارت شامل ہیں اور کئی دوسرے ممالک میں اس پر کام ہورہا ہے لیکن ہمارے ہاں اپنی قومی زبان کے فروغ کے لئے کوئی کام نہیں ہو رہا یہاں تک کہ مائیکروسوفٹ وئیر میں اردو ٹائپنگ اور ان پیج پر بھی کسی اور ملک نے کام کیا ہے یہ بھی پاکستان میں نہیں بنایا

اردو ٹائپنگ کا ایک سوفٹ وئیر بھارت میں بناہے جو پاکستان کے لئے اردو میں ہے لیکن یہ ان کی قومی زبان کو فروغ دیں تاکہ یہ زبان زندہ رہے اور ترقی کرے مگر پاکستان میں تو الٹی گنگا بہہ رہی ہے حالانکہ آج تک جس ملک نے بھی ترقی کی ہے وہ اپنی ہی زبان میں کی ہے چین اس کی بہترین مثال ہے کوئی بھی ملک اپنی زبان کے بغیر ترقی نہیں کر سکتا لیکن ہمارے حکمرانوں کو کون سمجھائے جو مغرب جو اپنی زبان کو چھوڑ کر مغرب کی نقل کرتے ہیں اور ان کی زبان اپناتے ہیں۔ علامہ اقبالؒ نے کیا خوب کہا ہے

شام کا سورج دے رہا ہے یہ صدا
مغرب کی طرف جاؤ گے تو ڈوب جو گے

کامیابی کا راز ہی یہ ہے کہ ہمیں اپنی زبان پر عبور حاصل ہو انگریزی زبان کے پیچھے ہم نے اپنی اردو کو بھی کھو دیا ہے ہم نے انگریزی زبان کو کامیابی کا ذریعہ سمجھ لیا ہے حالانکہ یہ ایک زبان ہے اور کچھ بھی نہیں اور ترقی صرف اورصرف اپنی زبان میں ہی ہو سکتی ہے جو قومیں اپنی زبان کی قدر نہیں کرتیں وہ کبھی ترقی نہیں کرتیں.


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments