پاکستان میں دیت کا قانون طاقتور کے لیے انصاف سے بچنے کا ہتھیار کیوں بن رہا ہے؟


پاکستان، قتل، قوانین

پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کے مضافاتی علاقے میں ہونے والا وہ قتل اتنا ظالمانہ تھا کہ اس کی تحقیقات کے لیے آئے مضبوط دل پولیس اہلکاروں کو بھی دھچکا لگا تھا۔

28 سالہ خاتون خانہ بشریٰ افتخار پر ان کے قاتل نے اس شدت سے وار کیے تھے کہ استعمال ہونے والے چاقو کا پھل مُڑ گیا تھا جس کے بعد حملہ آور ان پر پیچ کس سے حملہ وار کرتا رہا تھا۔

بشریٰ افتخار کا قاتل کوئی اور نہیں ان کا اپنا خاوند سمیع اللہ تھا۔

اس شادی شدہ جوڑے کے چار بچے تھے اور قتل کے وقت بشریٰ افتخار اپنے پانچویں بچے کے ساتھ حاملہ تھیں۔ ان کے خاوند نے انھیں کیوں مارا، یہ اب بھی واضح نہیں ہو سکا۔

یہ بھی پڑھیے

قصاص اور دیت کے قوانین سے کیا تبدیلی آئی؟

صلاح الدین کیس میں پولیس کو معافی کیسے ملی

فرحت اللہ بابر: قتل بھی مذہب کی آڑ میں چھپا دیے جاتے ہیں

‘اصل سزا اس معاشرے میں عورت کو ہی ملتی ہے‘

سمیع اللہ نے عدالت میں دعویٰ کیا کہ وہ ایک ذہنی مرض میں مبتلا تھے اور انھیں واقعے سے متعلق کچھ بھی یاد نہیں۔ بشریٰ کے خاندان نے کہا ہے کہ سمیع اللہ نے اپنی بیوی پر ایک دوسرا مذہبی فرقہ قبول کرنے کی خواہش کا الزام لگایا تھا۔

لیکن یہ واضح ہے کہ سمیع اللہ بےرحم شخص تھا۔ ماضی میں ان پر الزام لگائے گئے تھے کہ انھوں نے اپنے ہمسائے کو قتل کرنے کی کوشش کی تھی جبکہ وہ ایک ریستوران میں پرتشدد بحث کا حصہ بھی بنے تھے۔

پولیس کے مطابق انھیں قید میں ہونا چاہیے لیکن اس کے برعکس انھوں نے ایک مناسب مقدمے کا سامنا بھی نہیں کیا۔

بشریٰ افتخار کے بھائی کے مطابق سمیع اللہ کا خاندان مقامی سطح پر بااثر ہے اور انھوں نے گذشتہ مقدمات میں متاثرین کو پیسے بھی دیے تھے۔

محمد زکریا نے بغیر لگی لپٹی رکھے بی بی سی کو بتایا: ’ماضی میں بھی مقدموں میں انھوں نے پیسے دیے اور جلد ہی جیل سے باہر آ گئے تھے۔‘

پاکستان میں دیت کے قانون کے مطابق قتل جیسے سنگین جرم میں بھی مقتول کے خاندان کے پاس ملزمان کو معاف کرنے کا حق ہوتا ہے۔ انھیں صرف عدالت میں اتنا کہنا ہوتا ہے کہ ’ہم انھیں خدا کے لیے معاف کرتے ہیں۔‘

درحقیقت قانونی ماہرین کے مطابق اس ’معافی‘ کا بنیادی مقصد مالی مفاد ہوتا ہے اور متاثرین کو غیر رسمی طریقے سے رقم کی ادائیگی کسی طرح غیرقانونی نہیں ہوتی۔

پاکستان، قتل، قوانین

محمد زکریا کے مطابق شروع کے واقعات میں معافی ملنے پر ان کے بہنوئی مزید پرتشدد ہوگئے تھِے

جسمانی تشدد کے جرائم کی صورت میں ’تصفیہ‘ یا ’معافی‘ کی دفعات پہلی مرتبہ 1990 کی دہائی میں اسلام سے متاثر قانونی اصلاحات کے طور پر متعارف کرائی گئیں تھی۔

اس نظام کی حمایت کرنے والے کہتے ہیں کہ پاکستان میں عدالتی نظام پر کافی بوجھ ہے اور یہ تاخیر کا شکار ہے جبکہ ان دفعات سے نظام پر دباؤ کم رکھنے میں مدد ملتی ہے اور اس سے فسادات بڑھنے کے امکان بھی کم رہتے ہیں۔

لیکن ایک تحقیق کے مطابق سنہ 1990 میں قتل کی سزا ملنے کی شرح 29 فیصد تھی اور ان قوانین کے آنے سے یہ گِر کر سنہ 2000 میں صرف 12 فیصد رہ گئی تھی۔

ناقدین کہتے ہیں کہ اس قانون سے بار بار جرم کرنے والوں کو ایک طرح کا استثنیٰ مل جاتا ہے اور یہ طاقتور افراد کے لیے انصاف سے بچنے کا ہتھیار بن جاتا ہے۔

بشریٰ افتخار کے بھائی کے خیال میں یہ حقیقت کہ بشریٰ کے قاتل کو ماضی میں کسی مقدمے میں بھی سزا نہیں ملی ان کے مزید پرتشدد ہونے کی وجہ بنی۔

’وہ متکبر ہو گئے۔ انھوں نے سوچا: ’میں نے یہ (جرم) کیا اور کچھ نہیں ہوا۔ اب میں آزاد ہوں اور قانون مجھے ہاتھ بھی نہیں لگا سکتا۔‘‘

سمیع اللہ کا خاندان یہ تسلیم کرتا ہے کہ گذشتہ مقدمات ’سمجھوتوں‘ سے حل ہوئے لیکن وہ کہتے ہیں کہ انھوں نے متاثرین کو تاخیر کے شکار عدالتی نظام سے بچنے کے لیے منایا، نہ کہ اس لیے کہ سمیع اللہ قصور وار تھے۔

فی الحال سمیع اللہ قتل کے مقدمے میں سزائے موت پانے کے بعد اس کے خلاف درخواست دائر کر رہے ہیں۔

پاکستان، قتل، قوانین

جرم کے کئی مقدمات عدالت پہنچنے سے پہلے طے ہوجاتے ہیں (اسلام آباد میں سپریم کورٹ کی ایک تصویر)

سابق اٹارنی جنرل اشتر اوصاف علی نے سنہ 2015 میں قانونی اصلاحات کا منصوبہ بنایا تھا لیکن اس میں بھی ’معافی‘ کی گنجائش رکھی گئی تھی۔

انھوں نے لاہور میں اپنے دفتر میں بی بی سی کو بتایا کہ ہر شخص کے پاس معاف کرنے کا حق ہوتا ہے۔ تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’جرم محض انفرادی معاملہ نہیں بلکہ پورا معاشرہ اس سے متاثر ہوتا ہے۔‘

ان کا ارادہ کم از کم لازم سزا متعارف کرانا تھا تاکہ ’لوگ جان سکیں کہ جرم کی کوئی قیمت نہیں ہوتی۔‘

بعض علما کی حمایت کے باوجود اشتر اوصاف علی کی تجاویز کو کئی قدامت پسند مذہبی سیاستدانوں کی جانب سے روک دیا گیا تھا اور اس وقت اس کے منظور ہونے کے بہت کم آثار ہیں۔

نظام کو کمزور کرنا

کبھی کبھار جرائم کے خلاف لڑنے والے پولیس افسران اور استغاثہ کے لیے موجودہ قانون پریشانی کا باعث بنتا ہے۔

عدالت کے پاس تصفیہ مسترد کرنے کا حق بھی ہوتا ہے، اگر انھیں لگے کہ متاثرین کو زبردستی اسے تسلیم کرنے کا کہا جا رہا ہے لیکن مبصرین کے مطابق عدالتی نظام میں مقدمات کی بڑی تعداد کی وجہ سے ایسا کم ہی ہوتا ہے کہ تحقیقات اتنی جامع ہوں۔

دریں اثنا ایک تفتیشی افسر نے بی بی سی کو بتایا کہ انھوں نے درجنوں ایسی مثالیں دیکھی ہیں جن میں ملزمان اپنے مبینہ متاثرین کے ساتھ تصفیہ کے بعد دوبارہ کسی جرم کے مرتکب ہوئے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’پولیس کسی جرم کی تحقیقات میں اپنا وقت اور وسائل صرف کرتی ہے لیکن اس کے باوجود کیس اچانک ختم ہوجاتا ہے اور کبھی کبھار ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ تصفیہ میں پولیس کا اپنا مفاد ہو۔‘

اگست 2019 میں ایک سی سی ٹی وی ویڈیو میں دیکھا گیا کہ ایک چور کیمرے کی طرف دیکھتے ہوئے زبان چڑا رہا ہے۔ یہ چور پاکستان کے شہر فیصل آباد کے ایک بینک سے اے ٹی ایم کارڈ چرا رہا تھا اور اس کی یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی تھی۔

لیکن اس مقدمے نے اس وقت ایک سنگین شکل اختیار کر لی جب صلاح الدین ایوبی نامی وہ شخص گرفتاری کے بعد پولیس کی تحویل میں ہلاک ہو گیا۔

عجب سمجھوتہ

صلاح الدین کی ایک ویڈیو نے مزید شکوک و شبہات کو جنم دیا۔ اس ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک اہلکار نے ابتدائی طور پر پولیس کے سامنے گونگا اور بہرا ہونے کا دکھاوا کرنے والے صلاح الدین کا بازو موڑا ہوا ہے جس سے انھیں تکلیف پہنچ رہی ہے جبکہ ایک دوسرا اہلکار ان سے پوچھ گچھ کر رہا ہے۔

صلاح الدین کے والد محمد افضل نے آغاز میں اپنے بیٹے کے لیے انصاف کے حصول کا فیصلہ کیا۔ یہ کہا جا رہا تھا کہ صلاح الدین ذہنی مرض میں مبتلا تھے۔

تاہم ایک ماہ بعد انھوں نے اعلان کیا کہ وہ صلاح الدین کے قتل میں مبینہ طور پر ملوث پولیس اہلکاروں کو ’خدا کے لیے معاف کر رہے ہیں۔‘

اطلاعات کے مطابق اس کیس میں تصفیہ یا سمجھوتہ اس بات پر ہوا کہ حکام اس خاندان کے گاؤں میں ایک آٹھ میٹر لمبی سڑک اور نئی گیس پائپ لائن تعمیر کریں گے۔ یہاں غیر وضاحت شدہ رقم کی ادائیگی بھی قابل ذکر ہے۔

صلاح الدین کے والد اس معاہدے سے مطمئن تھے جسے ایک ایسے سخت گیر عالم کے ذریعے ممکن بنایا گیا جس کے خفیہ اداروں سے تعلقات ہیں۔

لیکن ایسے افراد جن کے پاس ایسی طاقت ور حمایت اور لوگوں کا ساتھ نہ ہو انھیں یہ محسوس ہوتا ہے کہ ان کے پاس معاہدہ قبول کرنے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہے۔

لاہور کے مضافات میں میں ایک ایسے خاندان سے ملا جس کا ایک فرد بھی پولیس کی تحویل میں ہلاک ہوا تھا۔ اسے قتل کے غلط الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔

بی بی سی کی جانب سے اس خاندان کے افراد کے نام اس لیے ظاہر نہیں کیے جا رہے تاکہ انھیں کسی برے انجام سے محفوظ رکھا جا سکے۔ وہ کہتے ہیں کہ رقم کی ادائیگی اور دباؤ دونوں کی وجہ سے انھوں نے پولیس افسران کے خلاف مقدمہ واپس لے لیا۔

مقتول کے بھائی نے کہا: ’ہم نے انھیں اپنے دل سے معاف نہیں کیا۔ ہم انھیں کبھی معاف نہیں کریں گے۔ لیکن ہمارے پاس اور کوئی راستہ نہیں تھا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ جب انھوں نے انصاف کے حصول کی کوششوں کا آغاز کیا تو ان کے دروازے پر مقامی سیاستدانوں اور بااثر شخصیات کی آمد کا سلسلہ شروع ہوگیا۔

’وہ مجھے کہتے تھے: ’معاہدہ کر لو۔ اگر آپ نے یہ معاہدہ نہ کیا تو آپ ویسے بھی کچھ نہیں کر پاؤ گے۔ شاید وہ چھ ماہ یا ایک سال کے لیے جیل جائیں گے۔ قید سے نکلنے کے بعد وہ آپ کو ہر قسم کا نقصان پہنچا سکتے ہیں۔‘

یہ خاندان غریب ہے اور اسے اتنے پیسے دیے گئے کہ انھوں نے ایک گھر خرید لیا۔ یہ شاید اس صورت ممکن ہو پاتا اگر وہ بہت زیادہ محنت کرتے۔ انھوں نے معاہدہ قبول کر لیا لیکن مقتول کی والدہ مجبوری میں سمجھوتہ منظور کرنے کے باوجود اب پریشان ہیں۔

وہ کہتی ہیں: ’میں خدا سے دعا مانگتی ہوں کہ ہم ایک کرائے کے گھر میں رہ رہے ہوتے لیکن میرا بیٹا اب بھی زندہ ہوتا۔‘

’انھوں نے میرا بیٹا لے لیا اور مجھے ایک گھر لینے کے پیسے دے دیے۔ یہ کیسا معاہدہ ہے؟‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp