اچھوت مسلمان


’ارے بھئی تم اُدھر بیٹھ کر کھانا کھاؤ۔ ‘ نوجوان کارندے نے سختی سے کہا۔

’اِدھر بھی تو لوگ بیٹھے ہیں میرے اِدھر بیٹھنے میں کیاحرج ہے۔ بھئی اب تو میں مسلمان ہوں۔ میں اور میرا بھائی ہندو دھرم چھوڑ کر مسلمان ہو گئے۔ ‘ اُس نے ڈرتے ڈرتے ہمت کی۔

’تم کو پتا نہیں کہ تم اِدھر نہیں بیٹھ سکتے! سب ہلا جاتیوں کو الگ بٹھایا ہے۔ ‘

’میرے کو بھی تو چودھری صاب نے کھانے کی دعوت دی ہے تم مجھے الگ کیوں بٹھاتے ہو؟ ‘

’بھئی تم کیامغج ماری کر رہے ہو۔ تم لوگ بھنگی کا کام کرتے ہو انسانوں کا گوں اٹھاتے ہو تمہارے کپڑے ناپاک اور تمہارا جسم گندا۔ ‘

’میں کھدا کی کسم نہا دھو کر صاف کپڑے پہن کر آیا ہوں۔ ‘

’لیکن تمہاری جات تو ہلا ہے باقی لوگ تمہارے پاس بیٹھنا پسند نہیں کرتے۔ اب وکَتَ جائع نہیں کرو جلدی اُدھر چلو۔ ‘

’مولوی جی نے توَ بتایا تھا کہ اس دھرم میں کوئی جات پات نہیں ہوتی۔ ‘

’وہ دیکھو مولوی جی کہاں بیٹھے ہیں۔ ان سے جا کر تو بولو کہ ہلا جاتیوں کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھائیں۔ مسلمان ہونے سے تمہاری جات تو نہیں بدل گئی مسلمان ہو یا ہندو، ہو تو تم ہلا جات کے۔ ‘

’یہ تو آپن کی سمجھ میں نہیں آتا۔ جب میں ہندو دلت تھا تو کوئی دوسری جات کا میرے پاس نہیں بیٹھے اٹھے، کوئی مجھے نہیں چھوئے۔ برابری کے لئے تو میں نے دھرم بدلا لیکن نکسان ہی نکسان ہوا۔ ہندو دلت کا تو کوٹہ ہے ملاجمت کے لئے اسکول کا داکھلے کے لئے۔ میں نے رجسٹرار کے دفتر جا کر فارم بھر دیا کہ میں اپنا دھرم بدل رہا ہوں اب تو میں دلت نہیں ہوں۔ نہ ہمارا ملاجمت میں کوٹا ہے نہ اسکولوں میں اور تم لوگ میرے ساتھ ویسا ہی کر رہے ہو جیسے دوسری جات کے ہندو کرتے تھے۔ ‘

’تم مجھے یہ فجول باتیں کیوں بتا رہے ہو؟ چودھری صاب کا حکم ہے کہ ہلا جات کے لوگ الگ کھانا کھائیں۔ ‘

’اب توَ میں دلت نہیں ہوں۔ پھر مجھے بھی یہیں اِن سب کے پاس پنڈال میں بیٹھ کر کھانا کھانے دو۔ اُدھر تو سکت دھوپ ہے۔ ‘

’تو سنتا کیوں نہیں ہے؟ گوبر کا ٹوکرا سر پر اٹھاتاہے تو لگتا ہے کچھ تیرے دماگ میں بھی گھس گیا ہے۔ تو اس طرح باتیں کر رہا ہے جیسے دھرم بدل کر کمشنر لگ گیا ہے۔ تجھے کوئی کھاس دعوت دی تھی! پانچ گاؤں میں سے سب کو بلایا ہے۔ اب اگر اُدھر نہیں کھانا ہے تو چلتے بنو اور ہاں کھیال رکھنا، کبھی چودھری صاب کی چوپال کے سامنے سے نہیں گجرنا ورنہ ہلا جاتی کو بہت سَکتَ سجا ملتی ہے چاہے مسلمان ہو یا ہندو۔ ‘

٭٭٭

’کیا کام ہے؟ ‘ نیم مردہ کلرک نے آنکھیں سکیڑ کر اسے دیکھا۔

’دھرم بدلنا ہے مسلمان سے ہندو بننا ہے۔ ‘

’کیوں؟ ‘

’مسلما ن بھی ہم کو دلت ہی سمجھے ہیں، دوبارہ ہندو دلت بن جائیں گے تو کوٹے میں تو آجائیں گے۔ بچوں کے لئے آسانی ہو جائے گی۔ ‘

’ابھی تین مہینے پہلے تو ہندو سے مسلمان ہوا تھا۔ یہ کوئی کرکٹ کا بلّا نہیں ہے کہ جب چاہے بدل لے اب اسی دھرم میں رہ۔ ‘

’سرکار جی مہربانی ہو گی، بھگوان آپ پر کرم کرے گا۔ مجھے آپ پر بہت وشواس ہے۔ ‘

’جا یہاں سے، اچھی طرح جانکاری کرنا تھی دھرم بدلنے سے پہلے۔ ‘

’بابو جی مجھے لکھنا پڑھنا نہیں آتا جو مولوی جی نے بتایا مان لیا۔ ‘

’اب جا کر مولوی جی کے ساتھ رہ۔ ‘

٭٭٭

’اے کھدا! اے رام! میرا دھرم کیا ہے؟ یہ مسلمان مجھ کو پسند نہیں کرے ہیں ہندو بھی کبول نہیں کرے ہیں۔ کیا میری جات ہی میرا دھرم ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments