قرطبہ، سپین کا سفر


دسویں صدی عیسوی کے وسط میں قرطبہ اندلس میں اموی سلطنت ایک طاقتور مملکت تھی، مختلف ممالک کے سفارتکار اور اہم شخصیات خلیفہ سے ملاقات کے لیے آتی تھیں۔ خلیفہ قرطبہ شہر سے چھ کلومیٹر کے فاصلے پر بنائی گئی آبادی مدینہ الازہرہ میں رہتا تھا۔ یہ ایک عظیم الشان آبادی تھی جہاں خلیفہ کی رہائش کے ساتھ ساتھ دفاتر بھی تھے۔ میں اور ساتھی مدینہ الازہرہ سے نکلے اور واپس قرطبہ شہر کے لیے نکل پڑے۔ ایرپورٹ سے کرائے پر لی گئی کار بہت کام آرہی تھی۔ سخت گرمی تھی اور کار کا اے سی اچھی ٹھنڈک دے رہا تھا۔ قرطبہ شہر واپس آکر القصر کے محل پر گئے۔

القصر دریائے قواعد الکبیر اور مسجد قرطبہ کے پاس اموی بادشاہ کا محل رہا ہے، اسے آپ قلعہ بھی کہہ سکتے ہیں۔ مسلم شکست کے بعد یہ محل بادشاہ فرٹیننڈ اور ملکہ ازابیلا کی رہائش گاہ رہی۔ مسلم سپین کی آخری سلطنت غرناتا کو انہوں نے 1496 میں شکست دی تھی، جس کے بعد سپین میں مسلمانوں کا دور حکومت، جس کا آغاز 756 عیسوی میں قرطبہ میں عبدالرحمن اول کی حکومت سے ہوا تھا، ختم ہوئی۔ بادشاہ فرٹیننڈ اور ملکہ ازابیلا نے مسلماں وں پر فتح سے جیتے مال و اسباب سے ہی کرسٹوفر کولمبس کی بحری مہموں کی سرپرستی کی تھی، جس کی وجہ سے امریکہ دریافت ہوا تھا۔

اتوار کا دن قرطبہ کی سیر کے لیے اچھا نہیں ہے، کیونکہ زیادہ تر تاریخی عمارتیں یا تو بند تھیں یا جلد بند ہوجاتی ہیں۔ سو القصر کا محل بھی بند ہوچکا تھا۔ دوپہر چار بجے کا وقت تھا، ہمیں سخت بھوک لگ رہی تھی، مدینہ الازہرہ میں خوب چلے بھی تھے، اور گرمی کی بنا پر خوب پانی پیا تھا۔ اب یہ مسئلہ درپیش تھا کہ تمام ہوٹل بھی بند مل رہے تھے، لگتا ہے کہ قیلولہ کی عادت ہے۔ راستے میں ایک ترک کباب کی دکان نظر آئی مگر وہ بھی بند تھی۔ اوقات ساڑھے چھ بجے کھلنے کے لکھے تھے، سو ہم اپنی رہائش گاہ کو چل پڑے کہ کچھ دیر آرام کرکے دوبارہ آئیں گے۔ ویسے بھی وہ دکان ہماری رہائش سے کچھ زیادہ دور نہ تھی۔

دوبارہ ساڑھے چھ پہنچے تو دکان پھر بھی بند تھی۔ پریشان تھے، پیٹ خالی ہو تو پریشانی بڑھ جاتی ہے۔ اتنے میں ایک لڑکے نے آکر دکان کھول دی اور کرسیاں لگانی شروع کردیں۔ ہم پہلے گاہگ تھے۔ دکان میں داخل ہوئے تو سامنے دیوار پر لگی بڑی سی تصویر دیکھ کر حیران ہوگئے۔ قرطبہ کے اس ریسٹورنٹ میں ہمارے سامنے فیصل مسجد، شکرپڑیاں، شاہی قلعہ لاہور، بادشاہی مسجد اور مینارِ قراردادِ پاکستان کی تصویروں کا ایک امتزاج تھا۔

حیران تھے، لڑکے سے پوچھا تو پتہ لگا کہ عارف نام ہے، پاکستانی ہے، سمبڑیال سیالکوٹ سے تعلق ہے۔ اس ریسٹورنٹ میں ملازمت کرتا ہے، جس کا مالک بھی پاکستانی ہے۔ تھوڑی دیر میں دکان کا مالک رانا کامران بھی آگیا، ڈسکہ سے تعلق تھا۔ بھوک سخت لگی تھی، سو چاولوں میں چکن شوارمے والا کٹا ہوا، سلاد کے ساتھ ملا کر کھایا۔

پاکستان سے باہر رہنے والے کہیں بھی رہ رہے ہوں، پاکستان ان کے دل میں بستا ہے۔ قرطبہ شہر کہ دنیا سے لوگ وہاں آتے ہیں، اس کے ایک گوشے میں ایک چپ چاپ سے سڑک کے کنارے ایک بے نام سے ریسٹورنٹ میں پاکستان لہرا رہا ہے۔ وہاں کھانا کھانے کے لیے بیٹھے لوگوں کو اس تصویر کا کچھ علم بے شک نہ ہو، مالک نے یہ تصویر کسی اور کے لیے نہیں لگائی۔ یہ تصویر اس کے لیے ہے، ایسے ہی جیسے لوگ اپنے دفتری ڈیسک پر اپنے بچوں کی تصویر فریم میں رکھ لیتے ہیں۔ یہ بڑا پوسٹر رانا کامران اور عارف کو وطن کی یاد دلاتا ہے، گرمائش دیتا، ایک کسک دیتا، پیچھے چھوڑ آئے رشتوں کی یاد دلاتا، ملاقات شاید پھر ہو یا نہ ہو، یاد کا پودا مگر ہرا بھرا رہتا ہے۔ آنسو اس پودے کی آبیاری کرتے رہتے ہیں۔

کھانا کھا کر قرطبہ شہر کے پرانے علاقے کی طرف جانکلے۔ مسجد قرطبہ کے ساتھ ہی دریائے الکبیر پر پل ہے۔ اس پل کے ساتھ پرانے دور کا ایک بڑا سا پہیہ دریا پر آج بھی موجود ہے، جس کے ذریعے باغوں کو پانی دیا جاتا تھا۔ اس پہیے سے اُس دور کی صناعی یعنی ٹیکنالوجی کا اندازہ ہوتا ہے۔

پل پر مختلف خوانچہ فروش ٹورسٹ کو اپنا سامان بیچ رہے تھے۔ ایک جانب ایک خطاط بھی قلم اور تختی لے کر پل پر بیٹھا تھا۔ اس کا دعوی تھا کہ وہ اندلسی رسم الخط میں عربی نام لکھتا ہے، سو اس سے نام لکھوایا کہ ایک یادگار یہ بھی رہے۔

اس کے بعد قرطبہ شہر کے پرانے علاقے میں آوارہ گردی شروع کر دی۔ قرطبہ شہر میں یہودیوں کے علاقے میں گئے جسے آج جویش کواٹر کہا جاتا ہے۔ مسلم اندلس میں یہودی بہت تعداد میں رہتے تھے۔ انہیں اپنے مذہب پر عمل کرنے کی پوری آزادی تھی۔ یہودی سکالرز بہت اعلی عہدوں پر فائز تھے۔ کہا جاتا ہے کہ مسلم اندلس میں اس زمانے میں یہودیوں کی تعداد دنیا کے کسی اور علاقے سے زیادہ تھی۔ پرانا شہر بہت چلے، تھک کر چور ہوگئے۔ انگریزی بہت کم بولی جاتی ہے۔ کسی جگہ کے مطلق پوچھنا پڑتا تھا تو بہت کم صحیح جواب مل پایا۔ ہم پاکستانی جو انگریزی کو ترقی کی زبان سمجھتے ہیں، ان کو یہ بہت عجیب لگتا ہے۔ راہ میں رومن ٹیمپل کے کھنڈرات دیکھے۔ گمان ہے کہ 40 یا 50 عیسوی میں بنایا گیا تھا۔ اس کی دریافت 1950 میں ٹاون ہال کی توسیع کے دوران ہوئی تھی۔

پرانا شہر تنگ گلیوں پر مشتمل ہے جن کا فرش پتھروں کا بنا ہے، گھروں کے باہر بالکنیاں ہیں۔ پھولوں کے موسم میں یہ گلیاں پھولوں سے سجائی جاتی ہیں۔ ہمیں کچھ ایسی گلیاں دیکھنے کا موقع ملا۔ ایک گلی کے نام کا بورڈ دیکھا تو پتہ لگا کہ یہ گلیِ یوسف ہے۔ لوگ چلے گئے مگر اپنی نشانیاں چھوڑ گئے ہیں، کہیں عمارتوں کی شکل میں، کہیں صناعی کی شکل میں، کہیں حوض اور شاہی حمام کی شکل میں، کہیں گلیوں کے نام کی شکل میں۔ کچھ مٹ گیا، کچھ نہ مٹ سکا۔

رات گئے واپس اپنے ٹھکانے کو چلے، راستے میں رانا کامران کی دکان پر رکے۔ اُس نے بتایا کہ اس علاقے میں چوری چکاری کافی ہے سو اب مت پھریں۔ رات ایک بجے کا وقت ہوگا اور ہم اپنے کمرے کی جانب چل پڑے۔ گلیاں اور مکانات یہاں تنگ تنگ تھے۔ گھر چھوٹے ہیں اور گرمی کی بنا پر لوگ اپنے گھروں سے باہر کرسیاں ڈال کر بیٹھے تھے۔ گلیوں میں گاڑیوں کے کھڑے ہونے کے باعث ہم مشکل سے اپنی گاڑی اپنی رہائش تک لے کر جاسکے۔

سونے کو لیٹ گئے تو باہر سے ایک آواز آئی۔ کمرے کی کھڑکی کے پردے سے جھانکا تو ایک نوجوان لڑکی ہماری گاڑی کے اندر جھانک رہی تھی۔ ہم پہلے ہی تمام اشیاء گاڑی سے نکال لائے تھے۔ یہ معاملہ دو تین دفعہ رات میں جاری رہا، تشویش تھی کہ چوری کے لیے تو کوئی سامان نہیں مگر کہیں کار کو نقصان نہ پہنچا جائے۔

عاطف ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عاطف ملک

عاطف ملک نے ایروناٹیکل انجینرنگ {اویانیکس} میں بیچلرز کرنے کے بعد کمپیوٹر انجینرنگ میں ماسڑز اور پی ایچ ڈی کی تعلیم حاصل کی۔ یونیورسٹی آف ویسڑن آسڑیلیا میں سکول آف کمپیوٹر سائنس اور سوفٹ وئیر انجینرنگ میں پڑھاتے ہیں ۔ پڑھانے، ادب، کھیل اور موسیقی میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ طالبعلمی کے دور میں آپ نے اپنی یونیورسٹی کا400 میٹر کی دوڑ کا ریکارڈ قائم کیا تھا، جبکہ اپنے شوق سے کے-ٹو پہاڑ کے بیس کیمپ تک ٹریکنگ کر چکے ہیں۔

atif-mansoor has 73 posts and counting.See all posts by atif-mansoor

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments