ہم عورت کے ساتھ کیا سلوک کر رہے ہیں؟


ہمارے اس پدرسری (patriarchal) معاشرے میں عورت کا استحصال نہ صرف ہوتا ہے بلکہ بڑی دھوم سے ہوتا ہے۔ یہاں مرد اور عورت میں اختیارات اور حقوق کی ایک غیر منصفانہ اور غیر یکساں تقسیم روا رکھی گئی ہے۔ عورت کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ بحیثیت انسان اپنی زندگی کے فیصلے خود کر سکے۔ اور فیصلے بھی وہ جو اسے زندگی کے ہر موڑ پر لینے ہوتے ہیں مثلاً اس کی تعلیم، کیریئر، شادی، بچے وغیرہ۔ اپنی ذات سے متعلق فیصلہ سازی میں اختیار کا نہ ہونا درحقیقت اسے ایک ’نامکمل انسان‘ بناتا ہے، ’نامکمل عورت‘ ۔

اس معاشرے میں مردوں نے بزورِ قوت ایسے سٹرکچرز قائم کر رکھے ہیں کہ جن میں بالادستی بالآخر مرد کی ہی ہے کیونکہ جس کے پاس طاقت ہوتی ہے وہی چیزوں کو کنٹرول کرتا ہے، فیصلہ سازی میں اسی کا عمل دخل ہوتا ہے۔ اور بدقسمتی سے یہاں عورت کو کم عقل سمجھا جاتا ہے۔ اس کی رائے کی کوئی اہمیت نہیں۔ اور اسے بھرپور طریقے سے یہ باور کروایا جاتا ہے کہ وہ کمزور ہے، ناقص العقل ہے، ایسی ہے اور ایسی ہی رہے گی۔ یہ چیز اسے دراصل ایک ’ادھورا انسان‘ بناتی ہے، ’ادھوری عورت‘ ۔

عورت کی تکمیلِ ذات کی جب بات آتی ہے تو ہمارے ہاں ایک مغالطہ پایا جاتا ہے کہ جس میں عورت کو صرف بیوی کے طور پر لیا جاتا ہے۔ یوں بحیثیت لائف پارٹنر اسے جن مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ان کے حل کا تذکرہ کر کے بآسانی اسے عورت کی ذات کی تکمیل کہہ کر جان چھڑا لی جاتی ہے۔ یہ اس معاملہ کا ایک پہلو ہے، بلاشبہ اہم اور اس کے تجویز کردہ حل سے مکمل اتفاق کرتے ہوئے مگر اہم سوال یہ بھی ہے کہ کیا پہلے مرحلہ میں اسے اپنا جیون ساتھی چننے کی فیصلہ سازی میں اختیار دیا گیا تھا یا نہیں۔

ہمارے معاشرے میں عورت کا استحصال مختلف شکلوں، حالتوں اور زاویوں سے ہوتا ہے۔ ذیل میں چند ایک کا بیان ہے۔

ایک لڑکی (عورت) جو اپنے گھر والوں سے لڑ بھڑ کر، طعنے سن کر (اسے اتنا پڑھانے کا فائدہ، پرائے گھر کی ہے وغیرہ) اور طرح طرح کی آزمائشوں کا مقابلہ کرتے ہوئے کالج، یونیورسٹی کا رخ کرتی ہے یا جاب کے لیے گھر سے باہر قدم رکھتی ہے تو اس کو گلی کی نکڑ پر بھیڑیوں کی مانند کھڑے لڑکوں (مرد) کی آنکھیں اپنا شکار سمجھ کر تاڑ رہی ہوتی ہیں۔ اگر پبلک ٹرانسپورٹ پر سفر کرتی ہے تو مردوں کی کاٹ کھانے والی وحشی نگاہیں اس کا سانس تک بند کر دیتی ہیں گویا یہ ایک مردار ہو جسے نوالہ سمجھ کر سارے گدھ پل پڑے ہوں۔ اور پھر درس گاہوں اور ورک پلیس پر صنفی امتیاز اور جنسی و دیگر ہراسانی کا سامنا ہماری عورت کے شاید مقدر میں لکھ دیا گیا ہے۔

شادی کرنی ہے یا نہیں اور کب اور کس کے ساتھ کرنی ہے، ہمارے ہاں کی عورت اس معاملہ میں بہت بے بس ہے۔ کم عمری کی جبری شادی، مرضی کے بغیر خاندان میں شادی، پیسوں کے عوض عورت فروخت کر کے شادی، غیرت کے نام پر عورت کو ونی اور سوارہ جیسی قبیح رسموں کی بھینٹ چڑھا کر شادی سمیت کئی اور طرح سے عورت کی زندگی کے اس اہم معاملہ پر مرد اپنا حکم چلاتے نظر آتے ہیں۔ خدانخواستہ اگر عورت کو طلاق ہو جائے یا بیوہ ہو جائے تو دوبارہ شادی تو دور کی بات ہمارا متعصب معاشرہ عورت کو اون ہی نہیں کرتا، پہلے بھی ویسے کون سا اون کرتا ہے۔

ہم مردوں نے کبھی اس بات کا خیال کیا ہے کہ ایک عورت جو بیس، پچیس برس ایک گھر میں رہی ہوتی ہے، اس کی وہاں ’سوشلائیزیشن‘ ہوئی ہوتی ہے، ’ایفیلی ایشن‘ اور ’اموشنل اٹیچمنٹ‘ ہوتی ہے اور آن کی آن اس کو وہاں سے جانے کا حکم صادر ہوتا ہے۔ اور پھر ایک نئی جگہ، نئے لوگوں میں، نئے سرے سے زندگی کو شروع کرنا ہوتا ہے۔ کیا ہم مرد کبھی اس کیفیت کا تصور بھی کر سکتے ہیں؟ بات یہیں تک نہیں رکتی۔ اس کے بعد بلکہ رشتہ چلانے، خاندان بنانے اور تعلق نبھانے کی بھی ساری ذمہ داری اسی عورت کا کام ٹھہرتا ہے جو اپنا سب کچھ چھوڑ کر آئی ہوتی ہے۔ اور پھر جونہی خاندان بنانے سے متعلق فیصلہ کی گھڑی آتی ہے اور بچہ پیدا کرنے کا فیصلہ لینا ہوتا ہے تو اس فیصلہ کا اختیار بھی مرد نے اپنے ہاتھ میں رکھا ہوتا ہے۔ اور پھر چل سو چل، ایک کے بعد ایک بچہ۔

کیا بیوی ایک انسان نہیں؟ اس کی کوئی خواہشات نہیں؟ اس کے جسم میں روح اور سینے میں دل نہیں جن میں آرزوئیں ہوں؟ کیا بیوی کسی اور چیز سے بنی کہ تھکاوٹ اس کو نہیں چھو سکتی اور آرام اس کی ضرورت نہیں؟ کیا اس نے کوئی خواب نہیں دیکھ رکھے کہ جن کی تعبیر کا انتظار وہ عمر بھر کرتی ہے؟ کیا اس کا جی نہیں چاہتا کہ وہ اپنی زندگی کو انجوائے کرے؟ کیا اس کا حق نہیں کہ اس کا شوہر اسے پیار سے دیکھے، اسے چاہت سے پکارے، اس کی بات سنے، اس میں مگن رہے، اسے اہمیت دے، اس کی ضروریات کا خیال رکھے، اس کی خوشی میں خوش اور غمی میں غمگین ہو؟ اور کیا عورت کی کوئی نفسیاتی، جسمانی اور جنسی خواہشات نہیں، یہ سب چیزیں صرف مرد سے متعلق ہیں کیا؟

مذہب نے عورت کو جو مقام دیا ہمارا معاشرہ وہ دینے کو تیار نہیں۔ ہمارے ہاں کے مذہبیوں نے جو کہ مرد ہیں، مذہب کے ٹھیکیدار ہیں، نے من پسند تشریحات اور تفہیمات کے نتیجہ میں عورت کو مذہب کا دیا مقام بھی چھین کر اپنی غلامی کا شکار بنا رکھا ہے۔ کتنے مرد اپنی عورتوں کو جائیداد میں حق دیتے ہیں۔ کمال چالاکی سے ایک سلسلہ قائم کر رکھا ہے کہ جس میں بہنیں اپنے بھائیوں کے حق میں دستبردار ہونے کو ایک روایت کی صورت میں قبول کرنے پر مجبور ہیں۔ اسی طرح کئی ایک ٹیبوز کہ گھر سے باہر قدم نہیں رکھنا، جاب کرنا درست نہیں، عورت کی حکمرانی حرام، وغیرہ۔

ہمارے معاشرے نے کمال مہارت سے عورت کو محض لباس کی آزادی کے چکر میں پھنسا کر اصلی اور حقیقی ایشوز سے پرے رکھنے کی کوشش کی ہے۔ تاہم یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ کیا مرد یہ طے کریں گے کہ عورت کیا پہنے اور کیا نہ پہنے؟ مردوں کی ڈیفینیشن کے مطابق عورت کے ”نامناسب“ لباس سے مردوں کو مہمیز ملتی ہے تو کیا جو مرد ننگے بازوؤں اور ڈیپ نیک والی شرٹس اور چست لباس زیب تن کر کے اور دیگر طریقوں سے جنسی طور پر پر کشش دکھتے معاشرے میں پھرتے نظر آتے ہیں تو (انہی کی مطابق) اس کا عورت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ لہٰذا عورت کے لباس کی بجائے اگر مرد اپنے ذہن کے گند کو صاف کرنے پر توجہ دے تو زیادہ بہتر ہو کہ جو نقاب اور پردہ میں ملبوس عورت کو بھی اپنی نظر کے تیروں سے مستثنیٰ نہیں سمجھتا۔

یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ عورت کے ساتھ اس استحصال کو روا رکھنے میں آیا عورت کا اپنا بھی کوئی کردار ہے؟ ہاں، اس کا اپنا کردار بھی ہے کہ ظلم کو سہنا بھی ظالم کا ساتھ دینے کے مترادف ہے۔ مزید برآں یہ کہ اس پہلو کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ ایک عورت جب حسد اور انتقام کے جذبات کے تحت ایک دوسری عورت کا جینا محال کرتی ہے تو آخری تجزیہ میں پھر خسارہ اس عورت ذات کا ہی ہوتا ہے جو کہ پہلے ہی اس استحصالی معاشرے میں زندگی کے دن بمشکل پورے کر رہی ہوتی ہے۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ایک عورت کو ایک دوسری عورت ہی یہ باور کرواتی ہے ہر ماں عظیم اور ہر ساس دشمن، ہر بیٹی پوتر اور ہر بہو سازشی ہوتی ہے۔

ہمارے ہاں Feminism کی بات کرنے والے بھی اکثر اوقات برائے نام آزادی کی بات کر کے نکل جاتے ہیں۔ کیا ایلیٹ کلاس کی عورتیں ان عورتوں کا دکھ سمجھ سکتی ہیں جو سارا سارا دن کھیتوں میں، فیکٹریوں میں، بھٹوں پہ اور گھروں میں نہ ختم ہونے والا احسان فراموش کام کرتی ہیں؟ اور پھر خود عورت کو ریڈیکل، لبرل، سوشلسٹ اور بلیک فیمینیزم کے جھمیلوں میں ڈال کر مشترکہ جدوجہد کا جنازہ نکالا ہوا ہے۔

اس مرد زدہ معاشرے میں تو بدنصیبی سے ہماری گالیاں تک بھی کم و بیش ساری ایسی ہیں جو عورت کی ذات کے گرد گھومتی ہیں۔ ہمارے مرد بھی ویسے کتنے کھوکھلے ہیں کہ اپنی جنس سے متعلق کچھ مغلظات بھی رائج نہ کر سکے۔ ماں بہن کی جگہ باپ بھائی کیوں نہیں ہو سکتا؟

2017 ء کی چھٹی قومی مردم شماری کے مطابق اس ملک کی کل آبادی کا قریباً 49 فی صد عورتوں پر مشتمل ہے اور اس ملک میں عورتیں جس طرح کی زندگی گزار رہی ہیں وہ ناگفتہ بہ ہے۔ اس حوالے سے ہماری ریاست نے بھی عورت کو اس معاشرے میں جائز مقام دلانے میں اپنے کردار سے پہلو تہی برتی ہے۔ بنیادی وجہ یہ ہے کہ ریاست کو چلانے کے لیے تقریباً ہمیشہ سے فیصلہ ساز مرد ہی رہے ہیں۔ حتمی فیصلہ سازی میں بتائیں عورت کہاں ہے؟

ریاست کے چاروں ستونوں میں عورت کی نمائندگی کا عالم یہ ہے کہ اس ملک کے صدر، وزیراعظم، چاروں وزرائے اعلیٰ، سپریم کورٹ کے 17 ججز اور چاروں ہائی کورٹس کے چیف جسٹسز میں کوئی ایک بھی عورت نہیں۔ مقننہ میں عورتوں کی مخصوص نشستیں بھی برائے نام ہی ہیں۔ سیاسی جماعتوں پر قابض مرد حضرات اقربا پروری اور گروہی مفادات کے پیش نظر ان کی بندر بانٹ کرتے ہیں اور میڈیا میں کتنی عورتیں ہیں جو فیصلہ سازی کی پوسٹس پہ ہیں؟

مرد خود تو چاہے ایک عرصہ تک ٹائم پاس کرتا رہے، جذبات سے کھیلتا رہے، شادی کا جھانسہ دے کر وقتِ فیصلہ ’یو ڈیزرو بیٹر‘ کا لولی پاپ دے کر ٹشو پیپر کی طرح عورت کو پھینک دے مگر عورت اگر کسی مرد کو پسند نہ کرتی ہو اور اس کے ساتھ زندگی بتانے کا نہ سوچتی ہو تو ہمارے مرد کو یہ حق حاصل ہو گیا ہے کہ موقع پاتے ہی اس عورت کو قتل کر دے، منہ پہ تیزاب پھینک دے یا بہتان اور تہمتوں کا نشانہ بنا کر اس پہ زندگی تنگ کر دے۔

کیوں ایسا ہوتا ہے کہ ایک نکما ترین لڑکا کہ جس کے نزدیک تعلیم، تہذیب، محنت اور زندگی کا شعور ہی نہیں پایا جاتا جو کہ ڈھنگ سے بات تک نہ کر سکتا ہو، جو کسی کے جذبات کے احساس سے عاری ہو، جس کے ذہن پر ہر وقت یک طرفہ تسکین کی طلب اور حصول زندگی کا مقصد ٹھہرتا ہو، وہ ایک ایسی لڑکی (بیوی) کا طلب گار ہوتا ہے جو نہ صرف خوبصورت اور تعلیم یافتہ ہو بلکہ سگھڑ، سلیقہ شعار اور خانہ داری کے تمام لوازمات سے حد درجہ آگاہ ہو اور ساتھ میں نیک اور صبر شکر کرنے والی بھی ہو۔

مرد کو اجازت ہے کہ گھر میں، گلی میں محلے میں بنیان پہنے، شارٹس پہنے بے روک ٹوک گھومتا پھرے، عورت کو دوپٹہ بھی سر سے نہیں سرکنا چاہیے۔

نشہ مرد کرے تو جائز عورت کرے تو بد کردار کیوں؟ (سگریٹ نوشی، ماہرہ خان) ۔

جب دل کرے، جہاں دل کرے دیوار کے ساتھ رفع حاجت میں مشغول ہو جانے والا مرد بد تہذیب ہے کہ نہیں؟

بیک وقت کئی ایک افیئرز چلانے والا منافق مرد شادی کے لیے کسی ایسی عورت کا متلاشی ہوتا ہے جسے کبھی کسی نے دیکھا تک نہ ہو۔

چلیے یوں دیکھ لیتے ہیں کہ اگر عورت مرد کے بغیر ادھوری ہے تو اتنا ادھورا مرد بھی ہے عورت کے بغیر۔ ویسے کبھی اسے اعتماد دے کر تو دیکھو عورت مرد سے زیادہ مضبوط ہوتی ہے۔ کبھی سوچا کہ کیوں ہمارا مرد اپنے ساتھی مرد کو رن مریدی کے القابات سے نوازتا ہے جو کسی نہ کسی حد تک اس ناہموار معاشرے کی بے چاری عورت کا ہاتھ تھام کر زندگی کے چار دن خوشی سے گزارنے کے سپنے دکھاتا ہے۔ غیرت کے نام پہ عورت کو موت کے گھاٹ اتارنے والا مرد با غیرت ہے کیا؟ عورت اس سماج سے مانگتی کیا ہے، زندہ رہنے کا حق، جینے کا حق۔ عورت کی تو سوچ پہ پہرے ہیں، دیکھنے، سننے اور کہنے پہ پہرے۔ ہماری ہاں کی عورت انسان بھی ہے یا نہیں؟

کیا ہمارے ملک کی عورت میں یہ احساس یا انڈرسٹینڈنگ پائی جاتی ہے کہ اس پدرسری معاشرہ میں وہ عرصہ دراز سے استحصال کا شکار ہے؟ اور چونکہ یہ معاشرہ مردوں کے کنٹرول میں ہے تو مرد ہی اس کے استحصال کے سب سے زیادہ ذمے دار ہیں؟ اب مسئلہ کی تشخیص کے بعد اس کے حل کے بارے بات کریں تو میرے نزدیک ہماری عورت کو اپنے حق میں آواز بلند کرنا ہو گی اور ہم میں سے ان مردوں کو ان کا ساتھ دینا ہو گا جو یہ سمجھتے ہیں کہ مردوں کے اس معاشرے میں عورت مختلف حوالوں سے جبر اور ظلم کا واقعی شکار ہے۔ اور آخری بات کہ۔ جب تک عورت کی زندگی کے تمام فیصلوں میں اس کا حق تسلیم کرتے ہوئے اسے فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں دیا جائے گا ہماری عورت ادھوری اور نا مکمل رہے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments