اپنی میڈیکل رپورٹ دیکھ کر بچے یتیم خانے میں جمع کروانے والا باپ


تین کم عمر بچوں کو فلاحی ادارے کے حوالے کر کے جوڑا اطمینان سے رخصت ہوا۔ خاندان بکھرا تو کیا ہوا، نکاح تو بچ گیا۔ اس وقت یہ بچے کراچی کے ایک فلاحی ادارے میں موجود ہیں۔ نئی اور اجنبی دیواروں کے درمیان سہمے ہوئے، گم صم اور خاموش رہتے ہیں۔ شیلٹر ہوم کی ہر عورت میں اپنی ماں کا عکس کھوجتے ہیں، اس کی خوش بو ڈھونڈتے ہیں اور مایوس ہونے پر جی بھر کر روتے ہیں۔ چھوٹے بھائی کا دل بہلانے کو بڑے دونوں بہن بھائی جو خود بھی ابھی کم سن ہیں، کبھی ماں تو کبھی باپ بن کر اسے بہلانے کے خوب جتن کرتے ہیں، لیکن کسی کے من کو قرار نہیں آتا۔ کوئی کسی سے بہلنے کو تیار نہیں ہوتا۔ آپ جاننا چاہیں گے کہ یہ بچے آخر کون ہیں؟

یہ بچے اس سفاک معاشرے کا بھیانک روپ ہیں جہاں قدم قدم پر غفلت کی چادر تانے لوگ بے حسی کے کش لگاتے ہیں اور وہیں پڑ کر کبھی دن اور کبھی زندگی پوری کر ڈالتے ہیں۔

بے حسی کی اس چادر سے ذرا دیر کو سر باہر نکال کر سوچیے تو سہی آخر ان بچوں کا قصور کیا ہے؟ کس جرم میں ماں کی آغوش چھنی؟ کھلونے اور نرم بستر گیا؟ اسکول کا بستہ اور سنگی ساتھی چھوٹے۔

ان پر بیتی کہانی کوئی نئی بھی نہیں۔ یہ وہ المیہ ہے جو اس دھرتی پر جانے کتنی بار وقوع پذیر ہوکر خاموشی کی نیند سوچکا ہے، ایسا سانحہ ہے جو کتنے گھروں پر بیت چکا ہے مگر افسوس، اس کے بھیانک سے بھیانک انجام پر بھی کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ شایداسی لیے یہ الم ناک کہانی نئے الفاظ کا روپ دھار کرپھر کچھ عرصے بعد کانوں میں سیسے کی مانند آ گرتی ہے۔

ان بچوں کے ساتھ ہونے والے اس حادثے کے تانے بانے معاشرے کی انہی ظالم اور جابر روایتوں سے جا ملتے ہیں جنہوں نے لوگوں کا دم گھونٹ رکھا ہے۔ آج تک سمجھ نہ پائی کہ ان روایتوں میں ایسے کون سے چار چاند لگے ہیں کہ یہ گھر اجاڑ دیں، خون میں نہلادیں یا دلوں کو نفرت سے پھاڑ دیں ہر طور پر سُرخ رُو ہی رہتی ہیں۔ یہی روایتیں ان بچوں کی مجرم بھی ہیں، جن میں سے ایک شادی کے فوراً بعد دن گننا کہ کب عورت بچہ پیدا کرکے خاندان کی لمبی ہوتی زنجیر کو مزید کھینچ کر آگے لے جائے گی، پھر بے اولادی کا سزاوار اور خطاوار صرف عورت کو قرار دے کر مرد کی جنسی صحت پرکوئی سوال اٹھانا توہینِ قوامیت کے مترادف قرار دینا اور معاشرے کی تیسری ظالم روایت، جس کے تحت طلاق کے عمل کو گالی سے بھی بڑی کوئی چیز بناکر پیش کیا جاتا ہے اور اس جائز عمل سے گھن کھاکر مزید گھناونی زندگی کو قبول کرلیا جاتا ہے۔

ان بچوں کو فلاحی ادارے کے سپرد کرکے نکلنے والے جوڑے کی کہانی بھی انہی مکروہ سماجی روایتوں سے آلودہ ہے۔ کچھ ہفتوں قبل جب بچوں کے باپ کو کسی بیماری کی وجہ سے میڈیکل چیک اپ کے عمل سے گزرنا پڑا تو یہ انکشاف ہوا کہ وہ تو باپ بننے کے قابل ہی نہیں۔ خبر نہیں ایک بم تھا جو بالکل پاس آکر پھٹا ہو۔ حواس ساتھ چھوڑ گئے۔ وہ بچے جنہیں اس نے اپنے سینے پر سلایا، کندھوں پر بٹھایا، جن کی محبت میں ڈوبا رہا، جن کی آسائشوں کے لیے خود بے آرام رہا کیا یہ بچے اس کے نہیں؟

سوال طلب ہوئے، جواز میں لپٹے جواب تلاشے گئے، انگلیاں اٹھیں، آنکھیں نکلیں، عمل کے حساب سے ردِعمل بھی خطرناک آیا۔ جھگڑا تو خالص دو افراد کے درمیان تھا، پَر شامت ان بچوں کی آئی، جن کے پیدا ہونے میں ان کا اپنا کوئی عمل دخل اور مرضی شامل نہ تھی۔ یہ معصوم تو معاشرے کے تندوتیز سوالوں کے جواب سے بچنے کے لیے پیدا کیے گئے تھے۔ یہ بدنصیب دل کی تسکین کا سامان کب تھے یہ تو پیدائشی معمار تھے جن کی ذمہ داری گھر کی دیواروں کو گرنے سے بچانا تھا۔

بنیادیں کم زور ہوں تو دیر سے سہی پر دیواریں تو دھڑ دھڑ گرہی جاتی ہیں۔ نازک کاندھے اتنا بڑا بوجھ اٹھا بھی کیسے سکتے تھے۔ وہ تو سانحہ بیتنے کے بعد ماں کی طرح رو رو کر پالنے والے اس باپ کے سامنے کوئی صفائی بھی پیش نہ کرسکے اور نہ یہ بتاسکے کہ وہ اپنے ان رشتوں اور اس چاردیواری سے کتنی محبت کرتے ہیں۔ دوسری طرف عورت نے رورو کر اپنے تینوں ”بے قصور“ گناہوں کا اعتراف کر تو لیا لیکن شوہر کے پیروں میں گر کر اپنی محبت کا بھی یقین دلاتی رہی، اس کے عشق میں جینے مرنے کی قسمیں کھاتی رہی اور بچے آنے والی اس قیامت کے خوف سے گھر کے کونے میں سہمے منتظر بیٹھے رہے کہ ان کی تقدیر کے مالک اب ان کی قسمت کا نیا کیا فیصلہ کریں گے۔

اور پھر فیصلہ صادر کردیا گیا کہ مانگے کے بیج سے اگنے والے پھولوں سے اپنا گھر نہیں سجایا جائے گا۔ ان پھولوں کی خوش بو ہر وقت گناہوں کا احساس دلائے گی، شرمندہ کرے گی، روح چھلنی اور جگر چاک کرے گی، سو کیوں ناں اس خوش بو کو ہی گھر سے نکال کر پھینک دیا جائے۔ سنتے آئے ہیں کہ گھر بنانا اور بچانا ایک مشکل امر ہے لیکن آفرین ہے کہ انہوں نے یہ مشکل کام اس قدر آسانی سے نمٹا دیا۔ عورت نے بھی اس فیصلے کو دل و جان سے قبول کر کے ثابت کیا کہ ایک اچھی عورت کی پہلی اور آخری ترجیح شوہر کے گھر کی دہلیز سے چمٹنے کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہونی چاہیے، چاہے اس کے لیے کوئی بھی قربانی دینی پڑے۔

یوں صد شکر کہ ایک اور طلاق سے معاشرہ بچ گیا۔ خاندان کی ناک بھی سلامت رہ گئی۔ محبوب شوہر کو بالآخر بیوی کی محبت اور پیروں پر گرنے والے آنسوؤں پر یقین آہی گیا۔ اب وہ اسے بے قصور سمجھتا ہے کہ اس نے گناہ کیا بھی تو شوہر کی محبت میں۔ ایک نہیں پورے تین پھولوں سے اپنے شوہر کا آنگن مہکایا۔ بیج کہیں سے چرایا تو کیا برا کیا؟ عشق میں اب اتنا تو جائز ہوتا ہی ہے۔ محبت کی ایسی لازوال کہانی کے اختتام پر گویا ہیر رانجھا کی روحیں بھی آسمان پر مسکرا اٹھیں۔ بچوں سے ماں کی آغوش اور اس کے ہاتھ کی روٹی چھنی تو کیا ہوا، کم از کم کہانی کاروں کو عشق کی داستانوں میں اضافہ کرنے کو نیا موضوع تو مل گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments