سیاسی منظرنامے میں اتحاد کی جھلک


ڈیڑھ برس سے جاری حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے مابین چلی آ رہی کشیدگی اب کم ہونے جا رہی ہے کیونکہ دونوں فریقوں کو ملکی مفاد عزیز ہے لہٰذا وہ اس حوالے سے ایک دوسرے کے خلاف صف آرا نہیں ہو سکتے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے نیب کے قانون اور عسکری قیادت کو مزید فرائض کی ادائی سے متعلق ترامیم میں حکومت کا ساتھ دینے کا اعلان کر دیا ہے۔ مقصد سب کا یہ ہے کہ ملک کے اندر سیاسی و انتظامی صورت حال غیر مستحکم نہ ہونے پائے!

یہ ایک اچھی سوچ ہے۔ حزب اختلاف اور حزب اقتدار باہم دست و گریباں ہونے کے بجائے مل جل کر عوام اور ملک کے لیے کام کریں۔ یہ قدم جو حزب اختلاف نے اٹھایا ہے ماضی میں بھی اٹھایا جاتا تو آج جن مسائل سے ہم دوچار ہیں وہ نہ ہوتے مگر ہماری سیاسی جماعتوں نے قومی معاملات کو نظر انداز کرتے ہوئے آگے بڑھنے کی کوشش کی اور اپنے تعاون کو محدود کیا لہٰذا قانون سازی میں رکاوٹیں پیش آتی رہیں یا قانون پر عمل درآمد کرنے میں مشکلات حائل ہوتی رہیں۔

اب جب حزب اقتدار اور حزب اختلاف دونوں ایک دوسرے کے قریب آ رہی ہیں تو بعض دانشور، لکھاری اور کارکنان خفا ہیں کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا اس طرح تو عوامی حکومت کے قیام اور جمہوریت کے مضبوط ہونے میں بہت وقت درکار ہو گا لہٰذا حزب اختلاف کو نظر ثانی کرنی چاہیے۔ اُسے کوئی غیر عوامی فیصلہ نہیں کرنا چاہیے کہ جس پر بعد میں پچھتانا پڑ جائے اور عوام کی غالب اکثریت اُن کے خلاف ہو جائے۔ اس سے کسی کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔

ویسے بھی عوام ملک میں ہنگامہ آرائی نہیں چاہتے وہ امن پسند ہیں انہیں اپنے مسائل سے غرض ہے، اپنے روشن مستقبل کی فکر ہے اگر کوئی منصوبہ کوئی اتحاد اور کوئی پروگرام فریقین کے اکٹھا ہونے سے پایۂ تکمیل کو پہنچ سکتا ہے تو وہ کیوں ناراض ہوں گے یا احتجاج کریں گے لہٰذا دانشور حضرات کو پریشان نہیں ہونا چاہیے۔ عوام کی مرضی ہے وہ جو بھی اجتماعی فیصلہ کرتے ہیں اُسے قبول کیا جانا چاہیے۔

بہرحال ہم اس پہلو سے بھی صرف نظر نہیں کر سکتے کہ حزب اختلاف اور حزب اقتدار پوری طرح عوام کی نمائندگی کرتی ہیں وہ اپنے ذاتی مفادات کو بھی سامنے رکھتی ہیں اور اگر یہ کہا جائے کہ اس وقت یہ دونوں آپس میں الجھی رہتیں تو تیسری قوت کو یہ ”اختیار“ مل جاتا کہ وہ آگے آئے اور ملکی نظم و نسق چلائے کیونکہ صورت حال خراب رہتی ہے جو سیاسی ہو یا انتظامی کسی طور بھی ملک کے مفاد میں نہیں ہو سکتی لہٰذا انہوں نے سوچا، غور کیا کہ معاملہ گڑ بڑ ہو گیا تو وہ ہاتھ ملتی رہ جائیں گی پھر نئے قاعدے اور قوانین ہوں گے جن سے محفوظ رہنا ناممکن ہو گا لہٰذا کیوں نہ جپھی ڈال لی جائے۔

اب ملکی و عوامی مفاد میں سیاسی جماعتوں نے ایکا کر لیا ہے تو اس میں کوئی برائی نہیں، رہی یہ بات کہ انہوں نے اپنے مفاد ہی میں کیوں ”اتحاد“ کیا ہے۔ عوام کے مسائل کے خاتمے کے لیے کیوں اب تک ان کا کوئی ”بڑا اتحاد“ سامنے نہیں آیا۔ عرض ہے کہ ابھی یہ جماعتیں غیر تربیت یافتہ ہیں یعنی ان کی اخلاقی و سماجی تربیت نہیں ہوئی اور پھر ان کے اندر سے لالچ و ہوس کے بلبلے بھی ختم نہیں ہو سکے جو وقت کے ساتھ ہی انجام پذیر ہوتے ہیں لہٰذا اس وقت تک یہ نظام اسی طرح چلے گا اور اگر یہ چند برس چلتا ہے تو امید کی جا سکتی ہے کہ ان کی از خود بھی تربیت ہو جائے گی لہٰذا پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ حیران بھی نہیں ہونا چاہیے کیونکہ عادات یکسر تبدیل نہیں ہوتیں ان کو ایک عرصہ چاہیے ہوتا ہے۔

موجودہ عالمی تناظر میں تو ہماری سیاسی جماعتوں کو قرب کی اور بھی ضرورت ہے کیونکہ نئے بلاک بن رہے ہیں جس میں قومی یکجہتی لازمی ہے تا کہ ہم خوشحالی اور ترقی کی منزل کی جانب بڑھ سکیں۔ اُدھر امریکی حکومت جو اس خطے میں جنگ کے شعلوں کو ابھارنا چاہ رہی ہے کہ اس کے مطابق چین، روس، ایران، ملائیشیا، ترکی اور پاکستان کو ایک پلیٹ فارم پر کھڑا نہیں دیکھنا لہٰذا وہ کوئی نہ کوئی نت نیا ہتھکنڈا اختیار کر رہی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ عین ممکن ہے امریکہ اور دیگر ممالک میں جنگ چھڑ جائے جو تیسری عالمی جنگ میں بدل جائے کیونکہ تازہ ترین واقعہ کہ ایران کے ایک اہم ترین جنرل قاسم سلیمانی امریکی ڈرون حملے میں جاں بحق ہو گئے جس سے پوری دنیا میں پریشانی کی ایک لہر دوڑ گئی ہے کیونکہ ایران نے امریکی اہداف کو نشانہ بنانے کا واضح طور سے اعلان کر دیا ہے کہ وہ اپنے جنرل کے قتل کا ہر صورت بدلہ لے گا لہٰذا تجزیہ نگاروں کے نزدیک خطے اور خطے سے باہر بھی اس کے اثرات مرتب ہوں گے۔ اگرچہ ابھی بڑی طاقتیں اور پاکستان، ایران کو صبروتحمل کا کہہ رہے ہیں مگر ایران امریکا کو کبھی معاف نہیں کرے گا وہ اُسے ہر طرح کا نقصان پہنچائے گا یوں اُس کے ہم خیال ممالک کے اس کشمکش کی لپیٹ میں آنے کا غالب امکان ہے جو ایک خوفناک تباہی پر منتج ہو گی۔

بہر کیف جو سیاسی منظر نامہ ابھر رہا ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں سوائے جے یو آئی (ف) کے اس کی خواہش کر رہی ہیں کہ ملک میں امن اور خوشحالی آئے اور وہ روز بروز مضبوط ہوتے جائیں لہٰذا وہ فاصلے کم کر رہی ہیں اور یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ مستقبل میں اگر عالمی سطح پر کوئی ہنگامہ نہیں ہوتا تو ملک میں چھائی غربت، افلاس اور مہنگائی کی خزاں بہار میں تبدیل ہو جائے گی مگر ”عقلمندوں“ کو نجانے کیا ہو گیا ہے کہ وہ سیاسی جماعتوں کے اتفاق کو کسی اور نگاہ سے دیکھ رہے ہیں دوسرے لفظوں میں اسے عوام مخالف سمجھ رہے ہیں۔

معذرت کے ساتھ یہ وہ عوام نہیں جو ملک کے لیے زیادہ سوچ بچار کر سکیں کیونکہ عوام کو معلوم ہی نہیں شاید کہ ان کا بھی کوئی فرض ہے انہیں ملکی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کرنا ہے فقط حکومتوں پر انحصار نہیں کیا جاتا اپنے فرائض کو بھی پورا کیا جاتا ہے۔ ایسا تب ہی ہو گا جب تعلیم اور صحت پر بھرپور توجہ دی جائے گی تعلیم کو ڈگریوں کے حصول تک محدود نہیں کیا جائے گا بلکہ علم و آگہی کے لیے اختیار کیا جائے گا۔

عرض کرنے کا مقصد ابھی عوام کی فکری تربیت نامکمل ہے لہٰذا وہ براہ راست ملکی معاملات نمٹانے کے قابل نہیں ہوئے لہٰذا انہیں اشرافیہ کے ذریعے ہی اپنے فیصلے کرنا ہوں گے مگر اشرافیہ کو قومی جذبے کے تحت آگے آنا ہو گا کیونکہ یہ بھی طے ہے کہ ایک روز یہ سیاسی منظر بدلنا ہے جس میں عوام ملک کی باگ ڈور سنبھال رہے ہوں گے۔ ۔ ۔ !


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments