ننکانہ صاحب میں ’چائے کی پیالی میں مکھی سے جھگڑا شروع ہوا‘


گردوارہ جنم استھان

جمعے کو ننکانہ صاحب میں گرودوارہ جنم استھان سے چند سو میٹر کے فاصلے پر ایک چھوٹے سے ٹی سٹال پر ایک کاہگ کی چائے کی پیالی میں مکھی گر گئی۔

بس پھر کیا تھا گاہک کی ٹی سٹال کے مالکان سے تو تو میں میں شروع ہو گئی اور نوبت ہاتھا پائی تک پہنچ گئی۔ ون فائیو پر کال چلی اور ہنگامہ آرائی کرنے والوں کو حراست میں لے لیا گیا۔

لیکن چائے کی پیالی سے آنے والا طوفان تھما نہیں۔ تھوڑی ہی دیر میں اس نے ننکانہ میں سکھوں کے خلاف مذہبی احتجاج کی شکل لے لی۔

کئی گھنٹوں تک گردوارہ جنم استھان کے جو کہ سکھ مذہب کے بانی بابا گرو نانک کی جائے پیدائش ہے، سامنے سکھوں کے خلاف تقاریر کی جاتی رہیں۔

سوشل میڈیا پر ویڈیوز شیئر ہونے لگیں جنھیں دیکھنے والے دم سادھے یہ سوچتے رہے کہ ابھی یہ ہجوم مشتعل ہوگا اور یہ اندیشہ پیدا ہوا کہ ایسا نہ وہ بات گرودوارے کی بے حرمتی تک جا پہنچے۔

یہ بھی پڑھیے

گرودوارہ ننکانہ صاحب کے باہر نعرے بازی کرنے والا گرفتار

’رویتا کا زبردستی مذہب تبدیل کرنے کے بعد نکاح کیا گیا‘

’مذہب کے نام پر ہماری بیٹیوں کا ریپ نہ کریں‘

عمران علی چشتی

عمران علی چشتی

طوفان کے پیچھے تھا کون؟

سوشل میڈیا پر جو ویڈیو سب سے زیادہ وائرل ہوئی اس میں عمران علی چشتی نامی ایک شخص کو سکھوں کے خلاف نفرت انگیز تقریر کرتے دیکھا جا سکتا تھا۔

غصے سے بھرے عمران نے دھمکی دی کہ وہ سکھوں کو ننکانہ صاحب سے نکال دیں گے اور یہ کہ ننکانہ صاحب کا نام بھی بدل دیں گے۔

عمران علی چشتی کا گھر گرودوارہ صاحب سے چند سو میٹر کے فاصلے پر ہے اور وہ ٹی سٹال جہاں لڑائی ہوئی وہ بھی عمران علی کے خاندان کا ہی ہے۔

جن لوگوں کو ہاتھا پائی کے بعد پولیس نے حراست میں لیا ان میں عمران کے مطابق ان کا بھائی، والد اور رشتے دار بھی شامل تھے۔

عمران نے بی بی سی کو بتایا کہ جس دن یہ واقعہ ہوا اسی دن ان کے بہنوئی کا انتقال ہوا تھا۔ تدفین کے بعد وہ گھر سے نکلے تو انھیں اپنی بہن کی کال موصول ہوئی جس میں اس نے گرفتاریوں کے بارے میں بتایا تو ’میں غصے سے پاگل ہو گیا‘۔

گردوارہ جنم استھان

’میڈیا کی سازش‘

گرودوارے کے سامنے ہونے والی ہنگامہ آرائی کے دو دن بعد سرکاری افسروں اور سکیورٹی اہلکاروں کے جھرمٹ میں وزیر داخلہ اعجاز شاہ جنم استھان پہنچے جن کا اپنا تعلق بھی اسی ضلع سے ہے۔

اعجاز شاہ نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’بین الاقوامی میڈیا اور کچھ مقامی ادارے اس واقعے کو زیادہ بڑھا چڑھا کے پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور ملک کے دشمن جو سکھوں اور پاکستان کے درمیان ہم آہنگی کو برادشت نہیں کر پا رہے اس صورتحال کا ناجائز فائدہ اٹھانے کی کوششں کر رہے ہیں لیکن حکومت سب ہی سے نمٹ لے گی‘۔

میڈیا سے تو انھوں نے پریس کانفرنس کے دوران ہی نمٹنے کی کوششیں بھی کیں۔

جب ان سے مقدمے کی ایف آئی آر کے بارے میں سوال کیا گیا تو انھوں نے جواب دیا ’کیا آپ جج لگی ہیں جو آپ کو ایف آئی آر کے بارے میں لگائی دفعات کے بارے میں فکر ہے۔‘

اعجاز شاہ

وزیرداخلہ اعجاز شاہ

گرودوارے میں کشیدگی کا ماحول

گرودوارے میں سکھوں کے دسویں گرو گوبند سنگھ کے جنم دن کی تقریبات کا سلسلہ جاری تھا جس میں شرکت کے لیے پنجاب بھر سے سکھ ننکانہ آرہے تھے۔

کچھ سکھوں نے میڈیا سے بہت ناراضگی کا اظہار کیا۔ ان کا یہی کہنا تھا کہ اس دن مقامی میڈیا کہاں تھا ’جب ہماری جان پر بنی تھی اور ہم کئی گھنٹے تک مدد کا انتظار کرتے رہے‘۔

سکھ برادری کا کہنا تھا کہ صرف سوشل میڈیا کے ذریعے ہی وہ اپنی آواز دنیا تک پہنچا سکے۔ کسی اور چینل نے ان کے ساتھ ہونے والی زیادتی کے بارے میں خبر نشر نہیں کی۔

آنکھوں دیکھا حال

ہرمیت سنگھ ننکانہ کے رہائشی ہیں۔ جس دن یہ واقعہ ہوا وہ گرودوارے کے اندر ہی تھے اور شام کو ہونے والی ایک تقریب کا بندوبست کر رہے تھے۔

ان کا کہنا ہے کہ کافی دیر تو انھیں یہ بھی سمجھ نہیں آئی کہ آخر ہوا کیا ہے۔ ہرمیت کہتے ہیں کہ باہر تقریباً چار سو لوگوں کا ہجوم تھا جس میں بہت سے نوجوان اور بچے تھے۔

’باہر ہمیں دھمکیاں دی جا رہی تھیں اور ہمارے دل ڈوب رہے تھے۔ ہمیں خوف بھی تھا اور غصہ بھی آرہا تھا کہ وہ ہمارے گردوارے کے بارے میں ایسے کیسے بات کرسکتے ہیں۔‘

ہرمیت سنگھ

ہرمیت سنگھ

ہرمیت کہتے ہیں کہ وہ درجن بھر لوگ جو گرودوارے کے اندر محصور تھے ان کے گھر والوں کی حالت خراب تھی۔ وہ انتہائی فکرمند تھے اور فون کر کے تاکید کر رہے تھے کہ ہجوم سے دور رہیں۔

ہرمیت کے مطابق اندر موجود کچھ لوگوں نے حالات زیادہ خراب ہونے پر ویڈیو بنا کر اسے سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنے کا فیصلہ کیا۔

’ہم چاہتے تھے کہ ہم تک مدد پہنچے۔ کافی دیر ہوچکی تھی ہجوم اکٹھا ہوئے اور پولیس یہاں نہیں پہنچی تھی۔ ہمیں خوف یہ تھا کہ گردوارے کی بے حرمتی نہ ہو۔‘

ہرمیت کہتے ہیں کہ ویڈیو بنانے والے لڑکوں پر باہر سے ڈنڈے اور پتھر برسائے گئے۔

گردوارہ جنم استھان

مسئلہ مذہب کا یا ذاتی مفاد کا؟

عمران چشتی کے خاندان کا ننکانہ کی سکھ برادری سے ایک اور تصفیہ بھی چل رہا ہے۔ یہ معاملہ ہے سکھ لڑکی جگجیت کور کا جنھوں نے عمران چشتی کے دعویٰ کے مطابق اپنی مرضی سے اسلام قبول کر کے عمران کے بھائی حسان سے نکاح کیا ہے۔

سکھ برادری یہ الزام عائد کرتی ہے کہ جگجیت کو اغوا کر کے ان سے زبردستی نکاح کیا گیا ہے۔ یہ معاملہ ابھی عدالت میں زیر سماعت ہے۔

عمران چشتی کا الزام ہے کہ سکھوں کے دباؤ پر انتظامیہ انھیں اور ان کے خاندان کو مختلف طریقوں سے ہراساں کر رہی ہے اور جمعے کو بھی جب انھیں اپنی بہن سے گرفتاریوں کی اطلاع ملی تو غصے سے ان کا ’دماغ خراب ہو گیا‘۔ انھوں نے سمجھا کہ اس کے پیچھے بھی سکھ برادری کا ہاتھ ہے۔

عمران چشتی کہتے ہیں کہ انھوں نہ جو کیا وہ غلط تھا اور وہ سکھ قوم سے اس پر معافی مانگتے ہیں۔

عمران محکمہ فشریز میں ملازم ہیں اور اپنے والد کے ساتھ محفلوں میں نعت خوانی کرتے ہیں۔

عمران کے والد ذوالفقار محکمہ اوقاف میں ملازمت کے دوران پچیس برس تک گردوارہ جنم استھان میں کام کرتے رہے ہیں۔

بی بی سی سے انٹرویو کے کچھ ہی گھنٹے بعد عمران چشتی کو پولیس نے گرفتار کرلیا۔ ان پر درج کی گئی ایف آئی آر کی کاپی تو سامنے نہیں آسکی تاہم مقامی صحافیوں کے مطابق ان پر دہشتگردی کی دفعات لگائی گئی ہیں۔

سردار مستان سنگھ

پاکستان سکھ کونسل کے صدر سردار مستان سنگھ

سکھوں کا مطالبہ

سردار مستان سنگھ پاکستان سکھ کونسل کے صدر ہیں ان کا کہنا ہے کہ اس واقعے سے سکھوں کے جذبات مجروع ہوئے ہیں۔

’ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ گرداوارے کے باہر ریڈ زون بنایا جائے تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات نہ ہوں۔‘

سردار مستان سنگھ کا کہنا تھا کہ سکھ برادری کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ ہنگامہ آرائی کرنے والوں پر توہین مذہب کا مقدمہ قائم کیا جائے۔

انھوں نے بتایا کہ ننکانہ میں ماحول ٹھیک ہے لیکن حکومت کو یہ یقینی بنانا ہو گا کہ مستقبل میں ایسے واقعات نہ ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32294 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp