سانڈوں کی لڑائی سے بچنے کا زمانہ


ایک امریکی محاورہ ہے ’’مسخرے کی حمایت کے عوض سرکس ہی ملے گا‘‘۔( سمجھ تو آپ گئے ہوں گے )

ایک عراقی کنٹریکٹر کی ایران نواز ملیشیا کے ہاتھوں ہلاکت کے بدلے امریکا نے ملیشیا کے ٹھکانوں پر بمباری کر کے پچیس چھاپہ مار ہلاک کر دیے۔اس کے ردِ عمل میں ایران نواز مظاہرین نے بغداد کے امریکی سفارت خانے پر ہلا بول دیا جس کا بدلہ لینے کے لیے ایک امریکی ڈرون نے بغداد ایئرپورٹ کے علاقے میں اس ایران نواز ملیشیا کے کمانڈر اور ان کے ہمراہی افسانوی شہرت یافتہ سرکردہ ایرانی میجر جنرل قاسم سلیمانی کو ہلاک کر دیا اور اس کے ردِ عمل میں ایران نے جوہری افزودگی کے معاہدے کو مکمل طور پر طاق پر رکھ دیا اور اب امریکا یا ایران کی جانب سے اگلی کارروائی یا کارروائیاں کیا ہوتی ہیں،اردگرد کے ممالک دم سادھے منتظر ہیں۔

پاکستان چونکہ بحران زدہ بدقسمت خطے سے جڑا ہوا ہے لہذا دفترِ خارجہ کے تازہ بیان میں پاکستانی پریشانی صاف پڑھی جا سکتی ہے۔یعنی پاکستان کسی کو اپنی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔امریکی وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو کے ٹیلی فون کے بعد پاکستانی سپاہ سالار جنرل باجوہ نے بھی فریقین کو آپے سے باہر نہ ہونے کی تلقین کی ہے۔اس بحران سے چند دن پہلے سعودی وزیرِ خارجہ اور متحدہ عرب امارات کے ولی عہد یکے بعد دیگرے اسلام آباد کا ایک ایک دن کا دورہ کر چکے ہیں۔پاکستان کو کشمیر کے معاملے پر او آئی سی کے خصوصی اجلاس اور مزید عرب سرمایہ کاری کا لولی پاپ بھی پیش کیا جا چکا ہے۔

پاکستان نے چالیس برس پہلے افغان خانہ جنگی کے اژدھے سے مقابلے کے لیے مغربی و عرب امدادی ویکسین کو محفوظ سمجھنے کی جو غلطی کی اور اس کی قیمت جس طرح عرب و عجم کا اسٹرٹیجک فٹ بال گراؤنڈ بن کے ادا کی۔اس میچ کے دوران پھیلایا گیا کچرا پاکستان آج تک سمیٹ رہا ہے۔

اب اگر پاکستان کو ماضی کے ڈراؤنے خواب پھر سے ستا رہے ہیں تو یہ خوش آئند بات ہے۔ان ڈراؤنے خوابوں کا منطقی اعتبار سے تو مطلب یہی ہونا چاہیے کہ پاکستان بارِ دگر اسی سوراخ سے خود کو ڈسوانا نہیں چاہتا۔لیکن اس کے لیے جو حفاظتی حکمتِ عملی و بیدار مغزی درکار ہے کیا وہ پاکستان اختیار کر رہا ہے، کر پائے گا یا کرنا اس کے بس میں بھی ہے؟

ہم سب کو معلوم تو ہے پھر بھی ہم خود کو اب تک اس پر دل سے قائل کرنے کے لیے اجتماعی طور پر تیار نہیں کر پا رہے کہ آزاد و خود مختار خارجہ پالیسی کی ماں معاشی مضبوطی ہے۔ورنہ تو غریب کا غصہ یا خود پر اور گھر والوں پر نکلتا ہے یا پھر سر نیچا کر کے یا دیوار کی جانب چہرہ کر کے بربڑاتے ہوئے نکلتاہے۔معیشت کمزور ہو تو چار دیواری بھی اپنے معنی کھو دیتی ہے اور یہیں سے وہ محاورہ بنا ہے کہ غریب کی جورو سب کی بھابھی۔

غریب کے پاس سب سے بڑا قحط انتخاب کا ہوتا ہے۔کس کی مدد قبول کرے ، کس کی نہ کرے ، مدد کے ہمراہ آنے والی شرائط سے بچنے کے لیے کیا کرے اور مدد نہ قبول کرے تو اس کے اندرونی و بیرونی نتائج کا سامنا کیسے کرے۔

میری نسل اسکول کی معاشرتی علوم میں ہندوستان میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے امدادی نظام ( سب سڈیری سسٹم )  کے بارے میں پڑھ چکی ہے۔ہوتا یہ تھا کہ جس ریاست پر کمپنی قبضہ کرنا چاہتی تھی اس ریاست کے تحفظ کے بہانے زبردستی اپنی ایک دیسی کمپنی یا بٹالین وہاں بھیج دیتی اور ایک عدد انگریز کارندہ کمپنی بہادر کے ریزیڈنٹ(مستقل مندوب) کی حیثیت سے راجہ یا نواب کے دربار میں بٹھا دیا جاتا۔بن بلائی فوجی بٹالین اور ریزیڈنٹ کے جملہ اخراجات سیکیورٹی کے خرچے کے نام پر ریاستی خزانے سے منہا کر لیے جاتے تھے۔ان اخراجات کا بل اکثر اتنا بھاری ہوتا کہ ریاست اس کی ادائیگی سے قاصر ہوتی۔

چنانچہ اس کے بدلے ریاست کا ایک ٹکڑا اور نواب یا راجہ کے کچھ اختیارات کمپنی بہادر کو مرحلہ وار رہن ہو جاتے اور چند ہی برس میں پوری ریاست عملاً کمپنی بہادر ہڑپ کر جاتی اور راجہ یا نواب نمائشی اختیارات کے ساتھ کمپنی کا وظیفہ خوار بن جاتا۔کمپنی اس راجہ یا نواب کے ورثاء میں سے کبھی ایک کا ساتھ دیتی کبھی دوسرے کا اور اس تیے پانچے میں ریاست ہی غائب ہو جاتی۔برٹش انڈیا اسی طرح بنایا گیا۔

آج کل کمپنی بہادر کی جگہ معاشی طور پر مستحکم اور پیسے و سرمایہ کاری کے بدلے اپنی خارجہ پالیسی ڈکٹیٹ کرانے والی ریاستوں نے لے لی ہے۔پہلے کی طرح ان ریاستوں کو نہ تو لمبی چوڑی فوج کی ضرورت ہے، نہ ہی بہت زیادہ آبادی درکار ہے اور نہ ہی لحیم شحیم جغرافیہ۔آج کل سب اجرت پر مل جاتا ہے۔

اس تناظر میں اگر آپ پاکستان کی خارجہ پالیسی اور اس کے ساتھ جڑی مجبوریوں کا تصور کریں تو کہانی ایک جملے میں سمجھ میں آ جائے گی۔پچاس کی دہائی سے آج تک یہ دینے والے ہاتھ کی نہیں لینے والے ہاتھ کی خارجہ پالیسی ہے۔اگر یہاں کے وسائل کو بھرپور اور منصفانہ انداز میں تعلیمی، صنعتی و زرعی ترقی کے لیے استعمال کیا جاتا اور زرِمبادلہ کے ذخائر بھلے زیادہ نہیں صرف ہماری اندرونی ضروریات کے حساب سے اپنے بل بوتے پر برقرار رہتے تو ہم بھلے علاقائی حالات پر اپنی مرضی کے مطابق اثرانداز نہ بھی ہو سکتے تب بھی اپنے آپ کو اس مشروط ادھاری صورتِ حال سے ضرور محفوظ رکھ سکتے تھے کہ جس کے عوض ہمیں ہر امیر دوست اور قرض دینے والے ادارے کو ہر بار ایک بوٹی کے عوض اپنے جغرافئے، وسائل، افرادی و عسکری قوت اور حمیت کا پورا پورا بکرا دینا پڑا۔

ایسے میں اس طرح کے بیانات کا کوئی مطلب نہیں ہے کہ ہم کسی کو اپنی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔جو یہ کام کریں گے کیا آپ سے اجازت لے کر کریں گے۔پہلے کبھی ایسا ہوا ہے جو اب ایسا ہو جائے گا۔ایسے ہر قومی بیانیے پر عمل کرانے کے لیے جتنی قوت  اور عزم درکار ہوتا ہے۔ کیا وہ ہمارے پاس ہے ؟ اگر جواب اثبات میں ہے تو بہت اچھا ہے۔اگر جواب نفی ہے تو پھر اس وقت خود کو اسی طرح بچانے کی ضرورت ہے جس طرح آسٹریلیا کے جنگلوں میں لگی آگ سے تمام ذی روح بچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

خدا اس پورے خطے کو آسیب کے سائے سے جلد نکال لے تو اسی پر شکر بجا لائیے گا۔

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments