جنرل قاسم سلیمانی کا تابوت اور ایرانیوں کا ’تبرک‘


ایرانی جرنیل قاسم سلیمانی کی میت کا ایران میں سفر جاری ہے اور جہاں جہاں ان کی میت لے جائی جا رہی ہے وہاں لوگوں کا ایک سیلاب انھیں خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے امڈتا دیکھا گیا ہے۔ بی بی سی اردو کی حمیرا کنول نے تہران میں مقیم ایک صحافی سے قاسم سلیمانی کی امریکی حملے میں ہلاکت کے بعد ایران میں سامنے آنے والے ردعمل پر بات کی۔


ایرانی عوام شاید سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ ان کے قومی ہیرو کو یوں ہلاک کر دیا جائے گا۔

یہاں ان کی شبیہ ایسی تھی کہ جیسے انھیں کوئی طاقت نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ سوچا نہیں جا سکتا تھا کہ کوئی انھیں بھی مار سکتا ہے، ہٹا سکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

سلیمانی کا جنازہ، تہران کی سڑکیں سیاہ پوشوں سے بھر گئیں

جنرل سلیمانی کو اب کیوں مارا گیا اور آگے کیا ہو گا؟

قاسم سلیمانی: ایرانیوں کا ہیرو، امریکہ میں ولن

قاسم سلیمانی کی ہلاکت اور ذہن میں گردش کرتے سوالات

جب یہ خبر صبح کے وقت ملی تو کسی کو بھی یقین نہیں آرہا تھا۔ پھر آہستہ آہستہ یہ مانا گیا کہ ہاں ایسا ہو چکا ہے، وہ بھی فانی تھا۔ اسے ہضم کرنے میں اس حقیقت کو تسلیم کرنے میں ایرانی قوم کو صبح کے بعد شام تک یعنی پورا دن لگ گیا۔

یہاں شدید غم غصے کی فضا ہے۔ جنرل قاسم سلیمانی جن کی عوامی مقبولیت ان کی ہلاکت سے پہلے 83 فیصد تھی میرے خیال میں اگر اب آج اسے دیکھا جائے تو یہ یقیناً 98 سے 100 فیصد تک ہو گی ۔

یہاں تہران میں جگہ جگہ جنرل سلیمانی کی بڑی بڑی تصاویر آویزاں کی گئی ہیں اور ان پر افتخارِ اسلام، سردار بزرگ کے خطابات اور القابات لکھے گئے ہیں۔ جو ان کی پہلے سے شبیہ تھی اسے مزید بڑھانے کے لیے حکومتی مہم بھی جاری ہے۔

ایرانی قوم جنرل سلیمانی کی ممنون ہے کہ اس شخص نے ہمارے لیے قربانی دی۔ میں یہاں موجود ہونے کی وجہ سے یہ بتا سکتا ہوں کہ ایران کی سرحدوں کے اندر رہتے ہوئے یہ کبھی محسوس نہیں ہوتا کہ یہ ملک ‘حالت جنگ’ میں ہے اور تاثر یہی ہے کہ اس سب کی بڑی وجہ یقیناً جنرل سلیمانی ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ایرانی قوم ان کی ممنون ہے، احسان مند ہے اور اس کا ثبوت یہاں سے ملتا ہے کہ لوگ امڈ امڈ کر ان کے تابوت کو دیکھنے، انھیں خراج تحسین پیش کرنے کے لیے آ رہے ہیں۔

آج یہاں تہران میں انھیں لایا جا رہا ہے۔ کل جب اہواز میں اور پھر مشہد میں جنرل سلیمانی کا تابوت آیا تو لاکھوں لوگ سڑکوں پر تھے جن میں مذہبی اور دیگر گروہوں کی تفریق نہیں تھی۔

جنرل سلیمانی کی وفات کی خبر کے بعد ملک میں دو طرح کے احتجاج دیکھنے کو ملے۔ ایک سوگوار اور دوسرا امریکہ مخالف۔

جنرل کانی

جنرل سلیمانی کی جگہ تعینات ہونے والے نئے لیڈر اسماعیل کانی

ایران میری نظر میں ایک مذہبی ملک نہیں۔ ایک چھوٹی سی ایمپائر ہے اور اسی طرح کا فخر اور افتخار بھی وہاں کے عوام میں ہے۔ یہاں کی سوسائٹی مذہبی نہیں ہے۔

ہاں یہ درست ہے کہ ایک طبقہ جنرل سلیمانی کے مخالف بھی ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ سکیورٹی کے لیے جنرل سلیمانی کی سخت پالیسی سے جمہوریت پسند نالاں تھے۔

جمہوری اقدار پر یقین رکھنے والوں کو جنرل سلیمانی کی پالیسیوں سے بہت نقصان پہنچا۔ اب سوال یہ کہ ان کا ردعمل کیا ہے تو زیادہ تر اس پر خاموش ہیں۔

وجہ یہ ہے کہ جس طرح سے انھیں ہلاک کیا گیا اس پر خاموشی ہے۔ ماحول اس طرح کا بن گیا ہے کہ اگر مخالف جذبات ہیں بھی تو وہ ان کا اظہار نہیں کر سکتا کیوں کہ اگر وہ ایسا کرے گا تو وہ فوراً غدار قرار پائے گا۔

میں اس حوالے سے زیادہ گہرائی میں نہیں جا سکتا، کچھ حد تک بات کر سکتا ہوں کہ جنرل سلیمانی جمہوری اقدار پر اتنا یقین نہیں رکھتے تھے۔

مثلاً ایک دو انتخابات میں کہا گیا کہ دھاندلی ہوئی ہے۔ مظاہرے شروع ہوئے۔ پھر ایرانی خفیہ ایجنسیوں کو یہ خبر ملی کہ مظاہروں کی آڑ میں غیر ملکی عناصر آرہے ہیں۔

پھر تیل کی قیمتوں میں اضافے کے بعد بھی ایسی خبریں سامنے ملیں۔ اس دوران املاک کو بھی نقصان پہنچا۔ ایسی صورتحال میں فوج کی جانب سے شدید کریک ڈاؤن بھی ہوئے اور متاثرین پھر جنرل سلیمانی کے مخالف ہوئے۔

اب سوال یہ کہ جنرل سلیمانی کی ہلاکت کے بعد عوام کیا چاہتے ہیں؟

پوری ایرانی قوم چاہتی ہے کہ بدلہ لیا جائے، امریکہ سے بھرپور بدلہ لیا جائے۔ لیکن وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ بدلہ اس طرح لیا جائے کہ پوری جنگ نہ چھڑ جائے۔

ان کو احساس ہے کہ اگر خدانخواستہ پوری جنگ چھڑتی ہے تو ایران امریکہ سے مقابلہ نہیں کر سکتا اس طرح سے۔

کچھ لوگوں کو غلط فہمی ہے ایران مقابلہ کر سکتا ہے لیکن زیادہ تر کو ادراک ہے کہ اگر پوری طرح سے جنگ ہوئی تو ایران کو شکست ہو گی۔

لیکن بالفرض اگر جنگ ہو جاتی ہے تو کیا ایران معاشی طور پر اور بحیثیت قوم اس کے لیے تیار ہے؟

تو ایران کےحوالے سے یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ برسوں اس سوسائٹی میں رہتے اور لوگوں سے بات چیت کرتے میں نے یہ دیکھا ہے کہ ایران کی فکر اور سوچ یہ ہے کہ وہ اپنے وطن اور اپنے لوگوں کے بارے میں یہ ہے کہ ان سے اچھا کوئی نہیں۔

جہاں تک معیشت کی بات ہے تو اس صورتحال کو کنٹرول کرنے کے لیے یہاں حکومت کا سبسڈی کا نظام بہت زبردست ہے۔

ایسی صورتحال نہیں کہ یہاں بھوک سے لوگ مر رہے ہوں۔ دال، چاول، دودھ حتنیً کہ انڈوں کی خرید کے لیے بھی حکومت سبسڈی دی جا رہی ہے۔

موبائل کی دکانیں بھی جو کئی ماہ پہلے بند ہوئیں تھیں اب کھل چکی ہیں۔ لوگوں نے نئی قیمتوں کو قبول کر لیا ہے۔

مجھے یوں لگتا ہے جیسے جنرل سلیمانی ایک اساطیری کردار تھا۔ مشہد میں سنا ہے کہ ان کے تابوت پر لگا پرچم لوگوں نے ٹکڑوں میں تقسیم کر کے اپنے پاس تبرک کے طور پر لے لیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp