کٹاس راج، اقلیتیں اور امن کی آشا


راج کٹاس ہندوؤں کا انتہائی متبرک مقام ہے جو کوہستانِ نمک کے درمیان چکوال سے تقریبا 30 کلومیٹر کے فاصلے پر جنوب کی جانب واقع ہے۔ مہا بھارت جو مسیح علیہ السلام سے 300 سال پہلے کی تصنیف ہے ’اس میں اس جگہ کا ذکر موجود ہے۔ اس کی وجہ تسمیہ کے بارے میں تاریخ جہلم کے پرانے نسخے میں بتایا گیا ہے کہ برہمنوں کی روایت کے مطابق جب شیو دیوتا کی بیوی ستی مر گئی تواُسے اتنا دکھ ہوا کہ اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کی ایک لڑی جاری ہوگئی اور ان سے دو متبرک تالا ب وجود میں آئے۔

ایک پشکار (اجمیر) اور دوسرا کٹکشاء سنسکرت میں اس کا مطلب آنسوؤں کی لڑی ہے، یہی لفظ بعد میں کثرتِ استعمال سے کٹاس بن گیا۔ جنرل الیگزینڈر کتگھم جو کہ آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کے ڈائریکٹر جنرل ( 1872۔ 73 ) تھے ’کے بقول ”کٹاس کا مقام ہندویاتریوں کے لئے انتہائی مقدس حیثیت رکھتا ہے“۔ ایک روایت کے مطابق پانڈوؤں نے کٹاس میں بارہ سال گزارے اور ست گڑھ کے مندر تعمیر کروائے۔ کوہستانِ نمک کی شہرت نہ صرف جانوروں کی ہڈیوں کے فوسلزکے حالیہ دریافت کی بنا پر ہے بلکہ اہمیت کی اصل وجہ قدیم بدھ اور ہندومت کے معبد اور مندروں کے آثار ہیں جو اس کی وادیوں میں جا بجا پھیلے ہوئے ہیں۔

ان آثار قدیمہ میں قابل ذکر نندنا، ملوٹ، گندھارا مورتی اور کٹاس ہیں۔ بنیادی طور پر کٹاس کی وجہ شہرت وہ قدرتی چشمے ہیں جن سے گنیانالہ نکلتا ہے۔ چینی سیاح ہیون سانگ کے مطابق ان تالاب کومختلف ناموں سے پکارا جاتا تھاجیسا کہ وسکنڈ (زہریلا چشمہ) ، امیر کنڈ، چمرکنڈ اور کٹکشا کنڈ کہلاتا تھا۔ ست گڑھ یا سات مندروں کے بارے میں روایت ہے کہ یہ مندر پانڈوؤں نے اس وقت تعمیر کیے جب وہ کوروؤں سے شکست کھانے کے بعد کوہستانِ نمک میں بن باس کی زندگی گزار رہے تھے لیکن ان مندروں کا طرزِ تعمیر ساتویں تا دسویں صدی عیسوی کے دوران کشمیر میں تعمیر ہونے والے مندروں سے مماثلت رکھتا ہے۔

یہ مندر تراشیدہ پتھروں سے بنائے گئے ہیں اس میں چنائی اور پلستر کے لیے چونا استعمال کیا گیا ہے۔ کٹاس میں ایک اسٹوپہ تھا جس کی اونچائی دوسو فٹ تھی جسے اشوک اعظم نے تعمیر کروایا تھا۔ مشہور سکھ جرنیل ہری سنگھ نلو انے اس مقام پر ایک حویلی (دیوان خانہ اور زنان خانہ) تعمیر کروائی۔ کٹاس کی عمارت ہندو اور سکھ مذہب کو ماننے والوں کے لیے یکساں اہمیت کی حامل ہے۔ پاک و ہند سے ہندو اور سکھ یاتری کثیر تعداد میں ان مندروں کی یاترا کے لیے ہر سال آتے ہیں اوریہ عمارات فنِ تعمیر کے نادر نمونے ہیں اور یہ بھی لکھا ملا کہ حکومتِ پنجاب نے ان مندروں کی تعمیر و مرمت کے لیے 119 ملین روپے کی لاگت سے ترقیاتی منصوبے مکمل کیے۔

ان مندروں میں ہر سال آنے والے ہندو اور سکھ یاتریوں کا جس انداز میں پاکستانی حکومت خیر مقدم کرتی ہے۔ اس سے اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں اقلیتوں کو کتنے حقوق دیے گئے۔ وہ پاکستان دشمن طبقہ جو کہا کرتا ہے کہ پاکستان میں اقلیتیں محفوظ نہیں ’میں انہیں ہمیشہ کہا کرتا ہوں کہ دوسرے ملکوں کے ساتھ پاکستان کا موازنہ کر لیں کیونکہ میں یہ بات ببانگِ دہل کہتا ہوں کہ جتنی پاکستان میں اقلیتیں محفوظ ہیں اتنی شاید ہی کسی اور ملک میں ہوں۔

کوئی بھی مذہب ہو پاکستان میں اسے اپنی رسومات اور عبادات کرنے سے نہ ہی روکا گیا اور نہ کوئی روک سکتا ہے کیونکہ ہمارے آئین میں موجود ہے کہ اس سرزمین پر اقلیتوں کو مکمل حقوق دیے جائیں گے اور دیے بھی گئے۔ مگر پاکستانیوں کو کئی ممالک میں آج بھی مسائل کا سامنا ہے۔ مثلا آپ انڈیا کو ہی لے لیں ’وہاں ادبی تقریبات کے لیے پاکستانیوں کو ویزے کے لیے کن مسائل کا سامنا ہے۔ وہاں سے کتابوں کی ترسیل کے مسائل کتنے شدت اختیار کر گئے ہیں۔

آج انڈیا پاکستان کی بیس کروڑ مسلم آبادی کی شہریت داؤ پہ لگا رہا ہے۔ جامعہ ملیہ دہلی ہو یا انڈیا کا کوئی مسلم علاقہ یا بازار ’ہر جگہ مسلمان احتجاج کر رہے ہیں اور یہ احتجاج روزبروز شدت اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ پورا ہندوستان اس وقت جنگ کا میدان بنا ہوا ہے اور مودوی سرکار شدید تنقید کا نشانہ بن رہی ہے۔ ہندوستان میں موجود 20 کروڑ مسلمانوں کی شہریت خطرے میں پڑ گئی اور دوسری جانب پاکستانی وزیر اعظم کا بیان کہ ہم مزید مہاجرین برداشت نہیں کر سکتے‘ ایک سوالیہ نشان ہے۔

مودی پہلے دن سے پاک بھارت تعلقات کے حق میں نہیں تھا اور اس کی الیکشن کمپین کی بنیاد ہی مسلم کمیونٹی اور پاکستان کے خلاف نفرت پہ کھڑی تھی سو حکومت میں آتے ہی اس نے اپنی منفی ذہنیت کو پروان چڑھایا اور آج مودی کی شدت پسند ذہنیت نے پاک و ہند کے تعلقات کو خراب نے میں جو بنیادی کر دار ادا کیا وہ انتہائی قابلِ افسوس ہے۔ عالمی ادارے جو امن کی آشا کا راگ الاپتے ہیں ’وہ بھی نیند کی گولی کھا کر سو رہے ہیں۔ کیا مودی اسی طرح پاک و ہند میں ہندومسلم جنگ کو ہوا دینے کی ناکام کوشش کرتا رہے گا یا پھر کشمیر سمیت دیگر انڈیا میں مسلمان کمیونٹی کو حقوق ملیں گے۔

انڈیا کی تازہ ترین صورتحال کے بعد آپ پاکستان میں دیکھ لیں۔ یہاں کٹاس راج ہو ننکانہ صاحب یا کرتارپور، ہندو اور سکھ یاتری جب بھی پاکستان آئے انہیں ہم سے بے تحاشا عزت و توقیرملی۔ آج جب پورا پاکستان عمران خان پر تنقید کر رہا ہے، عمران خان اقلیتوں اور سکھ یاتریوں کے ساتھ کھڑا ہے۔ اس کی وجہ ہمارا آئین اور مذہب ہے جس نے ہمیشہ دوسرے مذاہب کی عبادت گاہوں کو عزت دی اور انہیں عبادات کا پورا حق دیا۔ مگر افسوس مودی سرکار جس کا نہ کوئی مذہب ہے اور نہ کوئی آئین اور قانون۔

وہ اپنی ذاتی نفرت میں آکر دو ملکوں ’دو مذاہب اور دو سرحدوں کے درمیان خانہ جنگی پھیلا رہا ہے جو اس کی اپنی ذات کو نقصان پہنچائے گی۔ اس اشتعال انگیزی کا شکار دونوں ملکوں کا آرٹسٹ طبقہ ہوا۔ کوئی شاعر‘ ادیب تھا یا فنکار و گلوکار ’دونوں ملکوں میں ان پر دروازے بند کر دیے گئے اور جس سے دونوں ملکوں کے ثقافتی تعلق کو شدید نقصان پہنچا۔ میری دونوں حکومتوں سے صرف اتنی گزارش ہے کہ ”امن کی آشا“ کا نعرہ فنکاروں اور لکھاریوں کے تبادے سے ہی ممکن ہے کیونکہ آرٹسٹ کسی بھی ملک کا دماغ ہوتے ہیں‘ قوموں میں امید و یاسیت کی فضاپیدا کرنے اور تہذیب و ثقافت کے پرچار میں لکھاری اور فنکارہی اہم کردار ادا کر سکتے ہیں لہذا انڈیا کو اس حوالے سے مثبت رویہ اپنانا ہوگا کیونکہ آئے روز پاکستان آنے والے ہندو اور سکھ یاتریوں کو ہم ہمسائے ملک کا نمائندہ سمجھ کر عزت دیتے ہیں سو ہمیں بھی اس عزت سے نوازا جائے۔ کٹاس اور ننکانہ صاحب ان کا مذہبی ورثہ ہے اور ہم اس ورثے کی گزشتہ ستر سال سے حفاظت کرتے آ رہے ہیں اور کرتے رہے گے سو پاکستانی ادبا اور فنکاروں کے ساتھ بھی ویزہ پالیسی کے معاملے میں نرمی برتی جائے اور دونوں ملکوں کے تخلیق کاروں اور فنکاروں کو ثقافتی اور ادبی پرچار کی اجازت دی جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments