سندھی کسان اور کتّے کی گواہی


وہ قبر ذرا سی مختلف تھی۔ عام قبروں سے ہٹ کر بالکل سڑک کے ساتھ لگی ہوئی۔ میں تو اسے قبر نہیں سمجھا تھا۔ بس مٹی کا ایک ڈھیر تھا وہ کسی بھی طرح کوئی قبر نہیں لگ رہی تھی۔ اسی قبر نما مٹی کے ڈھیر کے سامنے میری گاڑی خراب ہوگئی تھی۔

میں جیکب آباد سے سبّی کے راستے پہ نکلاہی تھا اور شہر کے ساتھ لگی ہوئی دیہی آبادی کو چھوڑ کر مین روڈ پر چلا جارہا تھا کہ گاڑی کو روکنا پڑا۔ سڑک کی ایک بہت بڑی پٹی کی مرمت کی جارہی تھی۔ بے شمار مزدور کام پر لگے ہوئے تھے۔ پرانی سڑک کے پر نئے پتھر ڈالے جارہے تھے، بے شمار چھوٹی بڑی مشینیں سڑک کے ساتھ ساتھ کھڑی ہوئی تھیں، راستہ مکمل طور پر بند تھا۔ آگے صرف سڑک کی مرمت میں شامل گاڑیوں کو جانے کی اجازت تھی۔

پرانا جھٹ پٹ اور اب کا ڈیرہ اللہ یار کے بعد ٹمپل ڈیرہ جو اب ڈیرہ مراد جمالی کہلاتا ہے، سے کافی پہلے اُلٹے ہاتھ مڑنا پڑا تھا۔ ویسے تو راستہ سیدھا تھا۔ ڈیرہ مراد جمالی سے نو تال۔ پھر پیل پٹ جو اب بختیارآباد ہو گیا ہے۔ اس کے داہنے ہاتھ سے سبی اور پھر وہاں سے ڈھڈر، آبِ گم، مچھ، کول پور اور دشت ہوتے ہوئے کوئٹہ پہنچا جاسکتا تھا۔

یہ سارے راستے میرے جانے پہچانے تھے۔ ان شہروں کو اپنے پرانے اورنئے ناموں کے ساتھ میں خوب جانتا تھا۔ نام بدلنے کا فیشن پچھلے چند برسوں سے چلا ہے۔ آج کے حکمران نئے شہر نہیں بناتے ہیں۔ پرانے شہروں کو اپنے نام دے کر ان کا نام بدل دیتے ہیں۔ پر یہ نہیں سمجھتے کہ نام بدلنے سے تاریخ نہیں بدلتی ہے۔ لائل پور کا فیصل آباد، ڈرگ کالونی کو فیصل کالونی اور نواب شاہ کا بے نظیر آباد نام کردینے سے تاریخ تو نہیں بدل سکتی ہے۔

بلوچستان میں بھی یہی ہوا تھا جھٹ پٹ ڈیرہ اللہ یار بن گیا، ٹمپل ڈیرہ ڈیرہ مراد جمالی کہلایا اور پیل پٹ بختیار آباد بنادیا گیا۔ ہمارے حکمرانوں کی بات ہی کچھ اور ہے۔ ان کی سوچ اتنی ہی ہے۔ وہ یہی کرسکتے ہیں کہ شہروں کے نام بدل دیں، اپنے ناموں کی پلیٹیں لگالیں، ان پر بندھی ہوئی ربنیں کاٹ لیں مگروہ یہی نہیں سوچتے کہ چند سال نہیں گزرتے کہ نیا آنے والا اپنے نام کی تختی لگادیتا ہے۔ صرف نام بدل کر اور تختی کا ڈیزائن مختلف کر کے۔ تنگ سوچ کے چھوٹے حکمران ہماری قسمتوں کے مالک ہیں۔ کیا اچھا ہوتا کہ لائلپور کے ساتھ ایک شہر فیصل آباد بن جاتا، نواب شاہ سے اچھی ایک اور بستی بے نظیر آباد بنادی جاتی۔ میری سوچ تھی، احمقانہ سوچ۔

کچھ دنوں پہلے یہ ہوا کہ مقامی حکمرانوں کو فوجی حکومتوں نے ترقیاتی فنڈ کے نام پر بے شمار روپے دیے۔ غیر معیاری سڑکوں اوربے ڈھنگی عمارتوں کی تعمیر پر اربوں روپے صرف کردیئے گئے اورجس کا حصہ جہاں بنا اسے پہنچا دیا گیا۔ اس بات پر سب راضی ہیں کہ بچے بچیوں کے اسکول نہ کھولے جائیں، ہیلتھ سینٹر اور عورتوں کی بیماری کے مراکز نہ ہوں۔ علم کی روشنی نہ آنے پائے، تاریکی دور نہ ہو، اندھیرا جتنا رہے اتنا ہی اچھا ہے، روشنی جتنی آئے گی اتنا ہی بُرا ہوگا، یہی سرداروں جاگیرداروں وڈیروں اور ملاؤں کے اصول ہیں یہی پرانے سماج کا اور یہی ان حکمرانوں کا وتیرہ ہے۔ ان کا بس چلتا تو یہ سورج کی روشنی کو بھی قید کرلیتے۔ یہ روز نکل آتا ہے اُجالا کرنے کے لئے۔ نہ جانے کیوں؟

میں ٹمپل ڈیرہ کے ساتھ کچے راستے پر مڑگیا یہ سوچ کر کہ آج پاور پلانٹ سے ہوتا ہوا ربی کنال کے ساتھ پٹ فیڈر کے علاقے سے گزر کر دوبارہ راستہ پکڑلوں گا۔ ذرا لمبا ہوجائے گا جس کی مجھے فکر نہیں تھی کیونکہ یہ سارے علاقے ویسے بھی مجھے اچھے لگتے تھے۔ ان راستوں پر چلنا، گاڑی چلانا مجھے بہت پسند تھا۔ یہاں کے چھوٹے بڑے شہروں اورگاؤں دیہاتوں میں میرے مریض تھے، اوستا محمد، صحبت پور، ماچی پور، گندھاخاں جہاں بھی جاتا مریض اور مریضوں کے رشتہ دار خاطر ہی کرتے تھے۔ بڑے سردار بھی میری عزت ہی کرتے تھے کہ کسی نہ کسی طرح میں ان کے کام آتا ہی تھا۔

ویسے بھی یہ لوگ ڈاکٹر کا بہت خیال رکھتے ہیں۔ بیماری، دولت، سرداری، غربت، عہدہ دیکھ کر نہیں آتی ہے۔ جب کوئی بیمار ہوتا ہے تو اسے ڈاکٹر کے پاس تو جانا ہی ہوتا ہے۔ پاکستان جیسے ملکوں میں جہاں حکومت نے حکومت کے کام چھوڑے ہوئے ہیں وہاں سرداروں کی ہی حکومت ہے، ان کا ہی اقتدار ہے اور وہی حکومت کرتے ہوئے نظر بھی آتے ہیں کیونکہ عوام بھی ان کی ہی حمایت کرتے ہیں۔ جیسا تیسا دقیانوسی اور ہزاروں سال پرانانظام بگڑی ہوئی شکل میں کم ازکم انصاف دیتا ہوا نظر تو آتا ہے۔ مظلوم کی داد رسی تو ہوتی ہے۔ سردار کے فیصلوں پر عملدرآمد تو کیا جاتا ہے، کسی کی ہمت نہیں ہوتی کہ جرگے کے فیصلے کو نہ مانے۔ سردار کے حکم کو ٹالے۔ یہ نظام اپنی جگہ پر کام کررہا ہے۔

حکومت، حکومت کی عدالت، حکومت کی پولیس اور حکومت کی فوج کے کارنامے ایسے نہیں ہیں کہ عوام ان کے ساتھ چلیں۔ وقت پڑنے پر عام طور پر یہ طاقتیں ظالموں اور ظلم کے ساتھ ہوتی ہیں یہ تو کبھی کبھار ہی ہوا ہوگا کہ انہوں نے کبھی انصاف کے لئے غریب و مظلوم کا ساتھ دیا ہو، اُن کی داد رسی کی ہو۔ ہماری یہ تاریخ نہیں ہے۔

ربی کنال کے ساتھ مٹی کے ڈھیر کے سامنے درخت کے نیچے وہ بوڑھا بیٹھا تھا جہاں میری گاڑی خراب ہوئی تھی۔ اس نے مجھے دیکھ کر سلام کیا اور شناسائی کی چمک اس کی آنکھوں میں اُمنڈ آئی۔ میں اسے نہیں پہچانا تھا۔ یقیناً کوئی مریض یا مریض کا رشتہ دار ہوگا۔ غریب علاقوں اور دیہاتوں میں رہنے والے لوگ ڈاکٹر کو نہیں بھولتے ہیں۔ اس سے علاج کراتے ہیں وہ فیس نہ بھی دیں تو کچھ نہ کچھ ضرور دیتے ہیں۔ انگوٹھی، گھر کا کوئی قیمتی برتن کھیت میں لگی ہوئی کوئی سبزی، چاول یا کھجور کی بوری، سرخی مائل دیسی انڈے، مرغی یہاں تک کے بھیڑ بکریاں ڈاکٹر کی نذر کردیتے ہیں۔

ان کا بس نہیں چلتا کہ کس طرح سے ڈاکٹر کے احسان کو اُتاریں۔ غیرت اور یہ کوشش کہ احسان نہ لیں جیسے ان کے خون کا حصہ ہے ایسے نہ جانے کتنے واقعات ہیں جن کا میں بذات خود گواہ ہوں۔ یہی لوگ ہمارے گاؤں دیہاتوں دیہی علاقوں میں زندگی کی ایک ایسی جنگ لڑرہے ہیں جس میں ہار ان کا مقدر ہے۔ ہڑپہ اورموہنجودڑو کے زمانے سے یہی ہورہا ہے اور نہ جانے کتنے ہزاروں سالوں تک یہی ہوتا رہے گا۔ اِن غیرت مند لوگوں کے بے غیرت حکمران، سردار، مذہبی رہنما، محافظ، سپاہی، دانشور ان کو بیچتے رہیں گے اور یہ بکتے رہیں گے۔

وہ اُٹھ کر میرے پاس آیا۔ گاڑی یکایک بند ہوگئی تھی پھر اسٹارٹ ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ میں نے سوچا شاید گرم ہوگئی ہے تھوڑی دیر اس بوڑھے کے ساتھ بیٹھ جاتا ہوں جب ٹھنڈی ہوگی تو اسٹارٹ کروں گا۔ شاید اسٹارٹ ہوجائے ورنہ پھر ٹمپل ڈیرہ سے کسی مکینک کو بلانا ہوگا۔ یہ سوچ کر مجھے تھوڑی کوفت ہوئی تھی مگر کوئی اور چارہ نہ تھا۔

یہاں کیسے بیٹھے ہو سائیں، میں نے بوڑھے سے سوال کیا۔ وہ مجھے مقامی نہیں لگا۔ ان علاقوں میں کچھ پنجابی آبادکار بھی ہیں جنہوں نے صدیوں پرانی صحرا جیسی زمینوں کو آباد کیا تھا انہیں سرکار نے پنجاب سے لاکر غیرآباد بنجر زمینوں کے مالکانہ حقوق دیے تھے۔ وہ زمینیں جن کا سینہ کبھی بھی کسی نے چاک نہیں کیا تھا، جب کُوڑی گئی تو سونا اُگلنے لگیں۔ اب تو ان کی دوسری تیسری نسل رہ رہی تھی۔ چہرے کی ساخت سے تو یہ مقامی نہیں تھے مگر رہن سہن زبان ان کی مقامی ہی ہوگئی تھی۔ مگر اب کئی سالوں کے بعد مقامی سرداروں اور نوکرشاہی کی ملی بھگت سے زیادہ تر آبادکاروں کو ان علاقوں سے نکال دیا گیا تھا۔ زندگی بوجھل ہوجائے تو پھر نکلنا ہی پڑتا ہے۔ میں سمجھ گیا کہ وہ کوئی ایسا ہی آباد کار ہے۔

وہ مسکرایا پھر بولا کہ میں اس قبر پر آیا ہوں میرے گیرو کی قبر ہے۔ سال میں ایک دفعہ آتا ہوں۔ یہاں پر تھوڑی دیر بیٹھ کر چلا جاتا ہوں۔ سورج گِرے گا تو پھر چلا جاؤں گا، رات بھر کا راستہ ہے میرے گاؤں کا۔

ان علاقوں میں لوگ رات کو سفر کرتے ہیں۔ دن بھر کی سخت گرمی اور دھوپ میں چلنا بڑا مشکل ہوتا ہے۔ ٹھنڈی رات میں پیروں پیر میلوں کا فاصلہ طے کرلیتے ہیں یہ کسان۔

”اچھا کون تھا یہ تمہارا۔ ۔ ۔ ؟ بیٹا۔ ۔ ۔ ؟ کتنی عمر تھی اس کی۔ ۔ ۔ ؟ “ میں نے چھوٹے سے مٹی کے ڈھیر کو دیکھتے ہوئے کہا۔

”نہیں سائیں بیٹا نہیں تھا۔ میرا کتّا تھا گیرو۔ ہم ساتھ تھے دونوں جب یہاں پر وہ مرگیا تھا، تیرہ سال پہلے۔ “

میری سمجھ میں نہیں آیا کہ یہ بوڑھا تیرہ سال سے اپنے کتّے کی قبر پر رات بھر کی مسافت طے کرکے کیوں آتا ہے۔ آج کل تو لوگوں کو اپنے عزیز، دوست، رشتہ دار، ماں باپ کی قبروں پر جانے کا وقت نہیں ہے۔ اسے کتے کی قبر پر آنے کی کیا ضرورت ہے۔ مگر انسان عجیب ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر ہونے کی وجہ سے اور ان علاقوں میں کام کرتے رہنے سے مجھے انسانوں کے بارے میں عجیب عجیب باتیں پتہ لگتی رہی تھیں۔ ایسی باتیں جوکتابوں میں نہیں لکھی جاتی ہیں اور یونیورسٹیوں میں نہیں پڑھائی جاتی ہیں یہ ان کھیتوں، میدانوں، کھلیانوں، نہروں اور دریاؤں کی باتیں ہیں۔ یہ ان قدیم انسانوں کی باتیں ہیں جن کا رشتہ زمین سے ہے ان زمینوں سے جہاں ابھی تک شہروں کی تہذیبوں کا زہر نہیں پہنچا ہے جہاں جدید انسان ابھی تک ناپید ہے۔

”ایسی کیا بات تھی گیرو میں جو تم ہر سال یہاں آتے ہو۔ “ میں نے اسے غور سے دیکھا اور سوال کیا تھا۔

اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ تھوڑی دیر تک وہ آنسو روکنے کی کوشش کرتا ہوا مجھے دیکھتا رہا۔

”بابا وہ انسانوں سے بڑا تھا، بڑا تھا، بھائیوں سے، رشتہ داروں سے اور گاؤں والوں سے۔ میرے بیٹے کی طرح میرے خون کا حصہ تھا وہ۔ بیٹھ جاؤ، پانی پیو ڈاکٹر، پھر بتاتا ہوں۔ “ اس نے مجھے جواب دیا۔

ہم دونوں ہی درخت کے نیچے پھیلے ہوئے پتھروں پر بیٹھ گئے۔ اس نے اپنے تھیلے سے کچھ سوکھے کھجور نکال کردیئے۔ اور کہا کھاؤ اور پھر آہستہ سے بولا۔ ”پانی بھی ہے۔ “ اس نے درخت کے ساتھ رکھی ہوئی مٹی کی صراحی کی طرف اشارہ کرکے کہا۔ تم نے میرے بھائی کا علاج کیا تھا۔ بیماری سے وہ بچ گیا مگر حالات سے نہیں بچ سکا اور اب گاؤں چھوڑ کر چلا گیا ہے۔ سب چلے گئے ہیں مجھے بھی جانا ہوگا سب یہی چاہتے ہیں۔ مقامی غیر مقامی کا چکر ایسا چلا ہے کہ اب کوئی نہیں رہے گا یہاں پہ۔ اب ہماری ضرورت بھی نہیں ہے یہاں پہ۔ ”

”رابی کنال کے ساتھ میری بھی زمین تھی مگر سردار کا حکم تھا کہ میں زمین اس کے پاس اس کی لگائی ہوئی قیمت پر بیچ دوں جس کے لئے انہوں نے سب کچھ کیا، ہماری عورتوں کو بے عزت کیا، ہمارے بچوں کو مارا، ہماری مویشی اٹھا کر لے گئے اورایک رات خاموشی سے کنال کا بند ایسا توڑا کہ ہمارا تو گاؤں ہی بہہ گیا اور ہم سب کو بے دخل ہونا پڑا۔ جب گاؤں سے نکل کر ہم لوگ جنگل میں پہنچے تو ان کے کارندوں نے زمینوں پر قبضہ کرلیا اور ہم سے کہہ دیا کہ جان چاہتے ہو تو ادھر نہ آنا۔ یہ پرانی بات ہے جب گیرو زندہ تھا۔

مجھے ان حالات کا پتہ تھا پرانی بات تھی۔ جب اس علاقے میں آبادکاروں کے خلاف مہم چلائی گئی تھی، کئی کسان مارے گئے تھے اور زیادہ تر چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ میں توجہ سے اس کی بات سن رہا تھا۔

”پولیس، حکومت مقامی لوگ سب ہمارے خلاف تھے۔ انصاف نہیں ہوتا تھا مگر کرنا اوپر والے کا یہ ہوا کہ فوجی حکومت آگئی، جب فوجی آتے ہیں تو چیزیں بدلتی ہیں اور سردار بھی بدل جاتے ہیں، پولیس بھی بدل جاتی ہے، اس دفعہ بھی یہی ہوا۔ فوجیوں نے ایک سرکاری کارندے کو بھیجا تو میں بھی اپنی درخواست لے کر پہنچ گیا۔ وہ کوئی اللہ کا بندہ نیک، ایماندار، شریف سرکاری افسر تھا۔ اسے میں نے ساری روداد سنائی کہ کس طرح سے میرے جوان بیٹے کی جان لی گئی ہے اور ہم لوگوں کو زمینوں سے بے دخل کرکے جنگل میں پھینک دیا گیا ہے۔ اسے میری بات سمجھ میں آئی تھی۔ پر میرے پاس سرکار کے کاغذ نہیں تھے اور اُس سرکاری کارندے کے پاس سرکار کا ریکارڈ نہیں تھا۔ وہ مجھے پولیس کے ساتھ زمینوں پر لے کرآیا کہ میں کسی کی گواہی لاؤں تو وہ مجھے قبضہ دلا دے پھر بعد میں شہر سے سرکار کے کاغذ دوبارہ بن جائیں گے۔

میرے پاس کوئی گواہی نہیں تھی۔ میں نے گاؤں والوں کے پیر پکڑے کہ تم لوگ مجھے جانتے ہو۔ اس زمین کو میں نے کُوڑا ہے اس دھرتی پر میں نے بیج بوئے ہیں، پانی دیا ہے۔ اپنی جوانی دی ہے، یہ اُجڑا گاؤں یہ اصطبل میرا ہے سامنے آؤ اور آکر بتاؤ کہ یہ زمین کس کی ہے۔ ایک آدمی ایک پڑوسی کوئی گاؤں والا۔ مگر سردار کے خوف سے کوئی بھی گواہی دینے نہیں آیا تو افسر نے کہا، بابا تمہارے پاس کاغذ ہے نہیں، گواہی کوئی دیتا نہیں تو ہم زمین تم کو کیسے دے سکتے ہیں۔ ”یہ کہہ کروہ خاموش ہوگیا تھا۔

”پھر تم نے کیا کیا تمہارے کاغذات کیوں نہیں تھے تمہارے پاس۔ “

”کاغذات تھے مگر جب نہر ٹوٹی اور پانی چڑھا تو ٹین کے صندوق میں دبے ہوئے پرانے کاغذات تو ختم ہوگئے، پھٹ گئے۔ “ اس نے جواب دیا۔ پھر فوراً ہی بولا کہ میں نے اس افسر کو کہا کہ ”بابا میرا کتا گیرو اور میرا گدھا ڈگّو ادھر ہی ہوگا۔ میں انہیں بلاتا ہوں شاید آپ کی سمجھ میں میری بات آجائے۔ “

پھر میں نے گیرو اور ڈگو کے لئے زور زور سے آواز لگائی تھی۔ تھوڑی دیر میں شیر کی طرح دوڑتا بھاگتا ہوا گیرو میرے پیروں پر آکر گرگیا۔ مجھے چوم رہا تھا، میرے ہاتھوں کو چاٹ رہا، میرے پیروں پر پڑ رہا تھا۔ میرے چاروں طرف دوڑ دوڑ کر چکریں مارتا دیکھ کر سب ہی حیران ہوگئے اس دن۔ میں نے بھی ایسا پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔

مجھے یاد ہے کہ وہ سرکاری افسر زور سے ہنسا تھا اور اس سے بھی زیادہ زور سے وہ پولیس والے ہنسے جو اس کے ساتھ تھے۔ پھر اس کے بعد سب لوگ ہنسے تھے۔ ایسا لگا جیسے سارا زمانہ ہنستا ہے۔ میں نے ان کی طرف توجہ نہیں دی پرایسا لگتا تھا کہ جیسے میرا بیٹا میرا بھائی نہ جانے کتنے سالوں کے بعد ملا ہے۔ میرے آنسو نکل آئے بے زبان گیرو کی زبان میں طاقت نہیں تھی کہ وہ کچھ بول سکتا۔ میں نے اسے گلے لگالیا جیسے کوئی اپنے خونی رشتہ دار کو گلے لگاتا ہے۔ وہ سرکاری افسر حیران رہ گیا اور یکایک پولیس والوں کے چہروں پر خاموشی آگئی تھی۔

اس سرکاری افسر نے اسی وقت میرے نام سے پرچہ کاٹ دیا اور بعدمیں شہر سے مختار کار نے میرے کاغذات کی دوسری کاپی میرے نام سے نکال دی۔ اب تک وہ زمین میری ہے۔ مجھے بعد میں پتہ لگا کہ ڈگو کو انہوں نے پہلے دن ہی باندھ دیا تھا، پھر وہ رسی تُڑا کر ایسا بھاگا کہ واپس نہیں آیا۔

تین سال تک گیرو میرے ساتھ ساتھ تھا ڈاکٹر، ایک دن اسی جگہ پر چلتے چلتے اسے سانپ نے کاٹ لیا پھر وہ مرگیا۔ یہ اسی کی قبر ہے میں ہر سال اس کے لئے آتا ہوں اور جب تک زندہ ہوں آتا رہوں گا۔

میں حیرت سے اسے دیکھ رہا تھا، اس کی دونوں آنکھیں آنسوؤں میں ڈوبی ہوئی تھیں۔

سائیں انسان نے میرا ساتھ نہیں دیا، میں ان کی قبر پر جا کر کیا کروں گا۔ اس نے تو، میرے لئے جان لڑا دی، میرے لئے گواہی دی۔ میرا مالک تھا وہ۔

اس کا چہرہ آنسوؤں سے بھیگ گیا تھا۔

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments