ایران کے جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت: کیا تیسری عالمی جنگ چھڑ سکتی ہے؟


ایران، عراق، امریکہ، قاسم سلیمانی

امریکی حملے میں جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد ایران کی جانب سے سخت ردِعمل کی توقع کی جارہی ہے

جمعے کو عراق میں امریکہ نے فضائی حملہ کر کے ایران کے سرکردہ عسکری کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی کو ہلاک کر دیا۔

جنرل سلیمانی مشرقِ وسطیٰ میں سرگرمِ عمل تھے اور ان کی ہلاکت واشنگٹن اور تہران کے درمیان تناؤ میں شدید اضافے کی وجہ بنی ہے۔

بی بی سی کے دفاعی اور سفارتی نامہ نگار جوناتھن مارکس اس اقدام اور اس کے ممکنہ نتائج کے بارے میں قارئین کے سوالات کا جواب دے رہے ہیں۔

اس صورتحال سے تیسری عالمی جنگ کا کس قدر خطرہ موجود ہے؟ – لوئس ایلکوٹ

بھلے ہی کچھ لوگ جنرل سلیمانی کی ہلاکت کو امریکہ کی جانب سے ایران کے خلاف ‘اعلانِ جنگ’ قرار دے رہے ہیں لیکن یہ اہم ہے کہ اس موقعے کی اہمیت میں نہ مبالغہ آرائی سے کام لیا جائے اور نہ ہی اسے غیر اہم قرار دیا جائے۔

اس سے تیسری عالمی جنگ نہیں شروع ہوگی۔ ایسے کسی بھی تنازعے میں ممکنہ طور پر جو فریق شامل ہوں گے، یعنی روس اور چین، وہ حالیہ صورتحال میں اہم کردار ادا نہیں کر رہے۔

یہ بھی پڑھیے

ایرانی افواج کتنی طاقتور ہیں؟

’ایران نے حملہ کیا تو 52 ایرانی مقامات ہمارے نشانے پر ہیں‘

امریکہ، ایران کشیدگی: پاکستان کا کردار کیا ہے؟

ایرانی جنرل کو مارنے کا فیصلہ ’جنگ روکنے‘ کے لیے کیا

لیکن بہرحال یہ مشرقِ وسطیٰ اور اس میں امریکی کردار کے لیے ایک فیصلہ کُن گھڑی ثابت ہوسکتی ہے۔ ایران کی جانب سے بڑے پیمانے پر ردِعمل کی توقع کی جارہی ہے اور اس سے عمل اور ردِ عمل کا ایسا چکر شروع ہوگا جو دونوں ممالک کو مکمل جنگ سے قریب تر لے آئے گا۔

ایران کی جوابی کارروائی شاید خطے میں امریکی عسکری مفادات کے خلاف ہو مگر یہ امریکہ سے منسلک کسی بھی ایسے ہدف کے خلاف ہوسکتی ہے جو بظاہر کمزور ہو۔

قاسم سلیمانی، عراق، ایران، امریکہ

ایران کے پاسدارانِ انقلاب کے سپاہی ایک فوجی پریڈ کے دوران مارچ کر رہے ہیں۔ جنرل قاسم سلیمانی پاسدارانِ انقلاب کی القدس فورس کے سربراہ تھے

کیا بین الاقوامی قوانین کے تحت ایسے کسی کو ہلاک کرنا قانونی ہے؟ – ایمون ڈوناہی

امریکہ کی دلیل ہوگی کہ جنرل سلیمانی عراق میں امریکی فورسز کے خلاف بلااشتعال حملوں کے لیے ذمہ دار تھے۔ یہ فورسز وہاں پر موجودہ عراقی حکومت کی درخواست پر موجود تھیں۔

امریکہ کا ماننا تھا کہ جنرل سلیمانی کے ہاتھوں پر کئی امریکی سپاہیوں کا خون موجود تھا۔ اس کے علاوہ ان کی القدس فورس کو امریکہ ایک دہشتگرد تنظیم کے طور پر دیکھتا تھا۔ چنانچہ ان کی ہلاکت کے بعد ایک امریکی قانونی بیانیہ ضرور سامنے آئے گا۔

مگر بین الاقوامی قانون کی شہرت یافتہ ماہر اور نوٹرڈیم لا سکول میں قانون کی پروفیسر میری ایلین اوکونیل کا اس کے قانونی اثرات کے بارے میں یہ مؤقف ہے:

’پیشگی دفاع کبھی بھی کسی کی ہلاکت کا قانونی جواز نہیں ہوتا۔ بلکہ اس کا کوئی بھی جواز نہیں ہوتا۔ اس حوالے سے متعلقہ قانون اقوامِ متحدہ کا چارٹر ہے جس کے نزدیک کسی حقیقی مسلح حملے پر ردِعمل دینے کا حق ہی اپنا دفاع کہلا سکتا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کو بغداد میں ہلاک کرنے کے لیے ڈرون کا استعمال امریکہ میں کسی مسلح حملے کے خلاف جوابی کارروائی نہیں تھی۔ ایران نے امریکہ کی سرزمین یا خودمختاری پر حملہ نہیں کیا ہے۔‘

‘چنانچہ اس کیس میں امریکہ نے نہ صرف ایک ماورائے عدالت قتل کا ارتکاب کیا ہے، بلکہ اس نے عراق میں ایک غیر قانونی حملہ بھی کیا ہے۔’

اس معاملے پر اقوامِ متحدہ کا مؤقف کیا ہے؟ – سارا

اقوامِ عالم کے نمائندوں کے مؤقف سے ہٹ کر بات کی جائے تو یہ کہنا مشکل ہے کہ اقوامِ متحدہ کا اس پر کیا مؤقف ہے، کیونکہ ایسا کوئی مؤقف وجود نہیں رکھتا۔

مثال کے طور پر کیا اس سے مطلب اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کا مؤقف ہے؟ وہ تو ممکنہ طور پر منقسم ہوگا اور اس پر اتفاق شاید نہ ہوسکے۔

اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گتیریس نے کہا کہ وہ مشرقِ وسطیٰ میں تناؤ میں اضافے پر تشویش کے شکار ہیں۔

ان کے ترجمان فرحان حق نے ایک بیان میں کہا کہ ’ان لمحات میں رہنماؤں کو کشیدگی سے حتی الامکان گریز کرنا چاہیے۔ دنیا خلیج میں ایک اور جنگ کی متحمل نہیں ہوسکتی۔‘

قاسم سلیمانی، عراق، ایران، امریکہ

جنرل قاسم سلیمانی کی نمازِ جنازہ کے جلوس میں شریک خاتون نے ایک پلے کارڈ اٹھا رکھا ہے جس پر درج ہے ’ہم بدلہ لیں گے‘

کیا اس حملے کا حکم صدر ٹرمپ کے مواخذے سے توجہ ہٹانے کے لیے دیا گیا؟ – مارٹن گیلاہر

اس طرح کے الزامات لگانا آسان ہے مگر بھلے ہی ملکی سیاسی صورتحال ہمیشہ اور بالخصوص صدر ٹرمپ کے لیے انتخابات کے سال میں اہم کردار ادا کرتی ہے، لیکن یہ فیصلہ دو عوامل یعنی موقعے اور حالات کی وجہ سے لیا گیا ہوگا۔

اس کا پس منظر بظاہر عراق میں امریکی تنصیبات پر بڑھتے ہوئے حملے ہیں، اس کے علاوہ پینٹاگون کی جانب سے مستقبل میں ایسے مزید حملوں کے بارے میں مبہم بیانات دیے جارہے تھے۔

اور موقع خود ان کے سامنے آ گیا۔ اس کے علاوہ امریکی انٹیلیجینس کے پھیلاؤ کا عملی مظاہرہ وہ چیز ہے جسے ایران کو کسی بھی ردِعمل کا فیصلہ کرتے ہوئے مدِنظر رکھنا ہوگا۔

انتخابات کے سال میں صدر ٹرمپ کی بنیادی توجہ خطے میں امریکی جانوں کے ضیاع سے بچنا ہوگا۔

یہ ڈرامائی حملہ اس صدر کی شخصیت سے کچھ حد تک مختلف ہے جو تند و تیز بیانات کے باوجود اقدامات کے بارے میں نہایت محتاط رہے ہیں۔

کیا ایران کی جانب سے نیوکلیئر ردِعمل کا خطرہ موجود ہے؟ کیا ایران کے پاس نیوکلیئر صلاحیت موجود ہے؟ – ہیری رِک مین

نہیں۔ ایران کے پاس ایسا کوئی نیوکلیئر پروگرام نہیں ہے مگر اس کے پاس ایسے کئی عناصر موجود ہیں جو ایسے پروگرام میں معاونت کر سکتے ہیں جبکہ اس کو عملی جامہ پہنانے کے بارے میں معلومات بھی رکھتا ہے۔

ایران نے ہمیشہ اصرار کیا ہے کہ اسے نیوکلیئر بم نہیں چاہیے۔ مگر کیا یہ ممکن ہے کہ واشنگٹن کے ساتھ بڑھتا ہوا تناؤ ایران کو تمام رکاوٹوں کو بالائے طاق رکھنے اور عالمی برادری کے ساتھ اپنے نیوکلیئر معاہدے کو مکمل طور پر ختم کرنے پر قائل کرے؟ یہ ایک امکان ہے۔

ٹرمپ انتظامیہ پہلے ہی ایران کے ساتھ کیے گئے نیوکلیئر معاہدے سے دستبردار ہوچکی ہے۔ کچھ تجزیہ کار اسے لاپرواہ اقدام قرار دیتے ہیں۔ اس سے تہران پر دباؤ بڑھے گا مگر دباؤ کو ختم کرنے کے لیے اس کے پاس کوئی واضح سفارتی راستہ نہیں ہوگا۔

جنرل سلیمانی عراق میں کیا کر رہے تھے؟ عراقی حکومت کا اس بارے میں کیا کہنا ہے؟ – ٹام

واضح طور پر نہیں کہا جا سکتا کہ جنرل سلیمانی کا عراق میں کیا کام تھا۔ مگر ایران وہاں پر کئی بااثر شیعہ ملیشیا گروہوں کی سربراہی کرتا ہے اور ان کے ساتھ ہلاک ہونے والے شخص ابو مہدی المہندس کتائب حزب اللہ (جسے امریکی اڈوں پر حالیہ راکٹ حملوں کا ذمہ دار کہا جاتا ہے) کے سربراہ اور عراق میں ایران نواز ملیشیاؤں کے اتحاد کے ڈپٹی کمانڈر تھے۔

عراقی حکومت ایک بہت مشکل صورتحال میں داخل ہوگئی ہے خاص طور پر تب جب یہ حملہ اس کی سرزمین پر کیا گیا ہے۔ یہ ایران اور امریکہ دونوں ہی کا اتحادی ہے جبکہ امریکی سپاہی عراق میں موجود ہیں تاکہ شدت پسند تنظیم نام نہاد دولتِ اسلامیہ کے خلاف وسیع تر جدوجہد میں مدد کر سکیں۔

عراقی حکام پہلے ہی امریکی تنصیبات پر ملیشیا حملوں سے شرمندگی کے شکار تھے۔ عراقی حکومت نے اس ملیشیا گروہ کے خلاف امریکی حملوں کی بھی مذمت کی جبکہ امریکیوں پر زور دیا کہ وہ ان اڈوں کا تحفظ یقینی بنائیں گے۔

عراقی وزیرِ اعظم نے جنرل سلیمانی کے قتل کی مذمت کی، اور ملیشیا کمانڈر ابو مہدی اور انھیں ’دولتِ اسلامیہ کے خلاف زبردست فتوحات‘ کا ذمہ دار ’شہدا‘ قرار دیا۔ عراقی حکومت کا یہ بھی اصرار ہے کہ امریکی حکومت نے عراق میں کام کرنے کے لیے طے کیے گئے معاہدے کی شرائط سے بالاتر ہو کر کام کیا۔

قاسم سلیمانی، عراق، ایران، امریکہ

نمازِ جنازہ کے جلوس میں شامل گاڑیوں میں سے ایک میں تابوت رکھا دیکھا جا سکتا ہے

ایران اور امریکہ کا عراق میں کیا کردار ہے؟ – کاکینگا موزیس

ایران عراق کی شیعہ اکثریتی حکومت کا قریبی اتحادی ہے۔ اس کے علاوہ یہ اپنے آپ میں اس ملک میں اہم کردار کا حامل ہے اور مذکورہ بالا ملیشیاؤں کے ذریعے مصروفِ عمل ہے۔ امریکہ کے تقریباً پانچ ہزار فوجی عراق میں موجود ہیں جو باقی رہ جانے والے دولتِ اسلامیہ کے عناصر کو شکست دینے کے لیے عراقی افواج کی تربیت کر رہے ہیں۔

یہ دونوں ممالک عراق میں ایک دوسرے کے خلاف کارروائیوں میں بھی مصروف ہیں۔

ایک بڑا سوال یہ ہے کہ کیا ایسی کوئی بحرانی صورتحال پیدا ہوگی کہ ملک میں امریکہ کی مزید موجودگی کا جواز نہ رہے؟

بی بی سی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32500 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp