جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں تشدد کا راز واٹس ایپ گروپ میں پوشیدہ تھا؟


انڈیا کے دارالحکومت نئی دہلی کی جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں اتوار کے روز ہونے والے تشدد کے بعد واٹس ایپ پیغامات کے کچھ سکرین شاٹس سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہے ہیں۔

ان سکرین شاٹس کے متعلق دعویٰ کیا گیا ہے کہ طالب علموں پر تشدد کے اس واقعے کی منصوبہ بندی کی گئی تھی اور یہ منصوبہ بندی واٹس ایپ پر ہوئی تھی۔

سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والے واٹس ایپ کے سکرین شاٹس میں کئی طرح کے پیغامات ہیں، مثلاً کیسے جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں داخل ہونا ہے؟ کدھر جانا ہے؟ کیا کرنا ہے؟ ان سب پر بات کی گئی ہے۔ کچھ پیغامات اس طرح کے بھی سامنے آئے ہیں:

’آج کا میچ کیسا تھا؟‘

’ہمیں جے این یو میں بہت مزہ آیا، ان غداروں کو مارنے کا بہت مزہ آیا۔‘

’اب تک سب اچھا جا رہا ہے۔ گیٹ پر کچھ کرنا چاہیے۔ مجھے بتائیں کیا کیا جائے۔‘

’لوگ مین گیٹ پر جے این یو کی حمایت میں جمع ہو رہے ہیں۔ کیا ہم کچھ کر سکتے ہیں۔‘

’ابھی تک پولیس نہیں آئی ہے۔‘

بھائی نے بائیں بازو کا رجحان رکھنے والے کے طور پر گروپ کو جوائن کیا۔‘

’نہیں۔ وائس چانسلر نے داخلہ منع کر رکھا ہے۔ اس کا اپنا وائس چانسلر ہے۔‘

یہ بھی پڑھیے

جواہر لعل نہرو یونیورسٹی پر حملے میں 20 طلبا زخمی

جے این یو میں بی جے پی کے حمایتیوں کو شکست

جے این یو میں’ اسلامی دہشتگردی’ کے کورس پر تنازع

واٹس ایپ کے وائرل ہونے والے سکرین شاٹس میں اس طرح کے بہت سے پیغامات دیکھے جا سکتے ہیں۔

اسی طرح دائیں بازو کی طلبا تنظیم اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشاد (اے بی وی پی) نے بھی واٹس ایپ کا ایک سکرین شاٹ شیئر کیا ہے۔

اس شکرین شاٹ میں کچھ لوگوں کو تشدد کے بارے میں بات کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ لوگ ایک دوسرے کو کامریڈ (دوست) کہہ کر بلا رہے ہیں اور ان کے نام بائیں بازو کی تنظیموں کے ساتھ لکھے ہیں۔

تاہم اس چیٹ میں کوئی نمبر دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ صرف پیغامات بھیجنے والے کا نام دکھائی دے رہا ہے۔ لہذا بی بی سی ان سے رابطہ نہیں کر سکا۔

جبکہ چند وائرل سکرین شاٹس میں موبائل نمبرز بھی دکھائی دے رہے ہیں۔

جب بی بی سی نے ’ٹرو کالر ایپ‘ کے ذریعے ان نمبرز کو چیک کیا تو پتہ چلا کہ یہ نمبر سکرین شاٹس میں دکھائی دینے والے ناموں پر ہی رجسٹرڈ ہیں۔

جانچ پڑتال پر سات افراد کے نام درست نکلے، جبکہ ایک شخص جس کا نام اے بی وی پی کے طور پر ظاہر ہو رہا تھا وہ کسی اور نام پر پایا گیا۔ ایسا کرنا ممکن ہے اگر کوئی آپ کے موبائل نمبر کا اندراج کسی اور نام سے موبائل فون میں محفوظ کر لے تو ایسا ہو سکتا ہے۔

بی بی سی نے سکرین شاٹس میں نظر آنے والے ان تمام نمبروں سے رابطہ کیا اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ یہ لوگ کون ہیں اور ان کا اس واقعے سے کیا تعلق ہے۔

واٹس ایپ چیٹ میں دو طرح کے نمبرز تھے

واٹس ایپ چیٹ میں دو طرح کے نمبر سامنے آئے ہیں۔ ایک وہ جو گروپ میں مسلسل پیغامات بھیج رہے تھے اور ان کے پیغامات پڑھنے کے بعد ایسا لگتا ہے کہ وہ کافی متحرک تھے اور منصوبہ سازی کر رہے تھے۔

دوسری طرح کے نمبرز وہ ہیں جن کو دیکھ کر لگتا ہے کہ وہ اس گروپ میں ’انوائٹ لنک کے ذریعے‘ شامل ہوئے ہیں۔

واٹس ایپ پر کسی بھی گروپ کا منتظم ایک لنک شیئر کر کے لوگوں کو گروپ میں شمولیت اختیار کرنے کی دعوت دے سکتا ہے اور اس لنک سے گروپ میں آنے والوں کو اجازت کی ضرورت نہیں ہوتی۔

ہم نے باری باری واٹس ایپ سکرین شاٹس میں نظر آنے والے نمبروں سے رابطہ کیا۔ پہلی طرح کے نمبر جن سے پیغامات لکھے گئے تھے، ان میں سے زیادہ تر بند تھے۔

ان میں سے ایک نمبر نے ہم سے بات کی۔ یہ نمبر ہرشیت شرما کا ہے جو خود کو جے این یو کا طالب علم بتاتے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ جب یہ واقعہ پیش آیا تو وہ کیمپس میں موجود نہیں تھے۔

وہ بتاتے ہیں کہ ’اس واقعے کے بارے میں بات چیت کیمپس میں واٹس ایپ گروپس کے ذریعے شروع ہوئی۔ ایک میسج یہ بھی تھا کہ آر ایس ایس اور اے بی وی پی کا بھی ایک گروپ ہے۔ انوائٹ لنک بھی دیا گیا اور کہا گیا کہ یہ لوگ یہاں منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ اس وقت گروپ میں 50 سے 60 طالب علم تھے۔ اس وقت وہ ہاسٹل میں داخل ہوئے اور مار دھار شروع کر دی۔‘

’ہم میں جے این یو کے بہت سے طلبا نے ان کی مستقبل کی منصوبہ بندی جاننے کے لیے انوائٹ لنک کے ذریعے اس گروپ میں شمولیت اختیار کی۔‘

انھوں نہ بتایا کہ ’ہم نے دیکھا کہ گروپ کا نام ’بائیں بازو کے خلاف اتحاد‘ تھا، اس وقت ساڑھے نو بجے تھے۔ وہ ایک دوسرے کو پیغامات بھیج رہے تھے۔ پھر اچانک 100 سے 150 نامعلوم افراد اس گروپ میں داخل ہوئے۔ پھر بائیں بازو کے کئی افراد گروپ میں شامل ہوئے۔ جس کے بعد میں نے گروپ میں پیغامات بھیجنے بند کر دیے۔‘

’گروپ میں بہت سے لوگوں نے کہا کہ اس دوران گروپ کا نام وقتاً فوقتاً تبدیل ہوتا رہنا چاہیے۔ کبھی بائیں بازو کے خلاف اتحاد، اے بی وی پی مردہ باد، اے بی وی پی زندہ باد، بائیں بازو والے ڈوب گئے۔‘

جب ہرشیت سے پوچھا گیا کہ انھوں نے بھی اس گروپ میں ایک پیغام بھیجا تھا جسے بعد میں ڈیلیٹ کر دیا گیا، وہ پیغام کیا تھا۔ تو انھوں نے بتایا ’جب یہ بات چل رہی تھی کہ وہ لوگ گیٹ پر آ رہے ہیں تو اس وقت میرے بہت سی دوست گیٹ پر موجود تھے، تو میں نے اس چیٹ کا سکرین شاٹ لے کر اپنے دوستوں کو بھیجا۔ اسی دوران میں نے غلطی سے وہ سکرین شاٹ اسی گروپ میں بھی بھیج دیا۔ اور پھر میں نے اسے ڈیلیٹ کر دیا۔‘

اس گروپ میں شامل ہونے والے دوسرے بہت سے لوگوں کا بھی دعویٰ ہے کہ انھیں گروپ میں شمولیت کا انوائٹ لنک واٹس ایپ گروپ اور سوشل میڈیا سے موصول ہوا۔ جس کے بعد انھوں نے مستقبل کی منصوبہ بندی جاننے کے لیے گروپ میں شمولیت اختیار کی۔

اس متنازعہ گروپ کے سکرین شاٹس میں بہت سے لوگ ہیں جو اپنا تعلق کیرالہ، کرناٹکا اور گجرات سے بتاتے ہیں۔ بہار سے تعلق رکھنے والے ایک لڑکے کے مطابق وہ کبھی دہلی آئے ہی نہیں اور نہ ہی وہ جے این یو میں کسی کو جانتے ہیں۔

کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ انھوں نے غلطی سے گروپ میں شمولیت اختیار کی۔ اسی طرح کچھ افراد کا کہنا ہے کہ ایک ذمہ دار شہری ہونے کے ناطے انھوں نے گروپ میں شمولیت اختیار کرنے کی ضرورت محسوس کی تاکہ وہ ان لوگوں کے مستقبل کے منصوبے کے بارے میں جان سکیں۔

تاہم بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جو جے این یو کے طلبا ہیں۔ اور وہ بھی ہرشیت کی طرح یہی کہہ رہے ہیں انھوں نے منصوبہ بندی کے بارے میں جاننے کے لیے گروپ میں شمولیت اختیار کی۔

جے این یو میں فارسی کے ایک طالب علم نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ان کے ڈیپارٹمنٹ کے واٹس ایپ گروپ میں انھیں اس گروپ میں شمولیت کا ’انوائس لنک‘ موصول ہوا جس پر انھوں نے کلک کیا۔ لیکن اس گروپ میں جاری گفتگو کو پڑھنے کے بعد انھوں نے فوراً گروپ چھوڑ دیا۔

اسی طرح ایک اور طالب علم نے بھی بتایا کہ انھیں یہ لنک موصول ہوا اور انھوں نے بھی مستبقل کی منصوبہ بندی جاننے کے لیے اس پر کلک کیا۔ ان طلبا کا تعلق سبرماتی ہاسٹل سے ہے جہاں یہ واقعہ پیش آیا۔

جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے باہر سے بھی بہت سے افراد اس گروپ میں شامل تھے۔ جن میں سے کچھ نے بتایا کہ نہ تو ان کا جے این یو سے کوئی تعلق ہے اور نہ ہی وہ طالب علم ہیں۔

ایک خاتون نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ بہت سے احتجاجی واٹس ایپ گروپوں میں شامل ہے۔ اسی دوران انھیں بھی اس گروپ کا ایوائٹ لنک ملا۔ وہ ان لوگوں کی منصوبہ بندی کے بارے میں جاننے کے لئے اس گروپ میں شامل ہو گئی۔

بھاودیپ جن کا دعویٰ ہے کہ وہ ایک صحافی ہیں، کا کہنا ہے کہ وہ بھی گروپ میں جاری گفتگو پڑھنے کے لیے اس گروپ میں شامل ہوئے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس گروپ میں ابھی بھی 250 افراد موجود ہیں۔

ادیتیا کے مطابق انھیں گروپ میں کسی اور نے شامل کیا۔ وہ نہ تو جے این یو کے طالب علم ہیں اور نہ ہی کوئی سیاسی نظریہ رکھتے ہیں۔ اگرچہ ان کا کہنا ہے کہ وہ اس واقعے میں شامل کئی افراد کو جانتے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ دائیں بازو کے نظریات کے حامل کئی پروفیسرز اس واقعے میں ملوث ہیں۔

ایسا ہی کچھ اشیش نے بھی کہا جو جے این یو میں پی ایچ ڈی کے طالب علم ہیں لیکن وہ بھی اس متنازعہ گروپ کے کئی منتظمین میں سے ایک ہیں۔

تاہم ان کا کہنا ہے کہ ان کو کسی اور نے گروپ میں شامل کر کے منتظم بنا دیا جبکہ وہ کیمپس پر موجود بھی نہیں تھے۔

وہ کہتے ہیں کہ وہ اس واقعے کی رات گھر سے واپس آئے۔ ’میں رات دس بجے جے این یو پہنچا، میں پانچ گھنٹے باہر کھڑا رہا، میرا اس واقعے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔‘

ان سب افراد کا کہنا ہے کہ اس واقعے کی رات سے انھیں مسلسل فون کالز موصول ہو رہی ہیں، ان کو دھمکیاں دی جا رہی ہیں اور ان کے مقام کے بارے میں پوچھا جا رہا ہے، جس کی وجہ سے یہ لوگ خوفزدہ ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32547 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp